دیکھ لیا امریکا (سفرنامہ) پہلی قسط
بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی. جب انسان پے نیند کا غلبہ ہو تو پھر بحر الکاہل پر بھی نیند آ جاتی ہے زندگی میں پہلے بار نیلگوں سمندر کی وسعتوں پر سونے کا اتفاق ہوا. نیند اتنی گہری تھی کہ معلوم ہی نہیں پڑا کہ جہاز نے کب امریکا کی سرحدوں کو چھوا، کھانے پینے کے شور سے اچانک میری میری آنکھ کھلی سب مسافر ناشتے میں مصروف تھے. پورا جہاز کھانے کی خوشبو سے مہک رہا تھا. ایسے لگتا تھا سب لوگ دعوت پے آئے ہوۓ ہیں. نیند اتنی گہری اور مزیدار تھی کہ ساری تھکاوٹ دور ہو گئی – جہاز کے سفر سے مجھے ہمیشہ ڈر لگتا تھا لیکن نیند نے مجھے ڈر کا احساس ہونے نہ دیا. آہستہ آہستہ سارا خوف اور ڈر دور ہو چکا تھا. زندگی میں پہلی بار بوئنگ سیون فور سیون میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا تھا. جہاز میں بیٹھتے ہی میں پریشان ہو گیا کہ اتنا بڑا جہاز اوپر کیسے جاے گا پھر سوچا الله ملک ہے جو ہو گا دیکھا جاے گا یا تو امریکہ پہنچ جائیں گے یا پھر کہیں نہ کہیں ضرور پہنچ جائیں گے خیر چند ہی لمحوں میں ایئر ہوسٹس میرا ناشتہ لے کر آ گئی ابھی میں ناشتے سے فارغ ہی ہوا تھا کہ تمام مسافروں کو آئی نائنٹی فور فارم دئیے گئے اور انھیں بھرنے کو کہا گیا جلدی جلدی فارم بھرا. جہاز سمندر کی وسعتوں سے باہر آ چکا تھا کھڑکی سے دیکھا تو نیچے چھوٹے چھوٹے گھر دکھائی دئیے
مجھے اپنی آنکھوں پے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں امریکہ کی فضاؤں میں پہنچ چکا ہوں وہ امریکہ جو بچپن ہی سے میرا خواب تھا. Full House ، Different Strokes جیسے مشہور امریکی پرگراموں کو جب بھی دیکھتا میرا دل کرتا میں بھی امریکا پہنچ جاؤں مجھے یقین تھا ایک دن میں بھی امریکا ضرور جاؤں گا. جب میں سکول اور کالج میں اپنے دوستوں سے امریکا جانے کی بات کرتا تو اکثر دوست میرا مزاق اڑایا کرتے تھے. شائد ان کے لئے یہ کچھ ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں تھا ایک دیوانے کا خواب
اور ڈفرنٹ سٹروکس کی ڈینا پلاٹو ہمیشہ سے میرے خوابوں کی ملکہ تھی. میرے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کاش وہ میری گرل فرینڈ ہوتی کاش میں جلدی سے اڑ کر اس کے پاس امریکہ پہنچ جاؤں
پاکستان میں عورت ہمیشہ ایک خواب ہی ہوتی ہے. عورت ایک ایسی مخلوق ہوتی تھی جسے نہ آپ چھو سکتے تھے نہ محسوس کر سکتے تھے نہ قربت حاصل کر سکتے تھے عورت سے پیار اور رومانس صرف خوابوں میں ہی ممکن تھا یا پھر ٹیلی ویژن پر کسی امریکی پروگرام کو دیکھ کر یا بالی ووڈ کی مووی دیکھ کر ہی اپنی حسرتوں پر آنسو بہائے جا سکتے تھے
ہمارا جہاز لاس اینجلس کی فضاؤں میں اڑنے لگا. جہاز نے شہر کا ایک چکر کاٹا. زندگی میں پہلی بار امریکا کی فضاؤں اڑتے ہوۓ ایک عجیب احساس ہو رہا تھا. جیسے میں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہو. ایک عجیب خوشی اور اطمینان تھا دل میں بس ایک ہی دعا تھی یااللہ اب ہمارے اس عظیم الجثہ جہاز کو با حفاظت زمین پر اتار دے پھر جہاز نے شہر کا چکر لگانے کے بعد نیچے آنا شروع کیا اور چند ہی لمحوں میں جہاز زمین پر تھا. میرا امریکہ آنے کا خواب آج پورا ہو گیا تھا وہ دوست اور عزیز جو اکثر کہا کرتے تھے کہ امریکا جانے کے خواب مت دیکھا کرو تمارا یہ خواب ایک دیوانے کا خواب ہے لیکن آج میرے چہرے پر ایک عجیب اطمینان تھا. جیسے میں نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو. میرے لئے یہ ایک کارنامہ ہی تو تھا کہ میں نے آج ایک خواب کو حقیقت کا روپ دیا جھنگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک کچے گھر میں پیدا ہونے والا آج اپنے خواب کی تکیمل ہوتے دیکھ رہا تھا. شائد میں نے زندگی میں کبھی ہارنا نہیں سیکھا تھا ناممکن کے لفظ سے آج تک ناواقف تھا. زندگی میں ہر کام کو میں نے ایک چیلینج سمجھ کر قبول کیا اور پھر اس وقت تک ہمت نہیں ہاری جب تک چیلنج کو پایا تکمیل تک نہیں پہنچایا. میری تعلیم کا یہ سفر گاؤں کے اس سکول سے ہوا جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے جہاں اپنی اپنی تختیاں خود ہی دھونا پڑتیں اور پھر ان پر گاچی کا لیپ بھی خود ہی لگانا پڑتا. قلم دوات اور کالی سیاہی سے اکثر ہاتھ کالے ہو جایا کرتے تھے لیکن تعلیم اور خوشخطی کے شوق میں سب اچھا لگتا تھا سردیوں کی دھوپ میں سکول کے باہر سب بچے اپنی اپنی گیلی تختیوں کو ہاتھوں میں پکڑ کر زور زور سے گھمایا کرتے تھے تاکہ انکی تختیاں جلد سوکھ جائیں بچپن کی ان حسین اور معصوم یادوں کو میں اپنے ساتھ امریکہ لے آیا ہوں یہ حسین یادیں ہمیشہ میرے ساتھ ساتھ رہیں گی جب تک زندگی کی سانسیں باقی ہیں
سب مسافر اپنے اپنے سامان کو سمیٹ کر جہاز سے نکلنے لگے. خوشی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سا خوف بھی تھا کہ پتا نہیں آگے کیا ہونا والا ہے. کون کون سی مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا. ایک انجان ملک تھا نہ یہاں میرا کوئی رشتہ دار تھا نہ ہی کوئی قریبی دوست صرف ایک امریکی دوست تھا جس کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا
پاکستان میں سنا تھا امریکہ کے ائیرپورٹ پر بہت سختی ہوتی ہے بس یہی دعا تھی سب کچھ خیر خریت سے ہو جاے پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اسکا ذاتی تجربہ مجھے بنکاک کے ائیرپورٹ پر ہو چکا تھا. کیلی فورنیا آنے کے لئے مجھےلاہور سے بنکاک آنا تھا پھر وہاں سے امریکہ کے لئے فلائٹ لینا تھی جو ساؤتھ کوریا میں مختصر قیام کے بعد لاس اینجلس کے لئے روانہ ہونا تھی. بنکاک میں جیسے ہی امریکا جانے کے لئے اعلان ہوا میں بورڈنگ کارڈ کے لئے لائن میں لگ گیا چند ہی لمحوں میں ایک تھائی سیکورٹی گارڈ میرے پاس آئی مجھے لائن سے الگ کر کے ایک طرف لے گئی اور میرا پاسپورٹ لے لیا. میں کافی پریشان ہو گیا کہ میرے ساتھ یہ کیا ماجرا ہو رہا ہے مجھے یقین تھا میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا. میرے تمام ڈاکومینٹس بھی real ہیں اور میرا student visa جو مجھے امریکن قونصلیٹ لاہور سے جاری ہوا تھا وہ بھی real ہے شائد اسے میرے پاکستانی ہونے پر مجھ پر شک ہو گیا تھا وہ میرا پاسپورٹ اپنے ساتھ لے گئی.خیر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میری پریشانی بڑھتی گئی مجھے ڈر تھا کہیں اسی دوران میری فلائٹ ہی چھوٹ نہ جاے پھر تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی مجھے میرا پاسپورٹ واپس کیا اور مجھے بورڈنگ کارڈ ملا میں جلدی جلدی جہاز میں سوار ہو گیا
باقی آئندہ کی قسطوں میں پڑھیے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔