(قسط نمبر پانچ)
جدید دہشت گردی کا آغاز ٹیلی ویژن کی مقبولیت کے ساتھ ہی ہوا اور یہ محض اتفاق نہیں۔
اس کا پہلا واقعہ 22 جولائی 1968 میں روم سے تل ابیب جانے والی فلائٹ کے اغوا کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ فلسطینی مارکسسٹ لیڈر جارج حبش نے کیا تھا۔ لیفٹ ونگ کی جماعت پاپولر فرنٹ کے بانی فلسطینی سیاستدان جنہوں نے کہا تھا کہ “طیارے کا اغوا ایک لاکھ اسرائیلی فوجیوں کو میدانِ جنگ میں مار دینے سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ خبروں میں آتا ہے، لوگوں کی توجہ حاصل کرتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہشت گرد کا مقصد دہشت پھیلانا ہے اور ٹی وی پر چلتی خبر یہ دہشت لوگوں کے دلوں تک پہنچا دیتی ہے۔ ایک تجزیہ نگار کے مطابق، “دہشت گرد کے لئے یہ اتنا اہم سوال نہیں کہ کتنے لوگ مرے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کتنے لوگوں نے یہ سب دیکھا۔ دہشت گردی ایک تھیٹر ہے”۔
ان حملوں کی ایک لہر 1985 میں آئی تھی۔ فلائٹ 847 کا لبنانیوں کی طرف سے اغوا، ایک نیوی غوطہ خور کا قتل اور بیروت رن وے پر شرائط طے کرنا لائیو ٹی وی کوریج تھا۔ اکتوبر میں اٹلی میں کروز شپ کی ہائی جیکنگ۔ ویانا اور روم میں ابو ندال تنظیم کی طرف سے ہوائی اڈے پر قطار میں کھڑے مسافروں پر حملہ جس میں ایک گیارہ سالہ بچی کو گولی ماری گئی اور جس وقت وہ بچی اپنے والد کی بانہوں میں تھی تو اسی حالت میں اس کا بھیجا اڑا دیا گیا۔ یہ سب پرائم ٹائم ٹی وی پر چلتا تھا۔ لوگوں کی توجہ لیتا تھا۔ یہ کوریج دہشتگردوں کا مقصد تھا۔ یہی دور تھا جب فلسطینی تحریکِ آزادی کے علاوہ آئرش ر ری پبلکن آرمی، سپین میں باسک علیحدگی پسند، اٹلی کے ریڈ بریگیڈ، جرمنی کا بادر مین ہوف گینگ، سبھی نے یہی طریقہ اپنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغان جنگ میں دہشت کے طریقے کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر اپنایا گیا۔ بریگیڈئیر یوسف اس کو “ہزار زخموں سے موت” کہتے تھے۔ 1983 میں کابل یونیورسٹی کی ایک میز کے نیچے بریف کیس میں رکھے گئے بم سے ایک خاتون سمیت نو پروفیسر مارے گئے۔ بم دھماکہ کرنے والے گروپ کے لئے یہ ایک جائز ٹارگٹ تھا۔ “یہ طلباء کے ذہنوں میں مارکسزم کا زہر ڈال رہے تھے”۔ مجاہدین کمانڈوز نے بعد میں یونیورسٹی کے ریکٹر کو بھی قتل کر دیا۔ کابل میں سوویت فوجیوں کو سنائپر فائر سے قتل کیا گیا۔ دھماکہ خیز مواد اور ڈیٹونیٹر بھی خریدے گئے اسلحے کا حصہ تھے۔ ایسے بم جو نصب کرنے کے مخصوس وقت کے بعد پھٹیں، ان کی کم قیمت پر سستی تیاری اور پرفیکشن اس دور میں آئی۔ تربیت یافتہ کار بم سکواڈ نے بدنام افغان خفیہ پولیس کے چیف کو قتل کرنے کی کئی کوششیں کیں لیکن ناکام رہے۔ افغان خفیہ پولیس تشدد کرنے میں ثانی نہیں رکھتی تھی۔ اس کے چیف کے بارے میں عام تاثر ایک بے رحم خونی قاتل کا تھا۔ یہ چیف بعد میں بننے والے افغان صدر نجیب اللہ تھے۔
زہرخوانی، گھات لگا کر کئے جانے والے حملے اور فائرنگ سے مر جانے کی دہشت روسی افسروں اور فوجیوں کے دل میں تھی۔ اس کے لئے سی آئی اے نے سیاہ اور کسی بھی شکل میں ڈھال لیا جانے والا مواد فراہم کیا تھا جس سے موت کے پھندے تیار کئے جا سکتے تھے۔ ان کو بنانے کی ٹریننگ پاکستانی خفیہ ایجنسی خاص سکواڈز کو دیا کرتی تھی۔ روسیوں کو قلم، گھڑی، سگریٹ لائٹر اور ٹیپ ریکارڈر میں بھی موت ملنے لگی تھی۔ کھانے پینے کی چیزوں میں زہر کی صورت میں بھی۔ سینما اور کلچرل شوز میں بھی بم پھٹنے لگے۔ کار بم ملٹری لیڈرز کے لئے تھے۔
یوسف کے مطابق، “یہ ضروری ہے کہ دشمن کے دل میں ہر وقت خوف رہے کہ وہ کہیں پر بھی محفوظ نہیں۔ عام شہری ہمارا نشانہ نہیں۔ افسوسناک سائیڈ ایفیکٹ ہیں۔ کوشش ہے کہ ان کی تعداداد کم سے کم رہے”۔ جب یہ کام راکٹوں کے ذریعے ہونے لگا تو عام شہری والی کنڈیشن بھی پسِ منظر میں چلی گئی۔ دہشت کا ہتھیار خوف و ہراس پھیلانے میں کامیاب رہا۔ یہ نظم ایک روسی فوجی نے لکھی
افغانستان
ایک جادوئی دنیا
ایک سٹور میں قدم رکھو
اور غائب ہو جاوٗ گے
ایک چیز جو افغان مجاہدین نے نہیں کی، وہ خود کش حملہ تھا۔ اس کو حرام سمجھا جاتا تھا۔ خوف طاری کر دینے کا یہ والا طربقہ اس سے خاصی دیر بعد عرب مجاہدین کے ذریعے یہاں تک آیا۔ دوسری حرکات کی طرح اس کے لئے بھی جواز تلاش کر لیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی تکنیک، یہی حربے، یہی ہتھیار، یہی ٹریننگ کورس۔ جنگ اور دہشت گردی کا یہ تھیٹر۔۔۔ جو یہاں پروان چڑھا تھا، باقی دنیا تک گیا۔ دہشت گردی کو ابھی تک لاء انفورسمنٹ اداروں کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا، قومی سلامتی کا نہیں۔ اگلے برس برسوں میں یہ بدلنے جا رہا تھا۔
چند سال بعد بارود، دھماکوں خون اور آنسووٗں، خوف اور لاشوں کا یہ شو پاکستان کے اپنے پرائم ٹائم ٹیلیویژن پر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد میں 19 نومبر 1995 کو صبح ساڑھے نو بجے ایک ٹیکسی مصری سفارتخانے کے گیٹ کے قریب پہنچی۔ اس میں ایک سو کلوگرام وزنی بم تھا۔ خود کش دھماکے سے یہاں کھڑے گارڈز کی ہلاکت کے علاوہ گیٹ بھی ٹوٹ گیا تھا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر ایک جیپ جس پر اس سے بڑا بم لدا تھا، اندر داخل ہوئی۔ دوسرا خود کش حملہ سفارت خانے کے اندر کیا گیا جس نے عمارت کی ایک سائیڈ اڑا دی۔ ساتھ ایک بینک کے علاوہ جاپانی اور انڈونیشین سفارتخانے کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
یہ پاکستان میں پہلا خودکش حملہ تھا۔ اس کو کرنے والوں نے افغانستان میں القاعدہ کے درونتہ کیمپ سے تربیت حاصل کی تھی۔ اس کو پلان کرنے والے ایمن الظواہری تھے جو اسامہ بن لادن کے نائب تھے اور ان کے بعد القاعدہ کے سربراہ بنے۔ ایمن الظواہری نے اس پر الشرق الوسط کو دئے گئے بیان میں کہا، "مصری حکومت کی ہمارے خلاف چلنے والی مہم میں ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اس کا جواب دینا ضروری تھا۔ ہم نے تمام ٹارگٹس کا جائزہ لیا۔ پہلے امرییکی اور مغربی سفارت خانوں کو دیکھا لیکن ان کو نشانہ بنانا اس گروپ کی اہلیت سے باہر تھا۔ ہم نے مصری سفارت خانے کا انتخاب کیا۔ یہاں سے عرب مجاہدین کے خلاف جاسوسی ہوتی تھی اور انڈیا بھی اس میں شریک تھا۔ سفارت خانے کے اس ملبے نے مصری حکومت کو ایک واضح پیغام بھیجا ہے"۔
سفارت خانے کے سیکورٹی گارڈز سمیت درجنوں لوگوں کے ہلاک اور زخمی کر کے پہنچایا جانے والا یہ پیغام پاکستان میں ہونے والے پانچ سو حملوں میں سے پہلا تھا۔
ساتھ لگی تصویر بیس نومبر 1995 کی اخبار سے ہے۔