دس ہزار فٹ کی بلندی پر، یہ الفاظ لکھتے وقت درجہ حرارت منفی ستر ڈگری ہے۔ چار ماہ سے سورج نے شکل نہیں دکھائی۔ یہاں پر دس مرد اور تین خواتین انسانی تہذیب سے ہزاروں میل دور ایسی جگہ پر رہ رہے ہیں جہاں پر ہر سمت میں ایک ہزار کلومیٹر دور تک صرف برف ہے۔ میلوں دور تک نہ ہوئی جانور ہے، نہ پودا۔ یہ اینٹارٹیکا میں کنوکارڈیا سٹیشن ہے۔ اٹلی اور فرانس کی اس سائنسی تجربہ گاہ سے قریب ترین انسان چھ سو کلومیٹر دور ہیں جو روس کے وولٹک سٹیشن میں ہیں۔ نو ماہ تک یہاں پر کسی طریقے سے آنا جانا ممکن نہیں، لیکن پچھلے تیرہ برس سے یہاں پر پورا سال عملہ موجود رہتا ہے۔ سال بھر کا سامان بارہ سو کلومیٹر دور ایک اور سٹیشن سے ٹریکٹروں کے قافلوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ یہ سفر دس دن کا ہے۔ یہاں پر کم سے کم درجہ حرارت منفی اکانوے ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا ہے، جبکہ اوسط درجہ حرارت منفی اکاون ڈگری ہے۔ یہاں پر ہونے والی تحقیق گلیشیولوجی، آسٹرونوجی اور بائیولوجی پر ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی اس کو اس مقصد کے لئے استعمال کرتی ہے کہ لمبے خلائی سفر میں انسانی جسم پر ہونے والے اثرات کی آگاہی حاصل کی جا سکے۔ نفسیاتی حوالے سے انسان کے ذہن پر تنہا اور بند ماحول میں کیا بیتتی ہے؟ انسان کے جسم کے اندر کے بیکٹریا کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ دن اور رات کا چکر ختم ہو جانے سے جسم کیسے متاثر ہوتا ہے؟ سرد اور کم آکسیجن والے ماحول سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
یہاں پر آئس کورنگ کرتے ہوئے دنیا کی قدیم برف کا علم ہوا۔ یہ پانی نو لاکھ سال قبل منجمد ہوا تھا۔ یہ آئس کور پراجیکٹ کا حصہ ہے اور اس پراجیکٹ کو 2008 میں سائنسی تحقیق پر ڈیسکارٹس پرائز ملا تھا۔ برف کی تہوں سے زمین پر گزرے پرانی موسم، مقناطیسی فیلڈ کی تاریخ، حرارت کے فلکس اور ہوا میں گیسوں کے تناسب کو برف کے ڈیوٹریم آئسوٹوپ کے ذریعے معلوم کیا گیا۔
یہاں کی فضا میں کسی قسم کی مٹی نہیں۔ اس لئے آسٹرنومی کے لئے اچھا مقام ہے اور تیس میٹر اونچی رصدگاہ بنانے کا ایک پلان بھی ہے۔
یہ جگہ انٹرنیٹ سے سیٹلائیٹ کے ذریعے منسلک ہے اور یہاں پر عملے کا ہر ممبر اپنی ویڈیو ڈائری ریکارڈ کرتا ہے۔ ایک ممبر کی ڈائرئ سے ایک اقتباس۔
"یہ جگہ میرے اندر کئی سوال بیدار کر رہی ہے جو میں نے سوچے نہ تھے۔ جب وقت گھڑیوں اور کیلنڈر کی قید میں نہ ہو تو تیزی سے گزر جاتا ہے لیکن یہاں پر وقت کیا ہے؟ پتہ نہیں وقت ہے بھی کہ نہیں لیکن گزر رہا ہے۔ یہاں پر موسم برف کو تراش کر شکل دے رہا ہے اور یہ سردی مجھے تراش رہی ہے۔ میں بدل رہا ہوں۔ روشنی نہ ہو تو یہ لامحدود افق شعور پر اثر کرتا ہے۔ میں باہر کام کرنے گیا۔ ہمیشہ کی طرح کپڑوں کے ایک ڈھیر میں لپٹ کر، ایک آہنی ٹوپی اور ایک ٹارچ۔ کنکورڈیا ایک لمبی رات میں ہے۔ ویسی رات میرے سوچوں میں ہے۔ مجھے سورج کے نہ ہونے کا احساس نہیں لیکن میرا جسم اور میری روح اب اس کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ افق پر چند منٹ کا اجالا میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا۔ ان چند منٹوں میں جب سورج ٹمٹمایا تھا، ایسے لگا تھا جیسے میں اپنی ماں کی آغوش میں پہنچ گیا ہوں۔ وہ بانہوں میں جا کر گرمی اور حرارت کا احساس اور ایسے نکلتی توانائی جیسے اپنی کسی عزیزترین ہستی کی"۔
انسانوں کی اس دنیا میں آمد سے بھی بہت پہلے یہاں پر جنگل اور دریا ہوا کرتے تھے۔ آج یہاں پر انسان نے بستی بسائی ہے۔ زمین سے باہر کے جہانوں پر کمند ڈالنے کے لئے، زمین کی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے اور دنیا کے مستقبل اور موسموں سے بہتر واقفیت کے لئے۔
جن جگہوں پر انسان پورا سال رہتے ہیں، کیا یہ جگہ ان میں سے انسانوں کے رہنے کی نامناسب ترین جگہ ہے؟ نہیں۔ سردی کے علاوہ اپنی اونچائی، اپنے موسم اور اپنے جغرافیے کے وجہ سے نامناسب ترین جگہ جہاں پر فطرت ہزاروں انسانی جانیں نگل چکی، ہر سال نگلتی ہے اور اپنے مکینیوں پر طویل المدت منفی اثرات کرتی ہے، وہ اس کے مقابلے میں ہمارے بہت قریب ہے۔ یہ جگہ قراقرم کے سلسلے میں سلسلہ کوہ سالتورو کے پاس ہے۔
پہلی تصویر کنکورڈیا سٹیشن کی گرمیوں میں
دوسری تصویر کنکورڈیا سٹیشن کی سردیوں میں
تیسری تصویر یہاں پر سامان پہنچانے والے قافلے کی
چوتھی تصویر یہاں کے عملے کی
پانچویں تصویر میں اینٹارٹیکا کا نقشہ ہے جس میں یہ سٹیشن زرد رنگ سے نمایاں کیا گیا ہے
چھٹی تصویر اس جگہ کی فضا سے کھینچی ہوئی
یورپی خلائی ایجنسی یہاں پر کیا سٹڈی کرتی ہے