::: کتاب کا نام: "دیکھو ہم نے کیسے بسر کی":::
::مصنف : جتیندر بلّو::
*** اظہاریہ: احمد سہیل ***
فکشن نگار جتیندر بلّو کا سوانحی کولاژ" دیکھو ہم نے کیسے بسر کی" " {حصہ دوم / سال اشاعت 2017 } شائع ہوگیا ہے۔ جس میں زندگی کی تلخیوں اور انبساط کا حقیقت پسندانہ اور برہنہ بیانیہ ملتا ہے۔ جس میں مصنف کی ذاتی زندگی کو اتنے کھلے انداز میں پیش کی ہے کی کچھ قاری اس کو پڑھکر شرما جاَیئن گے۔ یہ جرات اظہار بہت کم سوانح نگاروں اور خود نوشت نویسوں کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔ ان انداز نگارش بہت دلچسپ اور سادہ ہے۔ مگر اس میں زندگی کی بے چینی اور تشنگی بھی ہے۔ جتیند بلو بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ مگر ان کے اس سوانحی کولاژ کی زبان افسانوی ہوتے ہوَئے بھی غیر افسانوی ہے اور اس میں سوانحی زبان کی نئی تخلیقی روش بردیافت ہوتی ہے۔ جتیندر بلّو لکھتے ہیں " میری ذات میں دبا ہوا تہہ در تہہ مواد صفحہ قرطاس پر انے کو بے تاب ہے۔ بہت اے انوکھے اور رنگیں واقعات اس برز کے ہیں، جنھیں ضبط تحریر میرے واسطے ناگزیر ہے۔ ورنہ تا دم آخر مجھے افسوس ہی رہے گا۔ " { ص 6} ۔۔۔ اس کتاب میں ہندوستاں کے بٹوارے کا نوسٹلجیا بھی ہے، ممبئی کی فلمی دنیا، انگلستان ان مں گوری عورت سے عشق اور شادی، اور کچھ بھارت کی آزادی اور گاندھی جی کے حوالے سے کچھ باتیں بھی ملتی ہیں۔ جو انھوں نے ایک مباجر کے در ناک دل و دماغ سے لکھی ہے۔ الیاس شوقی نے لکھا ہے ۔۔۔" تخلیق کار کا یہ المیہ یہ ہے کی وہ اپنی تخلیق پیش کرنے کے بعد کسی قدر مطمن ہو جاتا ہے ہے لیکن یہ اطیمنان عارضی ہوتا ہے کیونکہ کچھ دنوں بعد ہی اس کے اندر کی بے چینی اور تڑپ پھر سے زندہ ہوجاتی ہے۔ اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ اس نے کہا ہے اس مین کچھ رہ گیا ہے جس کے سبب ایک تشنگی کا احساس باقی رہتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو تخلیق کار کی موت ہے کیان کہ یہی تشنگی اسے اپنی اگلی تخلیق تک لے جاتی ہے۔" {ص7} اس کتاب کا سرورق شاداب رشید کا بنایا ہوا ہے۔ اس کتاب کو " کتاب دار" ممبی، بھارت نے شائع کیا ہے ۔ رابطہ ٹیلی فون ۔۔۔۔۔۔ 23411854/ ۔۔۔۔۔۔ 9869321477/۔۔۔۔۔9320113631:::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔