*** دہلی دروازہ ***
—————————-
شہر قدیم کی فصیل کی مشرقی جانب دہلی دروازہ واقع ہے۔ اس کی دائیں طرف یکی دروازہ ہے اور بائیں طرف اکبری دروازہ ہے جبکہ دروازے کے بیرونی جانب بالکل سامنے چوک میلاد ہے جہاں مسجد میلاد موجود ہے۔ دہلی دروازے کی عمارت اور مسجد میلاد کے درمیانی حصے میں گول باغ ہے جہاں کبھی خندق ہوتی تھی۔ لوہاری دروازے کے بعد شہر قدیم کا یہ سب سے اہم ترین دروازہ قرار پاتا ہے کیونکہ مغل دہلی جانے کے لیے یہی دروازہ استعمال کرتے تھے۔ دہلی دروازے کی عمارت دیگر دروازوں کے مقابلے میں بہت بڑی اور مختلف ہے۔ دہلی دروازہ سرکلر روڈ سے ڈھائی پونے تین سو فٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔
دہلی دروازہ کی تعمیر اکبر کے دور میں ہوئی۔ جب اس نے لاہور کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو شہر قدیم کی توسیع کے لیے شاہ عالمی اور مستی دروازے کی جانب سے بہت سا رقبہ فصیل کے اندر شامل کر لیا گیا۔
دہلی دروازہ ہمیشہ سے ہی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پہلی وجہ تو یقینا یہی ہے کہ جو اس کے نام کی وجہ تسمیہ بھی بنتی ہے کہ یہ دروازہ دہلی شہر کی جانب کھلتا ہے۔ مغلوں کے دور میں دہلی اور لاہور شہر کے مابین بہت قریبی روابط رہے ہیں۔ بعد ازاں جب شالامار باغ اور مغلپورہ کا علاقہ آباد ہوا تو اس دروازے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔ وزرأ اور امرأ کے لیے کئی حویلیاں اور محل دہلی دروازے کے باہر تعمیر کیے گئے۔ شاہ جہاں کے زمانے میں مسجد وزیر خان (1634)اور شاہی حمام کی تعمیر نے اس دروازے کوسیاحوں کے لیے بھی بہت اہم بنا دیا۔ شاہ جہاں کے بیٹے داراشکوہ نے اپنے قیام لاہور کے دوران بیرون دہلی دروازہ جہاں آج لنڈا بازار اور سرائے سلطان ہے، بے شمار عمارات تعمیر کیں۔ اس عہد میں اس جگہ کا نام چوک دارا پڑ گیا۔ مغلوں کے عہد تک یہ تجارت کا بہت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ سکھوں نے یہاں کی عمارتیں اور دوکانیں تہس نہس کر دیں۔ یہاں گھوڑوں کی بہت بڑی منڈی تھی جہاں افغانستان سے گھوڑے لا کر بیچے جاتے۔
جب کابلی مل (1763-677) لاہور کا وائسرائے تھا، سکھوں نے دہلی دروازے سے ہی داخل ہو کر شہر پر قبضہ کیا۔ رنجیت سنگھ جب لاہور شہر پر قابض ہوا تو دہلی دروازہ کے باہر چوک دارا میں تعمیر عمارات کو گرا کر ان کی اینٹیں نئی عمارتوں کی تعمیر میں بکثرت استعمال کی گئیں۔ شیر سنگھ نے جب رانی چند کنور کے خلاف بغاوت کی تو اس کی فوجیں دہلی دروازے سے ہی شہر میں داخل ہوئی تھیں اور انہوں نے لوٹ مار کے بعد چھتہ بازار کو آگ لگا دی۔
انگریزی عہد تک دہلی دروازے کی پرانی عمارت جو اکبر کے زمانے میں تعمیر ہوئی تھی، اپنی اصل حالت میں موجود تھی مگر بہت خستہ اور کمزور ہو گئی تھی۔ چھت بیٹھ جانے کی وجہ سے ہاتھیوں کا گزر ممکن نہ تھا۔ ویسے بھی عمارت کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر عمارت کو گرا دیا گیا اور عہد انگریز نے اس کی تعمیر نو کا ٹھیکہ محمد سلطان ٹھیکیدار کو دیا جس نے چوک دارا میں سرائے و دیگر عمارات کی تعمیر نو کی۔ 1860ء میں جب لاہور میں ریلوے لائن بچھائی گئی اور ریلوے اسٹیشن بنایا گیا تو ایک مرتبہ پھر دہلی دروازے کی اہمیت دوچند ہو گئی۔ ایک تو ریلوے سٹیشن کی وجہ سے اور دوسرا یہیں سے ایک سڑک سیدھی میاں میر بستی جاتی تھی جہاں نئی چھائونی بنائی گئی۔ مال روڈ کے علاوہ یہ سڑک میاں میر چھائونی کو شہر قدیم سے ملاتی تھی۔ انگریزی سرکار میں دہلی دروازہ کی عمارت کا آدھا حصہ پولیس کے زیر تصرف تھا دروازے کی حفاظت پر مامور تھے جبکہ دیگر نصف حصہ میں مجسٹریٹ کی عدالت اور میونسپلٹی کے دفاتر تھے بعد ازاں دہلی دروازے کے باہر کوتوالی بن گئی تو اس کے لیے نیی عمارت تعمیر کی گئی جو آج کل سی آئی اے کے زیر استعمال ہے۔
فن تعمیر کے حوالے سے لوہاری دروازے کے بعد دہلی دروازے کی عمارت دیگر دروازوں کے مقابلے میں اہم ترین ہے۔ یہ اکبری عہد کی پرانی عمارت کی جگہ پر ہی تعمیر کی گئی۔ قرین قیاس یہی ہے۔ چونکہ مغل عہد میں بادشاہ، امرأ و دیگر عہدیداران جو دہلی سے آئے تھے، اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوتے تھے لہٰذا دروازے کی عمارت بڑی اور کئی کمروں پر مشتمل ہے۔ دروازے کی قوس کا سائز تقریباً لوہاری دروازے کے برابر ہے۔ درمیانی حصے میں ڈیوڑھی ہے جس کے دونوں اطراف تین تین کمرے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر تمام حصہ زیریں منزل پر ٹھوس ہے۔ دروازے کی اندرونی جانب دائیں اور بائیں دو اطراف سے سیڑھیاں بالائی منزل اور چھت تک جاتی ہیں۔ زیریں منزل پر واقع ہر دو اطراف تینوں کمروں سے دروازے ڈیوڑھی میں کھلتے ہیں۔ تینوں کمرے پیمائش میں مختلف ہیں۔ سامنے کی جانب واقع دونوں اطراف کے کمروں سے ایک ایک کھڑکی کی بیرونی جانب کھلتی ہے۔ یہی کمرے بالائی منزل پر قدرے بڑے اور پیمائش میں مناسب ہو جاتے ہیں جن کی پشت پر ایک طرف تو ہال بنا ہوا ہے اور دوسری طرف کھلی چھت ہے۔
دہلی دروازہ اپنے بیرونی منظر نامے میں انگریزی عہد کی عمارات جیسا لگتا ہے اور اگر بتایا نہ جائے تو دیکھنے والا شناخت نہیں کر سکتا کہ یہ لاہور کے اہم ترین دروازے کی عمارت ہے۔ جڑواں ستون اور ان میں کھڑکی کا انداز انگریزی عہد کی عمارت سے مماثلت رکھتا ہے البتہ رہگذر کی دوہری ڈاٹ ایک کثیر البرگی اور دوسری چہار نقطی، دونوں ہی مغلیہ عہد کی عمارات کے ساتھ اس کا ربط بناتی ہیں۔ ڈیوڑھی کی چھت دو منزلہ اونچی ہے۔ دیواریں اینٹوں سے بنائی گئی ہیں اور چھتوں کے لیے والٹ (Vault)اور شہتیر دونوں استعمال کیے گئے ہیں۔ ایک پاشیب (Ramp)جنوبی جانب سے بالائی چھت تک چلا جاتا ہے۔ دیگر دروازوں کے برعکس دہلی دروازے کا روکار بالکل مختلف ہے۔ عمارات کی اونچائی تقریباً اڑتیس فٹ اور مرکزی عمارت کی چوڑائی 105فٹ ہے۔ mtj
دہلی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی دہلی بازار شروع ہو جاتا ہے جو مسجد وزیر خان کے چوک تک جاتا ہے۔ دوسری جانب کشمیری بازار چوک رنگ محل سے آ کر اس چوک میں ختم ہو جاتا ہے۔ خرید و فروخت کے اعتبار سے یہ بہت مصروف بازار ہے۔دہلی دروازے کے اندر شمالی جانب محلہ قصاباں ہے، جس کے ساتھ ملحقہ چنگڑ محلہ، کوچہ میاں غوث اور چوہٹہ قاضی اللہ داد ہے جو کبھی چوہٹہ راجہ دینا ناتھ کہلاتا تھا۔ دہلی دروازے کی جنوبی جانب حمام وزیر خان، اکبری منڈی اور محلہ گلی کھجور والی واقع ہیں۔ urdu bagh
آج حمام وزیر خان کی عمارت متجاوز دوکانات کے پیچھے چھپی ہوئی ہے اور مسجد وزیر خان کی شمالی جانب کو بھی دوکانات کی لمبی قطار نے چھپا رکھا ہے۔ مسجد وزیر خان سے آگے چوک پرانی کوتوالی ہے جہاں سے ایک سڑک پاکستان کلاتھ مارکیٹ سے ہوتی ہوئی چونا منڈی بازار کی طرف نکل جاتی ہے جبکہ دوسری سڑک کشمیری بازار کہلاتی ہے جو سنہری مسجد پر منتج ہوتی ہے اور جس کے ساتھ سوہا بازار اور کناری بازاری واقع ہیں۔
دہلی بازار کا یہ سارا علاقہ رڑہ گزر کہلاتا تھا اور یہی وہ علاقہ ہے جو اکبر نے شہر قدیم کی توسیع کے وقت شہر پناہ میں شامل کیا تھا۔ اندرونی دہلی بازار کا علاقہ چوک وزیر خان اور مسجد وزیر خان کی موجودگی میں بہت منفرد ہو جاتا ہے۔ مسجد مریم زمانی جو یکی دروازے کے اندر واقع ہے، اس کی تعمیر کے بعد مسجد وزیر خان تعمیر کی گئی جو شہر قدیم کی سب سے بڑی اور اہم مسجد ہے۔ مسجد کے مشرقی جانب وزیر خان چوک سیاسی و سماجی، علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ تجارت کے حوالے سے بھی اس چوک کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کلاتھ مارکیٹ اور اعظم کلاتھ مارکیٹ کپڑے کی دو بڑی مارکیٹیں دہلی دروازے کے اندر واقع ہیں۔ تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے شہر قدیم کے اس حصے میں ٹریفک کے سب سے زیادہ مسائل ہیں۔ آج کل اس راستے کو یک طرفہ قرار دے گیا گیا ہے، گویا دہلی دروازے سے گاڑی داخل ہو سکتی ہے مگر واپس نکل نہیں سکتی اس کے لیے چوک رنگ محل سے شاہ عالمی دروازے کی جانب جانا ہو گا یا پھر چوک چونا منڈی سے ہوتے ہوئے مستی دروازے سے باہر نکل سکتے ہیں۔
(غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور… گھر گلیاں دروازے‘‘ سے اقتباس)
Dehli Gate, Lahore, dehli darwaza, urdu bagh, tariq jamil
https://www.facebook.com/groups/290995810935914?view=permalink&id=1247769545258531