پہلی اگست 1966 میں چارلس وہٹ مین نے یونیورسٹی آف ٹیکساس ٹاور میں اوپر جانے والے زینے پر قدم رکھا۔ پچیس سالہ نوجوان تین منزلیں چڑھ کر اوپر پہنچا۔ اس کے ساتھ اسلحے کا بیگ تھا۔ اوپر جا کر سب سے پہلے ریسپشنسٹ کو بندوق کا بٹ مار کر قتل کیا۔ اوپر آنے والی دو فیملیز پر گولیاں چلائیں۔ ایک حاملہ خاتون کو شوٹ کر دیا۔ پھر اس کی مدد کرنے والوں پر گولیاں چلا دیں۔ سڑک پر چلتے راہگیروں پر فائرنگ شروع کر دی۔ پھر آنے والی ایمبولنس پر بھی۔
کئی گھنٹوں کے بعد تین پولیس افسروں نے اور ایک شہری نے اوپر آ کر وہٹ مین کو فائرنگ کر کے مار دیا۔ ان گھنٹوں میں وہٹ مین نے پندرہ افراد کو قتل اور اکتیس کو زخمی کیا تھا۔ اس سے پچھلی رات وہٹ مین نے اپنے ٹائپ رائٹر پر یہ لکھا تھا۔
“مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے ایک ذہین اور عقلمند نوجوان ہونا چاہیے تھا لیکن مجھے آجکل خوفناک سوچوں کا سامنا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ شروع کب ہوا تھا لیکن یہ سوچیں بار بار آتی ہیں۔ ان کو ذہن سے نکالنے خود بڑا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میں کسی اچھے کام کی طرف توجہ ہی نہیں دے پا رہا۔”
شوٹنگ کی یہ کہانی بڑی قومی خبر بن گئی۔ پولیس تفتیش کیلئے گھر پہنچی تو ایک اور ہولناک انکشاف ہوا۔ وہٹ میں نے اپنی ماں اور بیوی کو قتل کر دیا تھا۔ سوتے میں چاقو کے وار سے۔ اس کے بعد اپنی خودکشی کے نوٹ میں یہ لکھا تھا۔
“میں سوچ سجھ کر اپنی بیوی کو قتل کر رہا ہوں۔ میں اس سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ اس سے اچھی بیوی مل ہی نہیں سکتی۔ مجھ نہیں پتا کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں۔”
اس کہانی میں کئی عجیب موڑ تھے۔ وہٹ مین ایک سکاوؐٹ رہے تھے۔ فوج میں اٹھارہ ماہ گزارنے اور ایک بہترین نشانہ باز بننے کے بعد فوج کو جوا کھیلنے پر چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد ایک بینک میں کیشئیر کی ملازمت کی اور ساتھ رضاکار بھی تھے۔ بچپن میں انتہائی ذہین اور 138 کا آئی کیو جو ہزار میں سے ایک بچے کا ہوتا ہے۔ اسلحے کے شوقین سخت گیر باپ کے ساتھ گزرا ایک عام بچپن۔ اچھا طالبعلم جس نے سکول میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اخبار بیچ کر موٹرسائکل خریدنے کا شوق پورا کیا تھا۔ ہر اتوار چرچ جایا کرتے۔ بائیولوجی کی ٹیچر سے چار سالہ شادی مجموعی طور پر خوشگوار رہی تھی۔
یہ واقعہ کیوں ہوا؟ سب کو جواب چاہیئں تھے۔ یہاں تک کہ خود وہٹ مین کو بھی۔
اپنے خود کشی کے نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ ان کے دماغ میں کچھ بدل گیا ہے۔ چند ماہ پہلے لکھی ڈائری میں یہ انٹری تھی۔
“میں نے دو گھنٹے ڈاکٹر سے بات کی ہے۔ اپنے خوف بتائے ہیں۔ اپنے اندر آنے والی پرتشدد سوچیں بھی۔ میں اس وقت اپنے سے لڑائی کر رہا ہوں۔ مجھے ڈاکٹر سے مدد نہیں ملی۔ مجھے خوف ہے۔ میں دہشت زدہ ہوں۔ کہیں میں ہار نہ جاوٗں۔”
وہٹ مین کی وصیت کے مطابق ہی اس کو پوسٹ مارٹم کیلئے لے جایا گیا۔ مرنے کے دماغ کا تجزیہ کرنے کیلے۔ وہاں پر پتہ لگا کہ وہٹ مین کے دماغ میں ایک سکے کے سائز جتنا ٹیومر تھا۔ یہ ٹیونبر گلیوبلاسٹوما کہلاتا ہے یہ دماغ کے ایک سٹرکچر تھیلیمس کے نیچے تھا اور ہائیپوتھیلیمس اور امگڈالا کو دبا رہا تھا۔ امگڈالا ہمارے جذبات کی ریگولیشن میں کام آتا ہے۔ خاص طور پر خوف اور جارحیت کے حوالے سے۔ اگر بندروں میں اس کو نکال دیا جائے تو جذباتی بے ربطگی، اوور ری ایکشن اور خوف ختم ہو جانے جیسا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتی ہیں۔ انسانوں میں کئی سوشل فوبیاز کے پیچھے اس کی خرابی ہوتی ہے۔
وہٹ مین کا اپنے بارے میں اندازہ ٹھیک تھا کہ ان کے دماغ میں کوئی شے ان کو بدل رہی ہے۔ خود کشی کے نوٹ میں
“میں نے اپنے پیاروں کو بے دردی سے مار دیا ہے۔ لیکن میں نے ایسا ان کو کم سے کم تکلیف پہنچا کر کیا ہے۔ اگر میری لائف انشورنس مجھے رقم ادا کر دے تو اس سے پہلے میرا قرض اتار دیا جائے۔ باقی رقم اور میرا دماغ کسی دماغی صحت کے ادارے کو دے دیا جائے۔ اس تحقیق سے آئندہ ایسے سانحے کو روکنے میں مدد مل سکے”۔
ایک لفافے کے اوپر لکھا تھا۔ “بس بہت ہو چکا ہے۔ میں مزید مقابلہ نہیں کر پا رہا۔”
وہٹ مین کی تبدیلیوں کو دوسروں نے بھی نوٹس کیا تھا۔ ایک قریبی دوست نے کہا، “کئی بار لگتا تھا کہ وہ اوپر سے تو نارمل ہے لیکن خود اپنے اندر کسی چیز پر قابو پانے کی کوشش میں ہے”۔ وہٹ میں کے دماغ کے غصے اور جارحیت والے پروگرامز کا مقابلہ ٹھنڈے اور جذبات پر قابو پانے والے پروگرامز سے تھا لیکن دماغ کے اس ٹیومر نے اس لڑائی کا توازن بدل دیا تھا۔ ایک سکے جتنے ٹیومر نے ایک ذہین نوجوان کو دہشتگرد بنا دیا تھا۔
کیا ہم اپنی بائیولوجی سے الگ ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔
ہمارے رویوں کے پیچھے اور کیا کیا کچھ ہے۔ دماغ کے کنکشنز اور ڈی این اے سے لے کر پاسپورٹ کے رنگ، بچپن کی ڈانٹ ڈپٹ اور آج کے پریشر اور ترغیبات تک اس کی اگلی اقساط میں۔
سمجھنے کی اہم بات یہ کہ اگر آپ کسی بھی واقعے کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ “اگر میں اُس کی جگہ پر ہوتا تو ایسا نہ کرتا” تو یہ بالکل غلط ہے۔ آپ کسی اور کی جگہ پر ہو ہی نہیں سکتے۔ نہ آپ کی بائیولوجی اس شخص والی ہے اور نہ ہی اس جیسے ماحول سے گزرے ہیں۔ زندگی کی بازی کھیلنے کیلئے تاش کے جو پتے آپکو ملے ہیں، وہ بس آپ کے ہی ہیں۔ دوسرے کا ہاتھ آپ سے مختلف ہے۔