سید قطب، حسن البنا اور مودودی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جہادی دہشتگردی تنظیموں جن میں اخوان المسلمین، جماعت اسلامی پاکستان جماعت اسلامی بنگلہ دیش، جماعت اسلامی انڈیا، جماعت اسلامی انڈونیشیا، القاعدہ، داعش، بوکو حرام یا شباب کے جد امجد ہیں۔
مولانا مودودی نا صرف فاشسٹ نظریات کا رکھتا تھا بلکہ فاشزم کے پھیلاؤ اور جماعت اسلامی کی شکل میں عملی طور پر ثابت بھی کیا۔ مولانا مودودی نے پاکستان میں مذہب کے نام پر فسطائیت اور منافقت کا بیج بویا اور جماعت اسلامی نے اس بیج کی ایسی آبیاری کی کہ جس کے نتائج ہم آئے دن پاکستان کی گلیوں، محلوں اور شاہراہوں پر دیکھتے ہیں۔
مولانا مودودی نے پاکستان بننے سے پہلے اپنی جماعت کا منشور مولانا ابوالکلام آزاد کو مطالعہ کے لئے دیا تو انہوں نے اس منشور کو پڑھنے کے لیے کچھ دن مانگے اور مطالعہ کرنے کے بعد مولانا مودودی کو کہا کہ آپ اور آپکی جماعت کا یہ منشور فسطائیت پر مبنی ایجنڈا تو ہوسکتا ہے لیکن اس منشور میں کسی بھی شخص بشمول مسلمانوں کے لئے کوئی خیر کا پہلو نہیں۔
مولانا مودودی کے مطابق، درحقیقت اسلام ایک عسکری نظریہ اور پروگرام ہے جو پوری دنیا کے سماجی نظام کو بدلنا چاہتا ہے اور اسے اپنے اصولوں اور نظریات کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ‘مسلم’ اس بین الاقوامی عسکری پارٹی کا عنوان ہے جسے اسلام نے اپنے عسکری پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے منظم کیا ہے۔ اور ’جہاد‘ سے مراد وہ عسکری جدوجہد اور انتہائی محنت ہے جسے اسلامی پارٹی اس مقصد کے حصول کے لیے عملی جامہ پہناتی ہے۔
بقول مولانا مودودی، اسلام روئے زمین پر کہیں بھی ایسی تمام ریاستوں اور حکومتوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے جو اسلام کے نظریے اور پروگرام سے مطابقت نا رکھتے ہوں، قطع نظر اس کے کہ اس پر حکمرانی کرنے والے ملک یا قوم کسی بھی نظریہ یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ ‘جہاد کا مقصد ایک غیر اسلامی نظام کی حکمرانی کو ختم کرنا اور اس کی جگہ ایک اسلامی نظام کو ریاستی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلام اس انقلاب کو کسی ایک ریاست یا چند ممالک تک محدود رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسلام کا مقصد جہاد کے ذریعے ایک عالمگیر اسلامی انقلاب برپا کرنا ہے۔
اسلامی جہاد کا یہ داعی (مولانا مودودی) بآلاخر 1979 میں ایک کافر ملک امریکہ میں ایک کافر ہسپتال میں کافر ڈاکٹروں سے علاج کروانے کا پہنچا!!!
کیا منافقت ہے!!