دہشت گردوں کے سہولت کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری دنیا میں سب سے پہلے قتل کرنے والے کو ہی پھانسی کی سزا دی جاتی تھی ، پولیس یا دوسری ایجنسیاں عدالت کو مختلف ثبوت مہیا کرتی جس سے ملزم کی وہاں موجودگی ثابت کی جاتی، آلہ ِ قتل پہ ملزم کے فنگر پرنٹ ثابت کیے جاتے ملزم کے کپڑے بطور ِ ثبوت پیش کیے جاتے جن پہ مقتول کے خون کے دھبے لگے ہوتے دروازوں سے بھی ملزم کے فنگر پرنٹ لیے جاتے ملزم کی مقتول کو قتل کرنے کی وجوہات بھی ثبوت کے طور پہ پیش کی جاتیں اور وقعہ پہ اگر کچھ لوگ موجود ہوں جنھوں نے ملزم کو قتل کرتے دیکھا ہو یا ملزم نے ان کے سامنے مقتول کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ہو ایسے لوگوں کو بھی بطورگواہ ملزم کے خلاف پیش کیا جاتا ہے، اسی طرح کے اور ثبوت کو دیکھتے ہوئے منصف ملزم کے جزم کے مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی کو عمر قید کی یا پھر پھانسی کی سزا دیتا تھا ۔۔۔
مگر بعد میں ایسے لوگوں کو بھی شامل ِ تفتیش کرکے سزائیں دینی شروع ہوئیں جو خود تو وہاں نہیں تھے اور نہ ہی انھوں نے خود قتل کیا تھا مگر وہ اس قتل کی سازش میں شریک ہوتے تھے ، اس قتل کی منصوبہ بندی میں شامل ہوتے تھے قاتل کو قتل کرنے کی تمام سہولتیں مہیا کرتے تھے جن میں قتل کرنے کے آلات سے لے کر مقتول تک پہنچنے کے لیے تمام ذرائع مہیا کرتے ۔ آج کی عدالتی زبان میں ایسے لوگوں کو ماسٹرمائینڈ کہا جاتا ہے ان ماسماسٹر مائینڈ لوگوں میں کچھ نے کرائے کے قاتل بھی رکھے ہوتے ہیں یہ خود تو سفید دھلے ڈھلائے کپڑے پہنے رہتے ہیں لیکن اپنے کرا ئے کے لوگوں سے اپنے مخالفوں کو قتل کرا کے اپنے مقاصد حاصل کر لیتے ہیں کچھ ماسٹر ماسئینڈ قاتلوں کو پیسے نہیں دیتے بلکہ قاتلوں کو ایسے واقعات سنا کر اپنے دشمنوں کے خلاف ذہنی طور تیار کر دیتے ہیں کہ قاتل سمجھتا ہے مجھے یہ قتل کر دینا چاہیے
اج کل مذہب کے نام پہ کچھ گروہ اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو اپنے مخالف لوگوں کو قتل کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ یہ لوگ خدا اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور ان کو قتل کرنا خدا اور اس کے رسول کے احکامات پہ عمل کرنا ہے اس کے لیے وہ قرآنی حوالے دے کر قتل کرواتے ہیں ۔۔۔ جب اسلام آیا تھا اس دور میں اسلام پھیلانے کے لیے مسلمانوں نے کافروں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے حوالے دیتے ہیں
مگر یہ لوگ انسانوں کو قتل کروانے کے لیے سب سے زیادہ احادیث کے حوالے دے کر خودکش بمبار تیار کرتے ہیں اور احادیث کے حوالے دے کر ہی ان لوگوں کو جنت میں اعلی مقام دلانے کی بشارتیں دیتے ہیں اور ان کو جنت میں حوروں کی گود میں بیٹھنے کی پیشن گوئیاں کرتے ہیں
یہ لوگ جن احادیث کے حوالے دیتے ہیں ان میں سب سے زیادہ امام بخاری کی احادیث کے حوالے دے کر ان قاتلوں کو تیار کیا جاتا ہے۔۔۔ امام بخاری کی احادیث میں آپ کو ہر قسم کی حدیث مل جاتی ہے یہ مذہبی انتہا پسندوں کے پاس ایک مداری کی ایسی پٹاری ہے جس میں سے وہ جو چا ئیں نکال لیتے ہیں ۔
ایک مرد کو لاتعداد عورتوں سے شادی کے کبوتر بھی امام بخاری کی احادیث والی پٹاری سے نکال لیں گے ، چار گواہوں کی غیر موجودگی میں مرد کو عورت کے ساتھ جنسی فعل کرنے کا اجازت نامہ بھی امام بخاری سے دلوا دیں گے اور اگر کہیں غلطی سے چار گواہوں نے دیکھ بھی لیا ہو اور وہ گواہی دینے کے لیے تیار بھی ہوں تو یہ سفاک درندے ان گواہوں کے صادق امیں ہونے کی شرط لگا کر امام بخاری سے ان کی گواہی غیر موثر کرا دیں گے
یہ سولہ حج کرنے والوں کو امام بخاری کی احادیث سے کافر کا رتبہ بھی دلوا دیتے ہیں
قاتلوں کو جنتی ثابت کرنے کے لیے امام بخاری کی کتاب ایسی حدیثوں سے بھری پڑی ہے
یہ عورت کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو تو بے گناہ ثابت کرنے میں امام بخاری کی احادیث کا حوالہ دیتے ہی ہیں مگر اگر کوئی عورت بھولے سے بھی کسی غیر مرد سے گفتگو بھی کر لے تو اس عورت کو امام بخاری کی احادیث کے حوالے دے کرپھانسی کی سزا دے دیتے ہیں آج کل تو کچھ ملکوں میں اس لیے عورت کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کے فٹ بال دیکھ رہی تھی اور یہ سب امام بخاری کی احدیث کے ہی طفیل ہو رہا ہے ۔۔۔
سانحہ ِ پشاور کی مثال ہے جہاں قتل کروانے والوں نے امام بخاری کی حدیث کا حوالہ دے کر ہی اس درندگی کو حق بجانب قرار دیا ہے اور نا ف کے نیچے جن کے بال ہیں ان کے گلے بے دردی سے ذبح کرنے چھوٹے چھوٹے معصوم پھولوں کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیوں سے چھلنی کرنے کی امام بخاری کی کتاب بمع صفحہ نمبر کے حوالے دئیے ہیں
جیسا کے اکثر ہوتا ہے کچھ درندوں کے ہمدرد یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ کوئی مسلمان نہیں کر سکتا ان لوگوں نے امام بخاری کی حدیث کا غلط مطلب لیا ہے یہ تو یہودیوں اور کافروں کے لیے حکم تھا
مگر سانحہ پشاور کے قاتوں نے امام بخاری کی حدیث سے پہلے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ معصوم پھول ان فوجیوں کے بچے ہیں جو یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ بچے کافروں کے بچے ہیں لہذا امام بخاری کی حدیث کے مطابق ان کا قتل جائز ہے ۔۔۔
اب ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں جس طرح اب قاتل وہی نہیں ہے جس نے اپنے ہاتھوں سے کسی کو قتل کیا ہے ، وہ بھی قاتل ہے جس نے قاتل کو قتل کرنے کے لیے اُکسایا ہے ۔۔ قتل کرنے کے لیے اسے ذہنی طور پہ تیار کیا ہے وہ بھی قاتل ہے ۔۔
اگر آپ غور کریں تو دس بارہ یا اس سے زیادہ سالوں سے یہ مذہبی انتیا پسند لوگوں کو قتل کراونے کے لیے قاتلوں کو امام بخاری کی ہی احادیث کے حوالے دے دے کر قتل کرنے کے لیے آُکساتے رہے ہیں
اور ان قاتلوں کے ہمدرد کالم نگار ، ٹی وی اینکراور مسجدوں کےامام ان کو بے گناہ اور حق پہ لڑنے والے امام بخاری ہی کی احادیث کے حوالے دیتے ہیں
پس ثابت ہوا کہ امام بخاری کی احادیث بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے میں مدد گار بنتی ہیں اور امام بخاری قاتلوں کے ماسٹر مائینڈ ہیں تو جس طرح اب قتل کرنے والے کے ساتھ ساتھ قتل پہ اکسانے والے کو بھی پھانسی کی سزا دی جا رہے اسی طرح امام بخاری کو بھی قتل کرنے کے لیے اُکسانے کے جرم پہ پھانسی کی سزا دینے چاہیے
اب مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری کو کس طرح پھانسی کی سزا دی جائے
اس کا واحد طریقہ یہ ہےکہ ان تمام احادیث اوع خصوصی طور پہ امام بخاری کیاحادیث پہ پابندی لگنی جائے ۔۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو کم از کم ان احادیث پہ پابندی لگائی جائے جو دوسروں کو قتل کرنے پہ اکساتی ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“