جب میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں تو باھر بارش نے ایک اودھم سا مچا رکھا ہے، ایسے برس رہی ہے جیسے آج ہی ختم ہو جانے کو ترس رہی ہے۔ ٹینٹ پہ گرتی موسلا دھار بارش کی آواز پہلی بار سن رہی ہوں، گھر کی چھت پہ جتنی بھی تیز بارش ہو، ایسے آواز نہیں آتی تھی۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے بیس کوئی ہزار سپاہی ایک ساتھ پورا پورا میگزین خالی کر رہے ہوں۔ کتنی مختلف آواز ہے ناں، آپ نے تو کبھی نہیں سنی ہو گی ایسی آواز، جیسے میں گھر میں رہتی تھی ایسے آپ بھی گھروں میں رہتے ہیں ناں، کیسے سن سکتے ہیں یہ آواز
جیسے سبھی موٹر سائیکلوں کی آواز ایک سی ہوتی ہے، مگر بابا کی موٹر سائیکل کی آواز میں دور سے ہی پہچان لیتی ہوں، پہچان لیتی تھی۔ بابا کی موٹر سائیکل کی آواز دور سے آ گئی تھی، میں نے دوڑ کے دروازہ کھولا اور پھر بابا مسکراتے ہوئے موٹر سائیکل اندر لے آئے۔ بابا کی مسکراہٹ سے خوبصورت شے میں نے آج تک کہیں نہ دیکھی۔ ماں نے چارپائی پہ بابا کے پسندیدہ لوجر اور چاول رکھے اور بابا اسی خوبصورت مسکراہٹ سے ماں کو دیکھتے ہوئے کھانے لگے۔ ابھی دو چار لقمے ہی لیے ہوں گے کہ دھڑام سے دروازہ کھلا اور نو دس فوجی سپاہی بڑی بڑی بندوقیں لیے اندر گھس آئے، انہوں نے ابا کو سر کے بالوں سے پکڑ کے چارپائی سے اٹھایا اور پھر زمین پہ پھینک کے مارنے لگے۔ ماں ان کے پاؤں پکڑ رہی تھی، میں بُت بنی کھڑی تھی اور مجھ سے چار سال بڑا بھائی فوجی سپاہیوں سے رو رو، کے پوچھ رہا تھا کہ بابا نے کِیا کیا ہے۔ وہ سپاہی جواب میں کچھ چیختے تھے جس میں ماں اور بہن کے الفاظ استعمال ہوتے تھے، میں تب اس زبان سے واقف نہیں تھی۔ تب میں تیسری جماعت میں جاتی تھی۔ انہوں نے ماں کو ٹھوکر ماری میں جا کے ماں سے لپٹ گئی، میری آواز جیسے مر چکی تھی اور بس رو رہی تھی۔ انہوں نے بھائی کو دھکے مارے پھر بندوق کا بٹ اس کے پیٹ میں مارا وہ وہیں دوہرا ہو گیا۔ بابا کو گھسیٹ کے گاڑی میں ڈال کے لے گئے۔ گھر کے چار افراد میں سے تین رہ گئے جو ایک دوسرے سے لپٹ کے رو رہے تھے
آج تو بارش جیسے اپنی ساری جیبیں خالی کر کے ہی جائے گی۔ گورنر ہاؤس کوئٹہ کے سامنے لگائے اس ٹینٹ میں، میں اکیلی نہیں ہوں۔ میرے جیسی کتنی عورتیں، بچیاں یہاں بیٹھی اپنے پیاروں سے ملنے کی بھیک مانگ رہی ہیں، ایسے ہی جیسے سارے حاجی کعبـے کے سامنے بیٹھے دعائیں مانگتے ہیں، اس ایمان کے ساتھ کہ یہاں تو قبول ہوں گی۔۔ہمیں یہاں بیٹھے ایک ماہ سے بھی زیادہ وقت ہو گیا ہے،مگر اس پتھر کے اس پار بستے خداؤں نے ابھی تک ہماری نہیں سنی۔ ڈیڑھ دو سال کی ننھی پریاں بھی اپنے باپ، بھائیوں کو ڈھونڈنے ان خیموں میں اپنی زندگی کے وہ دن گزار رہی ہیں جو یقیناً آپ کے بچے کھیلنے کودنے میں گزارتے ہوں گے
گزرتے گزرتے دن کیسے گزرے کہ بابا کے بارے میں پوچھنے جس بھی فوجی دروازے پہ گئے، گالیاں جھولی میں ڈال کے واپس گھر کو لوٹ آئے۔ یہ کہنا کہ پتا نہیں کیسے ایسے ہی آٹھ سال گزر گئے پتا ہی نہیں چلا، غلط ہو گا جھوٹ ہو گا۔ ایک ایک دن اپنے سر پہ چادر ڈالے، اپنی چھت کے چِھن جانے کا منظر آنکھوں میں لیے گزارا ۔ کتنی موٹر سائیکلوں کی آوازیں روز کانوں سے گزرتی رہیں ، مگر وہ جانی پہچانی آواز کہیں بھی سنائی نہیں دی۔ بھائی سارا دن پٹرول پمپ پہ کام کرتا رہتا، گھر آ کے کھا کے لیٹ جاتا اور خالی آنکھوں سے چھت کو تکتے تکتے سو جاتا۔ ماں آدھی مر چکی تھی۔ اس کی زندگی میں جیسے ہر چیز کے رنگ اڑ چکے تھے۔ پھر ایک دن ہمارے ہمسائے گھر سے ثنا اللہ دوڑتا ہوا آیا، اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا “بالاچ کو فوجی اٹھا کے لے گئے” ماں کی چیخ تھی کہ صور اسرافیل تھا، میں دروازے کی طرف لپکی مگر دھڑام کی آواز نے پیچھے مڑ کے دیکھنے پہ مجبور کیا تو ماں فرش پہ پڑی تھی۔ ماں پھر اس فرش سے نہیں اٹھی
ڈھائی سال ہو گئے جب ماں فرش سے زندہ نہیں اٹھی اور بابا اور بھائی کی راہ سے میری آنکھیں نہیں اٹھیں۔ شام ہو رہی ہے یا شاید بادل ہی کالے ہیں۔ جیسے کعبـے کی دیواروں پہ سونے سے سجی چادر ڈالی ہوتی ہیں، ایسے ہی ان پتھروں کی دیواروں پہ ہم سب نے اپنے اپنے پیاروں کی تصویریں لگا رکھی ہیں۔ بارش سے بابا اور بھائی کی تصویر جیسے اترنے کو ہے۔ سوچتی ہوں اٹھوں اور جا کے تصویریں اتار لاؤں کہ ہماری دعاؤں کی طرح یہ بھی کہیں بہہ نہ جائیں۔۔۔ پھر سوچتی ہوں کعبـے کی دیوار سے چادر نہ ہی اتاروں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...