دَلّی کی وہ شامیں، وہ صبحیں!
احـبـاب کی مــحــبــتــیــں یاد آتی ہیں!
فــیــض احــمــد فــیــضؔ کی رحلت کے بعد دسمبر ۱۹۹۲ء میں انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لکھنؤ میں ایک سہ روزہ عالمی سیمینار اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مجھے بھی شریک ہونے اور اپنا مقالہ اور کلام پیش کرنے کا موقع ملا تھا ۔ اس سیمینار کے اختتام پر میں ایک ہفتہ بھر اردو کے معروف ادیب شری رام لعل جی کے ہاں مہمان رہا اور لکھنؤ اور اس کے گرد و نواح کی خوب سیر کی ۔ پھر بذریعہ ریل وہاں سے دہلی آگیا جہاں مجھے اردو کے نامور شاعر و ادیب اور اپنے دیرینہ دوست بــلــراج کومل کے ہاں ہفتہ بھر ٹھہرنے کا موقع ملا ۔ اردو کے مزاح نگار ، افسانہ نگار، شاعر اور ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ایکسٹرنل پبلیسٹی ڈیپارٹمنٹ کے تب کے ڈائریکٹر جنرل اور اسی محکمہ کے اردو سمیت، سات زبانوں میں شائع ہونے والے رسالے ’’ہندوستانی تناظر‘‘ کے ایڈیٹر جناب دلیپ سنگھ، جو تقسیم سے پہلے پاکستان میں ضلع گوجرانوالہ کے جس گاؤں سے تعلق رکھتے تھے میں بھی اسی گاؤں کا رہنے والوں ہوں ، انہوں نے بیحد اصرار کیا کہ میں اُن کے ہاں قیام کروں اور جب میں بار بار معذرت کرتا رہا تو بھی ہنس دیئے اور کہنے لگے ، ’’ چنگا اے توں بلراج دے گل لگ، میرے وَل آویں گا تے ایویں، سی آئی ڈی ، میرے تے تیرے پچھے لگ جائے گی‘‘ ۔ ۔۔۔۔ دہلی میں اور اس کے بعد کئی دوسرے شہروں میں میرے جانے اور احباب سے ملاقاتیں کرنے کی روداد طویل ہے لیکن اب تھوڑی تھوڑی پیش کرتے رہنے کا ارادہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو پرانی دلّی میں ایک دوپہر گھومتے گھومتے بلراج کومل نے بتایا کہ آج شام ہمیں معروف افسانہ نگار جــوگــیـنـدر پال جی کے ہاں جانا ہے انھوں نے تمھاری دعوت کر رکھی ہے اور چند دوستوں کو تم سے ملوانا بھی چاہتے ہیں ۔ لہٰذا ہم جلد گھر لوٹ جائیں گے تاکہ جوگیندر جی کے ہاں بر وقت پہنچ سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام کو ہم جب جوگیندر پال جی کے ہاں پہنچے تو وہاں دلیپ سنگھ ( میرے گرائیں) ، اردو کے بہترین شاعر، کلدیپ اختر اور اُن کے ساتھ ایک خاصا جانا پہچانا چہرہ دکھائی دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو ادب کی منفرد اور بیمثال ادیبہ ’’ آگ کا دریا ‘‘عبور کرنے والی محترمہ قرۃ العین حیدر ! میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔۔۔۔۔۔ آگے بڑھ کا سلام کیا تو انہوں نے اٹھ کر گلے لگایا، پیار کیا اور اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا لیا ۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے دوسرے احباب کو سلام و آداب پیش کیا اور پھر خیر خیریت پوچھنے؍جاننے کے بعد اردو ادب کے حوالے سے باتوں کا جو سلسلہ چلا تو میزبانوں یعنی جوگیندر جی اور ان کی اہلیہ کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’
اب باتیں یہیں ختم کرو اور اٹھ کر کھانا کھاؤ ‘‘ جوگیندر جی نے ٹیبل پر سجے کھانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ کھانے کے دوران بھی ادب ہی کے مختلف پہلوؤں پر باتیں جاری رہیں ۔ کھانے کے بعد ہم سبھی واپس اپنی اپنی جگہوں پر آ بیٹھے تو ’’ بوتلوں کے کاگ ‘‘ اُڑائے جانے لگے، سیرام پور کی بیئر، انگریزی وہسکی اور سوویت وڈکا سے جام بھر دیے گئے اور ہر کسی نے ’’بظرفِ اُو ‘‘ ہاتھ بڑھا اور جام تھام لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محترمہ قرۃ العین حیدر اپنے یورپی دوروں اور خاص کر کراچی میں اپنے پرانے احباب کے حوالے سے کافی باتیں کرتی رہیں اور کہانیوں کے متعلق بھی اپوچھا کہ میں کن موضوعات کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔ علی گڑھ سے تعلق رکھنے والی معروف ادیبہ (افسانہ نگار) محترمہ ساجدہ زیدی بھی اس گفتگو میں شامل رہیں ۔ جوگیندر پال جی نے میری کہانیوں اور افسانوں کے حوالے سے کچھ باتیں کیں اور بلراج کومل تقسیم ہند سے پہلے اپنے آبائی شہر سیالکوٹ کی گلیوں کی تصوراتی سیر کرنے لگے اور ’’ مرے کالج سیالکوٹ ‘‘ میں گزارے اپنے دنوں کو یاد کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلیپ سنگھ بار بار اپنے اور میرے مشترکہ گاؤں کے بزرگ لوگوں، گاؤں میں برگد و پیپیل کے پیڑوں اور اس کنویں کے متعلق پوچھتے رہے جہاں سے بقول اُن کے ہندو ، مسلم سکھ سبھی پانی لیتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ دہلی میں اردو زبان و ادب کی آبیاری میں جُٹے رہنے والے اور کئی کتابوں کے مصنف شری کے، ایل ۔ ںارنگ ساقی جی کی باتیں سبھی کو مسرور کر رہی تھیں ، جام ، پہ جام چڑھائے جا رہے تھے اور جوگیندر پال جی کا اصرار تھا کہ ’’ منڈا ( یعنی میں ) پہلی وار آیا اے ، بوتلاں ہور وہ رکھیاں ہوئیآن نے ، لگے رہوو، کسے شے دی کمی نہیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے صبح ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جی سے ملنے ان کے دولت کدہ پر جانا تھا اس لیے میں نے بلراج جی کو اشارہ کیا اور جوگیند پال جی سے بھی عرض کیا کہ اب ہمیں جانے دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرۃ العین حیدر صاحبہ کا اصرار تھا کہ ’’ ابھی تو رات شروع ہوئی ہے بات تو مکمل ہونے دو ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال ہم نے اجازت لی اور ساتھ ہی میں نے درخواست کی کہ اس شاندار شام کی یاد میں مجھے ہر کوئی اپںے اپںے آٹوگراف دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میز پر چند کاغذ پڑے تھے انہیں اٹھا کر میں نے آگے بڑھا تو دلیپ سنگھ جی نے اپنا قلم نکال پر کلدیپ اختر جی کو پیش کیا کہ وہی ابتدا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی میں جن احباب نے میرے لیے اس یادگار شام کے ’’اشٹام ‘‘ پر اپنے آٹو گراف ‘‘ کی صورت میں دستخط کیے وہ آپ احباب کے ساتھ یہاں شیئر کرتے ہوئے ان احباب کی محبتوں کو یاد کر رہا ہوں، جن میں سے اب قرۃ العین حیدر، جوگیندر پال اور میرے گرائیں دلیپ سنگھ اور میرے مہربان و اصل میزبان بلراج کومل اب اس جہاں میں موجود نہیں لیکن اِن سبھی کی تصانیف و تحاریر انہیں آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ ہمیشہ امر رہیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“