نقش فریادی ہے کس کی شوخیءِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر ہے
لغات :
نقش : علامت، نشان، مورت، جنسِ مرئی، عبارت، نوشتہ
فریادی : لُغۃً جُویائے عدل، ببانگِ دُہل پکارنے والا، نالندہ، اس لفظ کے آخر پہ یائے فاعلی ہے۔
شوخی : چُہل، طراری، اضطراب، براقی
تحریر : مضمون، عبارت، اندازِ نگارش
شوخیءِ تحریر : بدیع الطرزِ تخلیق
کاغذی : وہ شے جس میں کاغذ کی آمیزش ہو یا کلیۃً وہ کاغذ سے بنی ہو۔ اس لفظ کے آخر پہ یائے نسبتی ہے۔
پیرہن : لباس، پوشاک، حصار، محور
پیکرِ تصویر : بجنسہٖ تصویر، مراد عالَمِ کُل کا وجودِ ظاہری۔
شرح :
میرے نزدیک ”فریادی“ ترکیبِ کلام میں ذوالحال واقع ہوا ہے اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر حال ہے۔ یعنی عالمِ کُل ازروئے ظاہری ہیئت کاغذی ملبوس میں ہے، کس کے دستِ تخلیق کی ساختگی کا فریادی ہے؟ لیکن اگر نقش کو ”قائل“ اور دوسرا مصرعہ مکمل طور پر ”مقولہ“ مانیں تو بایں صورت فریادی ”مبتداء“ اور دوسرا مصرع ”خبر“ ہوگا
سہا مجددی نے کیا خوب صورت لکھا ہے کہ یہ جسمِ فنا پیوستہ، یہ ہیولائے ضعیف البنیان، یہ قالبِ خاکی، یہ کالبدِ عنصری (تصویر بہ پیرہنِ کاغذی) کس کے دستِ رنگین کی صنعت طرازی و شوخیءِ تحریر کا مخلوق و مصنوع ہے؟ یعنی یہ جہانِ موجود کس کے کرشمۂ تخلیق پر داد خواہ ہے، کس کی اعجازِ خلّاقی کی دلیل ہے؟ واضح رہے کہ یہ دلیل ثبوتِ بدیہی کی قبیل سے ہے۔ اس استفہامِ تجاہُلانہ ( ارادتاً عدمِ واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرنا) جملے کا جواب مقدر (محذوف) یعنی محذوفِ منوی ہے اور جواب وضاحت کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ مطلع حمدیہ ہے۔
معنیٰ کی روح پہلے مصرعے ہی میں پنہاں ہے، دوسرا مصرعہ صرف داد خواہ کی ہیئتِ کذائی کا بیان ہے کہ ہستی (وجودِ شے) اگر چہ مثلِ تصاویر اعتبارِ محض (یعنی محض نظری و قیاسی) ہے، موجبِ رنج و آزار ہے۔ کاغذی پیرہن : لباس کا کاغذی ہونا عدمِ ثبات سے کنایہ ہے۔ اسی مضمون کا ایک اور شعر دیکھیں کہ :
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
میر کا ایک شعر ہے :
کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
دنیا کا وجود حقیقی نہیں بلکہ اس کی ہستی خالص اعتباری ہستی ہے۔ یہاں سے غالب کے فلسفۂ وحدۃ الوجود پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اور بقولِ مولانا غلام رسول مہرؔ مرزا توحیدِ وجودی کے قائل تھے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے۔ نیز نکاتِ غالب مرتبہ نظامی بدایونی میں غالب کا یہ قول نقل ہے کہ : ”میں موحّد خالص اور مؤمنِ کامل ہوں، زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ لا مؤثر فی الوجود اللہ سمجھے ہوئے ہوں۔ (صفحہ 05، نظامی پریس، بدایوں) لیکن یاد رہے کہ غالب باقاعدہ صوفی نہیں، بلکہ انھوں نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا ہے۔ جیسا کہ حالیؔ نے ”یادگارِ غالب“ میں لکھا ہے۔
مرزا عزیز احمد بیگ المتخلص بہ مرزاؔ سہارن پوری نے دیوانِ غالب کی تقریباً تمام غزلیات کی تضمین لکھی ہے۔پرلطف بات یہ کہ اس مطلع کی تضمین بہ صورتِ مخمّس میں انھوں نے اس کا مکمل معنیٰ بھی بیان کر دیا ہے، لکھتے ہیں کہ :
کیا یہ منشا تھا ازل میں کاتبِ تقدیر کا؟
ذرہ ذرہ ہو فنا اک روز اس تعمیر کا
رنگ جھلکایا ہے کیوں ہر چیز میں تغییر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
(روحِ کلامِ غالب المعروف تفسیر کلامِ غالب، مرزا عزیز احمد بیگ، صفحہ 01، مطبع نظامی پریس بدایوں)
غالب مرحوم نے اس شعر کا معنیٰ عودِ ہندی میں یوں بیان کیا ہے :
ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے
(خط بہ بنام عبد الرزاق شاکر گورکھپوری، صفحہ 153، مطبع نولکشور لکھنؤ)
اگرچہ مرزا نے معنیٰءِ شعر بہ زبانِ شاعر کی رسم کو اپنے تئیں پورا کیا، لیکن یہ شعر کم از کم دس سے زائد مختلف معانی کا متحمل ہے، جس کی تفصیل مناسب نہیں۔
کاغذی پیرہن سے متعلق طباطبائی کا کہنا کہ ”مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا“ سراسر عدمِ تحقیق اور سطحیت کا نتیجہ ہے۔
کیوں کہ فارسی شاعری میں اس کے نظائر تلاشے جائیں تو امثلہ کا قلعہ تعمیر ہو سکتا ہے۔ چند مثالیں حسبِ ذیل ہیں :
تاکہ دست قدر ما زدست تو بر بود قلم
کاغذ پیرہن از دست قدر باد مراد
بابا افغانی (بمدح الصدر العالم نورالدین المنش)
کاغذی جامہ بپوشید او بدرگاہ آمد
زادۂ خاطرِ من تا بدہی داد مرا
کمال اسماعیل اصفہانی
کاغذیں جامہ چو صبح آہی برآرم ہر شبے
تا کجا خواہد رسیدن زیں تظم کارِ مَن
سیف الدین اسفرنگی
المختصر طباطبائی کے اس بیان پہ اتنا کہوں گا کہ طالوی مفکر کروشے (Benedetto Croce) کے نظریات سے ایک اہم نکتہ مستفاد ہوتا ہے کہ منصفانہ تنقید (و تشریح) کی راہ میں حائل عناصر جلد بازی، قلتِ تدبر، نظریاتی تعصب اور ذاتی پسندیدگی وغیرہ ہیں۔ یعنی کسی فن پارے کی غیر منصفانہ شرح و نقد کے اسباب یہ یہ ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح سید آل حسین شاداںؔ بلگرامی [روح المطالب فی شرح دیوانِ غالب، صفحہ 93] کا یہ کہنا بھی سراسر لاپروائی کا پیش خیمہ ہے کہ ”جب تک اس شعر میں کوئی لفظ اظہارِ شوق، تقربِ الہٰی کے لیے اور نفرتِ دنیا کے لیے نہ ہو۔ لفظِ تحریر جو قافیہ میں آ پڑا ہے، سب سے زیادہ مخلِ معنیٰ ہے“۔ کیوں کہ لفظِ فریادی سے صاف اشتیاق کا معنیٰ برآمد ہو رہا ہے اور شوق اشتیاق میں ضمناً شامل ہے اور ان دونوں کے درمیان نسبتِ عموم و خصوص مطلق ہے۔ شوخیءِ تحریر کہنے سے جو تخلیق کی شکایت ہے، نفرتِ دنیا کا پہلو اس سے صاف نکلتا ہے۔ باقی رہا تقربِ الہٰی تو وہ نفرتِ دنیا کی ضد کے طور پر نکل گیا، کیوں کہ قاعدہ ہے کہ متضادین کا اجتماع محال ہے، اگر بالفرض مان بھی لیا جائے تو اجتماعِ نقیضین کے عیب کو کہاں چھپائیں گے۔ پس شاداں بلگرامی کا اعتراض رفع ہوا۔
اشکال : اس مکتوب سے البتہ واضح ہے کہ غالب کا ما فی الضمیر یہی ہے، اس لیے یہاں رہوارِ توجیہ و تعلیل دوڑانے سے بہتر ہے اسی مفہوم کو سمجھا جائے جو غالب مرحوم نے خود بیان کیا ہے۔لیکن یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شارحِ غالب علامہ نظم طباطبائی نے کس اشکال کی بنا پہ شعر کو بامعنیٰ کہنے سے احتیاط کی ہے؟
جواب : مرزا غالب کا ما فی الضمیر اگرچہ مکتوب سے واضح ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم انھی مفاہیم کا سہارا لیں جو خود مرزا نے بیان کیے ہیں تو ان سے بہتر مفاہیم جو متن سے نکل سکتے ہیں، وہ ضائع ہو جائیں گے۔
ششماہی مجلہ جہانِ غالب، مدیر ڈاکٹر عقیل احمد کے صفحہ نمبر 59 پہ مضمون نگار ڈاکٹر شمس بدایونی نے اپنے مضمون بعنوان "تفہیمِ غالب کے مدارج" میں بالترتيب پانچ مدارج لکھے ہیں :
تفہیمِ غالب : خود غالب کے حوالے سے
تذکرہ نویسوں کے حوالے سے
شارحین کے حوالے سے
ناقدین کے حوالے سے
محققین کے حوالے سے
مزید لکھتے ہیں کہ :
”غالب کی تفہیم کے لیے اس اول ماخذ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس میں بعض بیانات متضاد، بعض مشرقی شعریات کی روایت سے مختلف اور بعض قواعد کی شاعری کے اصول کے خلاف بھی محسوس ہوں گے۔ ایسے تمام بیانات کو محققین و ناقدین کے جائزوں، توضیح و تشریح کے مطالعے کے بعد قبول کرنا مناسب ہوگا۔“
ڈاکٹر بدایونی نے خود مصنف کے حوالے سے تفہیم کے لیے بھی ایک معیار قائم کیا ہے کہ ایسے بیانات ناقدین کی نظروں سے گزرنے کے بعد ہی قبول و رد کے لائق ہوں گے، ورنہ یہ تو اظہر کالشمس ہے کہ فقط مرادِ مصنف پہ اکتفا کرنے اور معنیٰءِ ضروریہ سے اعراض کرنے پر بیشمار خرابیاں لازم آ سکتی ہیں۔
واضح ہو کہ منشائے مصنف کسی بھی صورت میں Uniquely Privileged یعنی یکتا مختار نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ اس وقت تک ہم مصنف کا عندیہ جھٹلا نہیں سکتے، جب اسے قبول کرنے میں کوئی بڑا اقداری نقصان ہو۔ اس لیے مرزا نے جو معنیٰ شاکر گورکھپوری کو لکھے، وہی درست ہیں اور اولین ترجیح اسے ہی دی جائے گی۔ رہی یہ بات کہ سید نظم طباطبائی نے اسے بے معنیٰ کہا ہے، اس کی توجیہ؟ تو المختصر یہ کہوں گا کہ علامہ نے شعر کا معنیٰ خود متعین کرکے بعدازاں متن میں تحقیق کی اور ظاہر ہے مطابقت کلی طور پر نہ ہو سکی۔ لہٰذا علامہ نے المعنیٰ فی بطن الشاعر کا فتویٰ لگا دیا۔
غالب نے گویا طباطبائی ہی کی مذکورہ شرح کے بارے میں کہا تھا کہ :
”یہ صاحبان جو شرح لکھتے ہیں، کیا یہ سب ایزدی سروش ہیں اور ان کا کلام (تشریحات) وحی ہے؟ اپنے اپنے قیاس سے معنیٰ پیدا کرتے ہیں! یہ میں نہیں کہتا کہ ہر جگہ ان کا قیاس غلط ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ یہ فرماتے ہیں، صحیح ہے۔
(نکاتِ غالب، نظامی بدایونی، صفحہ 25)
وجاہت علی سندیلوی نے طباطبائی، آسی، سنہا، سعید، بیخود، اثر، نیاز، سلیم وغیرہم کی شروح کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ :
”شاعر حیرت سے پوچھتا ہے کہ یہ سارا نگار خانۂ عالَم کس کی (مراد خدا سے ہے) تخلیق کی ستم ظریفی پر فریادی بنا ہوا ہے؟ یہاں کی ہر چیز دلآویز ہونے کے ساتھ ساتھ مبتلائے غم اور بے ثبات بھی کیوں نظر آتی ہے؟ خدا کو اسے مبتلائے غم اور فنا آمادہ بنانا تھا تو اس نے اس قدر دلآویز بنایا ہی کیوں؟“
(نشاطِ غالب، صفحہ 30، سرفراز قومی پریس، لکھنؤ)
اعتراض : زیر بحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں، لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے، ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے
جواب : لفظِ ”نقش“ کا عموم ہی اس دعویٰ کے لیے کافی ہے کہ ”ہر پیکرِ تصویر“ سے تمام موجودات و مخلوقات مراد ہیں، ورنہ شعر میں موجبِ آزار ہونے اور مائل بہ زوال ہونے کا جو مفہوم زیرِ سطح مضمر (Implied) ہے وہ فوت ہو جائے گا اور شعر محدود ہو جائے گا۔
واجدؔ دکنی کا کہنا کہ «مرزا غالب کے اس مطلع میں "ہر" اور "پیکر" کے الفاظ زائد اور حشوِ قبیح ہیں۔ کیوں کہ صرف اتنا کہہ دینا کہ ”تصویر کا پیرہن کاغذی ہے“ ادائے مطلب و اظہارِ مضمون کے لیے کافی و مکتفی ہے» درست نہیں۔ ہاں! لفظِ پیکر سے متعلق واجدؔ کا حشوِ قبیح کہنا درست ہے۔ غور کریں کہ لفظِ "ہر" سے کلیاتِ ممکنہ کا شمول مطلوب ہے جو بدونہٖ محال تھا اور لفظِ "پیکر" زائد اس لیے کہ غالب نے اس کے ذریعے تحدید کر دی، یعنی جملہ مخلوقات سے انسانوں کو منتخب کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ لفظِ "نقش" کا عموم اس پر دال ہے، یہاں صرف وہی نہیں بلکہ جمیع مخلوقات مراد ہیں۔
اشکال : بعض شارحین نے اس مطلع کی تفہیم میں باہمی تضاد کو جنم دیا ہے، یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ جبکہ اس کا متعین معنیٰ غالب خود اپنے ایک مکتوب میں دے چکے ہیں۔ کیا شعر میں کثیر المعنويت (Pluralism) یا اس کے احتمال کی گنجائش موجود نہیں ہو سکتی؟
جواب : اس کے جواب سے قبل ایک اصطلاح ”کثیر المعنويت“ کو سمجھنا بہتر ہوگا۔
جب کسی متن سے مخصوص یا بدیہی معنیٰ کے علاوہ کسی اور جہت اور زاویے سے بھی معنیٰ کی کشود ممکن ہو تو پھر سخن فہمی کا اولین فریضہ یہ ہے کہ اس متن کی وہ صفت بھی بیان کی جائے اور اس کی محتملہ معنویت کا اظہار کیا جائے۔ ظلم تو یہ ہے کہ جب کوئی شارح یا نقاد اس پہ مصر ہو کہ اس متن سے فلاں معنیٰ ہی نکل سکتا ہے یا وہ بالجبر متعین معنیٰ ہی برآمد کرے، کیوں متن کا معنیٰ معاشرہ یا وہ نظام متعین کرتا ہے جس کے تحت الفاظ استعمال ہو رہے ہوں، لہٰذا یہ کہنا روا ہے کہ معنیٰ کسی کی میراث نہیں، صرف اس کی ہے جو الفاظ کے انھی معنیٰ کو قبول کرتا ہے جو متنی نظام (Textual System) نے مقرر کیے ہیں۔ یہ سیاق و سباق سے بھی متبادر ہو سکتے ہیں اور مروجہ لسانی مختارات سے بھی۔ شارح اپنی سرشت میں توسیع پسند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اگر وہ متن میں مضمر معنویت کو متن تک محدود رہنے دیتا ہے تو وہ سراسر تنگ نظر ہے۔ بعض مغربی ناقدین مثلاً بیرڈسلی وغیرہ کے نزدیک مصنف کی مراد جاننے کے لیے ہمیں متن کے لمحۂ تخلیق کو بنیاد بنانا چاہیے، لمحۂ تخلیق سے مخصوص عصری حالت یا سیاقِ کلام میں موجود وقوعہ مراد ہو سکتا ہے۔
کثیر المعنويت تقریباً سبھی متون میں موجود ہوتی ہے لیکن بغیر قراتی تفاعل کے کسی بھی متن میں نئے معنی کا انکشاف ممکن نہیں۔ چونکہ متن کا مزاج و مذاق ہی ایسا ہے کہ وہ تعبیر و تشریح کا متقاضی ہے۔ اس لیے اگر تو ہم متنی نظام کے قواعد کی پاسداری کرتے ہوئے معنیٰ نکالیں تو ہر وہ معنیٰ برآمد کرنے کے مجاز ہوں گے جو اس کے اندر موجود یا کم از کم ممکن الحصول ہے۔ لیکن متن سے مستخرجہ معانی میں سے صرف اسی معنیٰ کی ملکیت ماتن کو دی جا سکتی ہے جو مصنف کے عصری بالخصوص معاشرتی تلازمے کو متن سے تطبیق دے کر حاصل کیا جائے، باقی معانی معاشرے کے ہیں جس کی بنیاد پر وہ تخلیقی متن رواج پاتا ہے۔ المختصر متن کو مصنف کا منشا نہیں، بلکہ عمل سمجھنا چاہیے۔ کسی متن میں معنیٰ کی کثرت خوبیوں میں سے ہے۔ نارتھ روپ فرائی نے لکھا ہے کہ :
’’ناقدین کا کام محض ان معانی کو کشید کرنا نہیں جو بوقتِ تخلیق ادیب کو معلوم تھے بلکہ ناقد تو وہ معنی بھی اخذ کرتا ہے جس سے ادیب بذاتِ خود بھی آگاہ نہ تھا۔‘‘
(بحوالہ : آزادی کے بعد دہلی میں اُردو تنقید، مصنفہ شارب ردولوی، ص۱۰۵)
اپنے ایک مضمون میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ : ”شعر میں کثیر معنیٰ صاف نظر آئیں یا کثیر معنیٰ کا احتمال ہو، دونوں خوب ہیں“۔ شارحِ غالب علامہ طباطبائی کا شرح دیوانِ غالب، غزل 96، شعر 5 کی شرح کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ”خوبی کثرتِ معنیٰ سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ احتمالاتِ کثیرہ سے“ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن کا یہاں محل نہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی مطلوبہ جگہ پر اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔
علم البلاغت کے اعتبار سے غور کریں تو درج ذیل صنعتیں بھی اپنے پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ فراز ہیں :
صنعتِ تلمیح (کاغذی پیرہَن میں فریادی کا ملبوس ہونا)
استعارہ (ناپائیداری کا مضمون کاغذی پیرہن سے مستعار ہے)
صنعتِ تجاہلِ عارفانہ (کس کی؟)
میر تقی میر کا ایک شعر بھی اسی سے ملتا جلتا ہے :
کوئی ہو محرمِ شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزمِ عیشِ جہاں کیا سمجھ کے برہم کی؟
—————-
کاؤ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
لغات :
کاؤ کاؤ : کاویدن مصدر کا حاصلِ مصدر Vereal Noun ہے۔ مولوی احمد دہلوی لکھتے ہیں کہ کاؤ کاؤ سے مراد کوشش، تجسس، تفتیش، تفحص۔ زخم کو ناخن سے چھیلنا اور کھجانا۔ کاوش، خلش
اور بطورِ استشہاد میر تقی میر کا یہ شعر بھی درج کیا ہے :
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاؤ کاؤ
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگاؤ
[فرہنگِ آصفیہ، جلد سوم، صفحہ 454]
کاؤ کاؤ : تلاش و کاوش، تکرارِ لفظی نے تلاش و کوششِ پیہم کا مفہوم پیدا کیا ہے۔
[مطالب الغالب شرح دیوانِ غالب، سہا مجددی، صفحہ 03]
اکثر مروجہ نسخوں میں ”کاوِکاوِ“ درج ہے اور لوگ بے پروائی (Insouciance) میں اسی طرح پڑھتے ہیں۔ علی العموم کاؤ کاؤ بہ تکرار مستعمل ہے۔ اس مصرع میں بر بنائے اضافت ”کاؤ کاوِ“ پڑھنا چاہیے۔
سخت جانی : تحمل، مشقت، جفاکشی۔ آخر پہ جو یاء ہے یہ یائے مصدری ہے۔
جوئے شیر : نہر، جو فرہاد نے شِیریں کے حکم بموجب پہاڑ سے شہر تک نکالی تھی۔ اس میں بے شمار بکریوں کا دودھ دھویا جاتا تھا اور شِیریں کے محل میں ایک حوض میں آ کر جمع ہو جایا کرتا تھا۔
(لُغاتِ فیروزی، مولوی محمد فیروز الدّین منشی، صفحہ 151]
شعرِ مذکور میں فارسیت غالب ہے، معمولی سی تغییر کے ساتھ شعر مکمل فارسی میں ہو جائے گا :
کاؤ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی مپرس
صبح کردن شام را چوں جوئے شیر آوردن است
شرح :
فارس کے مشہور سنگ تراش فرہاد ایک شہزادی (شِیریں) سے محبت کرتا تھا۔ ادھر خسرو پرویز بھی اس کا عاشق، فرہاد نے اپنی محبت ظاہر کی تو شِیریں کی طرف سے یہ شرط عائد ہوئی کہ وہ ایک نہر کھود کر اس کے گھر تک لائے۔ بعد از عرصۂ دراز فرہاد نہر کھود کر کامیاب ہوا تو اس وقت خسرو نے یہ خبر اڑا دی کہ شِیریں مَر گئی۔ فرہاد نے یہ خبر سنی تو تیشہ سر پہ مارا اور جان دے دی۔
(نور اللغات، صفحہ 583، لفظ ”فرہاد“)
شعر کا بہ ظاہر مفہوم یہ ہے : تنہائی کی اذیتیں نہ پوچھو، کہ میرے لیے اب شب ہائے ہجراں کا کاٹنا ایسا ہی آزار طلب ہے جیسا کہ کوہکن کے لیے جُوئے شیر لانا۔ شبِ تنہائی کو درونِ کوہ سے اور صبح کو جوئے شیر سے تشبیہی علاقہ ہے۔یہ نسبت تو عام کتبِ شرح میں مذکور ہیں لیکن ایک لطیف نکتے کی طرف اشارہ کروں گا جو صرف میرے ذہن کی رسائی سے ممکن الحصول ہوا کہ شام سے صبح تک کے لمحے لمحے کو نہر کھودتے ہوئے تیشہ زنی کی ہر ہر ضرب سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہایت بدیع اور تازہ تشبیہ ہے۔ یعنی میرے شکستہ دل پر ہر ساعتِ فرقت شعار تیشہ بن کر ضربیں لگا رہی ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو میرے اشکوں کی ایک نہر جو دراصل دل ہی سے نکلتی ہے، آنکھوں سے راستے وجود میں آ جاتی ہے۔ بقولِ میر تقی میرؔ
کنج کاوی جو کی سینے کی غمِ ہجراں نے
اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا
ایک اور نکتہ جو جوش ملیسانی نے بیان کیا ہے، شرح دیوانِ غالب میں لکھتے ہیں :
”مصرعِ دوم میں ایک خاص نکتہ ہے کہ «کوہکن کی موت تھی انجام جوئے شیر کا» یعنی جُوئے شیر لانے میں کامیاب ہونا کوہکن کے لیے موت کا پیغام ثابت ہوا۔ اسی طرح میں بھی اس شامِ غم کو مر کر ہی ختم کر سکوں گا“
[شرح دیوانِ غالب، جوش ملیسانی، صفحہ 56-57]
ایک اہم چیز یہ کہ یہاں غالب نے روایت کی آمیزش سے مخصوص شاعرانہ واقعیت بھی پیدا ہو گئی ہے جسے جے سی رینسم (J. C Ransome) نے شاعری کی افسانویت کا نام دیا ہے۔
اس شعر میں فلسفۂ ہجر کا نہایت خوب صورت بیان ہے۔ ہجر کیا ہے؟ آخر یہ عاشقِ صادق کو اس قدر پھڑکاتا کیوں ہے؟ ہجر کے اساسی و تشکیلی عناصر اور محرکات کیا کیا ہیں؟ ان سوالات کے جواب ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
فلسفۂ ہجر اور ہماری شعری روایت :
ہجر اس کیفیت کا نام ہے جو محب و محبوب کے درمیان عنصری تفارق یا عدمِ میلان سے ترکیب پاتی ہے۔
عربی میں بفتح الھاء مستعمل ہے، حافظ شیراز نے فتح کے ساتھ برتا بھی ہے۔
شب قدر ست و طے شد نامۂ ہجر
سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر
مگر مؤلف نور اللغات (جلد 04،صفحہ 965) کے بقول فصحائے پارس کے ہاں اور ان کی تقلید سے ہمارے ہاں بھی بالکسر ہی مستعمل ہے۔
ہجر کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو قریبی سبب محب کی لغزش قرار پائے گی۔ اکثر اوقات محبوب کا اعراض کرنا بہ سبب تقصیرِ محب ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ محبوب بہ اندازِ نخوت خود ہی عدمِ التفات کی روش اختیار کر لیتا ہے۔ محبوب کا گریز بہ وجہِ خطائے محب، اس سے متعلق فوائد الفواد میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے بہت جامع گفتگو کی ہے، (سولہویں مجلس، صفحہ 176) آپ فرماتے ہیں کہ :
عاشق و معشوق باہم محبت کرتے ہوں، اس درمیان عاشق سے کوئی ایسا جریرہ لاحق ہو جائے تو جو اس کے دوست کو مرغوب نہ ہو تو اولاً وہ اس سے اعراض کر لیتا ہے۔ یعنی منہ موڑ لیتا ہے۔ پس عاشق پر واجب ہے کہ اسی وقت معذرت کر لے۔ یقیناً اس کا دوست اس سے راضی ہو جائے گا اور معمولی سی بے توجہی جو ہوئی تھی، جاتی رہے گی۔ اور اگر وہ محبت کرنے والا اا پہ اصرار کرے تو وہ اعراض حجاب تک پہنچ جاتا ہے۔ اب بھی محبت کا دعویدار رجوع نہ کرے تو وہ حجاب تفاصل میں بدل جائے گا، پھر سلبِ مزید پھر سلبِ قدیم پھر تسلی اور آخری اور سخت تر درجہ عداوت ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ وہ جو پہلے عاشق و معشوق تھے، اب عاشق کی تقاصیر کے سبب درمیان میں عداوت کی گہری اور ضخیم فصیل کھڑی ہو گئی ہے۔
ظاہر ہے خواجہ صاحبؒ نے عاشقِ صادق اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کو بیان کیا ہے، لیکن اگر یہ کلیہ غزلیہ محبوب و محب کے مابین رکھیں اور ان کے مابین جدائی کے اسباب و محرکات کا جائزہ لیں تو کلیدی وجہ محبوب کی خاطرِ نازک کو درخورِ اعتناء نہ سمجھنے میں مضمر ہوگی۔ اگر ہم عصری بالخصوص معاشرتی رویوں کا گہرا مطالعہ کریں تو باہمی رقابت، دشمنی، حرس و ہوا، بیگانگی، وحشت، کم توجہی، عدمِ التفات، شکوک و شبہات، اوہام خیزی، طنز آمیز لہجے، معاصرانہ چشمک، انانیت، امیر و غریب کے مابین امتیازی لکیر، رشتوں کی چپقلش اور غیر معیاری انسانی تفریق کے سبب انسانیت سوزی عیاں ہے۔ ایسے میں انسانوں کی باہمی غیریّت و اجنبیّت کا ظہور لابدیّٰ امر ہے۔
نیّر مسعود لکھتے ہیں کہ :
رقیبوں کی بدآموزی، پاسبان کی بے التفاتی، محبوب کی حیا اور غرورِ عزّ و ناز، خود عاشق کا حجابِ پاسِ وضع اور اس قبیل کی کتنی رکاوٹیں اور مشکلیں ہیں جو وصل کی راہ میں دیواروں کی طرح حائل رہتی ہیں اور ان میں سے ہر دیوار کو گرانے کے لیے بعض مرتبہ ایک ایک عمر درکار ہوتی ہے۔“
(تعبیرِ غالب مصنفہ نیر مسعود، صفحہ 48)
مشرقی شعریات میں محبوب جس ناز و عشوہ کا مالک ہے، مغربی ادب اس تصور سے کوسوں دور ہے۔ یہ دوری خوش آئند ہے یا نہیں، اس سے بحث نہیں، لیکن اہم یہ ہے کہ مشرقی ادب کا محبوب اس قدر خود سر اور مغرور ہے کہ اسے اپنے چاہنے والے کی ہجر نصیبی سے چنداں غرض نہیں۔ وہ بلاوجہ بھی محب کو تڑپا کر حظ کشید کرتا ہے۔ داغ دہلوی کا محبوب تو ایسا خون خوار ہے کہ محب کو لٹا لٹا کے مارے جاتے ہیں :
رہے گا عشق ترا خاک میں ملا کے مجھے
کہ ابتدا میں ہوئے رنج انتہا کے مجھے
دیئے ہیں ہجر میں دکھ درد کس بلا کے مجھے
شبِ فراق نے مارا لٹا لٹا کے مجھے
یہ صرف معمولی سی مثال ہے ورنہ داغ کا محبوب جس طرح کی خون کی ہولیاں کھیلتا ہے، وہ ان کے دواوین میں محفوظ ہے۔ دراصل میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ ہجر کے اسباب یکسر ختم بھی ہو جائیں تو مشرقی ادب کا محبوب بلا جواز محب سے پہلو تہی اور جدائی کا مجاز ہے۔ میر تقی میر کہتے ہیں :
رنجش کی وجہ آگے تو ہوتی بھی تھی کوئی؟
روپوش ہم سے یار جو ہے بے سبب ہے اب
یعنی محبوب کا روپوش ہونا (محب کو دیدار کی لذت سے محروم رکھنا) پہلے کوئی وجہ رکھتا تھا نہ اب، بلکہ وہ بلا سبب ہی اپنی عشوہ طرازیوں کی بنا پر ہر طرح کا جور و جفا روا رکھنے کا مجاز ہے۔
محبوب چاہے جیسا بھی ہو، عاشقِ صادق کا فریضہ ہے کہ وہ محبوب کی رضا کے سامنے اپنی رضا کو مات دے دے۔ اصل عاشق و محب وہی، جو یہ کہے :
و أترك ما أهوىٰ لما قد هويته
فأرضىٰ بما ترضىٰ و إن سخطت نفسى
ترجمہ : تیری خواہش کے لیے میں اپنی خواہش چھوڑ دیتا ہوں۔ پس میں تیری رضا پر راضی ہوں اگرچہ میرا نفس مجھے برا کہے
مرزا غالب کا یہ شعر جہاں محبوب کی عدم توجہی کا غماز ہے وہاں شبِ ہجر کی کلفتوں، خانہ خرابیوں، تیرہ بختیوں اور اندوہ ناکیوں کا شکوہ بھی ہے۔ غالب کی یہ عظمت مسلَّمہ ہے کہ وہ فقط لفظی رسومیات (Verbal Convention) کے طور پر نہیں بلکہ تجسیمی (Impersonative) اور مرئی حقائق کی حیثیت سے اپنے شعری نظام سے تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی غالب کی انفرادیت واضح ہے کہ فقط فراق کی سیہ بختیوں کا تذکرہ ہی نہ کیا بلکہ اس کے انجام کی طرف بلیغ مگر مبہم اشارہ بھی کر دیا، وہی اشارہ جو میر تقی میر نے واضح طور پر کیا کہ :
مفلس، سو مر گیا، نہ ہوا وصل یار کا
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس شعر کی وجوہِ بلاغت میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ :
”شعر میں «نہ پوچھ» کے لفظ سے بڑے معنیٰ پیدا کیے گئے ہیں جن کے ذریعے قاری یا سامع کے تخیل کو بظاہر روک کر، حیرت اور وسعت کا تصور دلایا گیا ہے۔ اگر «نہ پوچھ» کی جگہ کوئی اور لفظ ہوتا تو یہ بات نہ پیدا ہوتی“۔
[اطرافِ غالبؔ، ڈاکٹر سید عبداللہ، صفحہ ٣٨٦، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ]
—————-
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
لغات :
جذبۂ بے اختیار : ایسا جذبہ جو زِخودرفتگی کا باعث ہو
شوق : فرہنگِ آصفیہ، صفحہ 192 جلد 03 میں شوق کے ذیل میں ہے کہ :
خواہش، آرزو، نفس کی آزمندی، ہوسِ انسانی، اِچھّا، تمنّا، اشتیاق۔
اور بطورِ استشہاد ذوق کا یہ شعر بھی درج ہے :
یہ چاہتا ہے شوق کہ قاصد بجائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافۂ خط پر لگی ہوئی
دیکھا چاہیے : دیکھنا چاہیے
شمشیر : صاحبِ وجدانِ تحقیق عبد الواجد المتخلص بہ واجدؔ لکھتے ہیں کہ : شمشیر مرکب ہے شَم اور شَیر سے۔ شَم بمعنیٰ ناخن اور شیر بمعنیٰ اسد (Loin) درندۂ مشہور، چونکہ تلوار کی شکل ناخنِ شیر سے مشابہت رکھتی ہے، اس لیے فارسی میں تلوار کو شمشیر کہتے ہیں۔ (وجدانِ تحقیق یعنی شرح دیوانِ غالب، صفحہ 07، مطبع فیض منبع فخر نظامی، ١٣١٩ ھجری)
صاحبِ نور اللغات نے بھی اس معنیٰ کی تائید کی ہے۔ آصفیہ کے ہاں دُمِ شمشیر کے اضافے کے ساتھ اس کی بھی توثیق ہوتی ہے۔
دم : تلوار کی دھار
لفظِ دم کے دو معنیٰ ہیں :
سانس اور باڑ۔ مذکورہ شعر میں دونوں معانی درست ہیں۔ اکثر شارحین نے باڑ کے اعتبار سے تفہیم کی ہے لیکن بمعنیٰ سانس اعراض کیے رکھا۔
شرح :
غیر متداول نسخے میں اسی سے ملتا جلتا ایک شعر ہے کہ :
لذّتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا
لذتِ ایجادِ ناز : محبوب جو متنوع ناز و انداز ایجاد کرتا ہے، اس سے بھی عاشق کو مخصوص حظ میسر آتا ہے
افسون : سحر، جادو
عرضِ ذوقِ قتل : عاشق کے قتل ہونے کی خواہش
”نعل آتش میں ہونا“ محاورہ ہے، یعنی بیقراری سے۔ گیان چند نے لکھا ہے کہ اہلِ افسوں جسے بے قرار دیکھنا چاہتے ہیں، نعل پر اس کا نام لکھ کر آگ میں جلا دیتے ہیں۔
تیغِ یار : محبوب کی عشوہ طرازیاں
نخچیر : صید، شکار
شعر کا معنیٰ یہ ہے کہ محبوب کے ایجادِ ناز سے عاشق کو جو لذت ملتی ہے، وہ لذت پیش خیمہ ہے عاشق کے قتل ہونے کی خواہش کا۔ اور محبوب کی شمشیرِ غمزہ سے بے قرار ہے کہ وہ قتل میں بیجا طوالت کیوں اختیار کر رہا ہے؟
غالب نے اس شعر کو مزید ترقی دے کر «جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے» والا شعر کہا
—
متداول شعر کی شرح سے قبل اس کے کلیدی لفظ ”شوق“ کی کچھ وضاحت ضروری ہے۔ آئیے! لفظِ شوق پہ تفصیلی نظر ڈالتے ہیں :
اشتقاقی اعتبار سے شوق عربی الاصل ہے۔ عربی میں شوق کے تین کلیدی مفاہیم ہیں :
1) شوق سے محبت مراد ہے، جیسا کہ ابو الطیب متنبی کا شعر ہے :
متى يشتقى من لاعج الشوق فى الحشا
محب لها فى قربة متباعد
ترجمہ : جس کے سینے میں محبت کی آگ بھڑک رہی ہو، وہ کب شفایاب ہو سکتا ہے۔ کہ جس سے محبت کرتا ہے، وہ قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہے۔
2) کسی شے کی طرف رجحانِ قلب کو بھی شوق کہتے ہیں، معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں ہے کہ :
الشَّوقُ : نزوع النّفس إلى الشىء أو لَهفةٌ لرؤية المحبوب
ترجمہ : نفس کا کسی شے کی طرف میلان یا محبوب کے دیدار کی خاطر شدید اشتیاق شوق کہلاتا ہے۔
(معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ، مؤلفہ الدکتور احمد مختار عمر، صفحہ 1239، علم الکتاب قاھرہ)
3) شوق کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے : طلبِ وصل کی شدت، مگر حصول نا ممکن۔ جِران العود (دیوانِ حماسہ ،باب النسیب) کہتا ہے کہ :
ایا کبداً کادت عیشۃ غرّب
من الشوق اثر الظاعنین تصدع
ترجمہ : اے لوگو! مقامِ غُرّب کی شام کوچ کرنے والوں کے پیچھے شدتِ وصل کی طلب سے میرا جگر لخت لخت ہونے کے قریب ہے (مگر حصول نا ممکن ہے)۔
اردو میں یہ تینوں معانی بعینہٖ رائج ہیں۔ وصل کے لیے شدید اضطراب کے معنیٰ میں دیوانِ شمس النساء شرمؔ میں ہے :
ہر گھڑی شوقِ ملاقات ہے بڑھتا جاتا
ایک پرزہ جو لکھوں، اس سے ہو دفتر پیدا
محبت کے معنیٰ میں دیوانِ میر تقی میر (ششم) میں ہے :
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
تلاش و جستجو کے معنیٰ میں دیوانِ استاد ابراہیم ذوقؔ میں ہے :
پھرا گر آسماں تو شوق میں تیرے ہے سرگرداں
اگر خورشید نکلا، تیرا گرمِ جستجو نکلا
کلیاتِ شاہ نصیر دہلوی میں دو غزلیں اس ردیف میں ہیں، اشتیاق کے معنیٰ میں ایک شعر ملاحظہ ہو :
پھینک دے گی زلف وھاں چاہِ ذقن پر مار کر
حسن کے کُوچے میں دل رکھتا تو ہے جانے کا شوق
الغرض! لفظِ شوق اپنے اندر معانی کا ایک جہان رکھتا ہے۔ یہ لفظ بہت عمیق ہے۔ شوق شدتِ طلب الی الوصل کی کیفیت کا نام ہے۔ وہ ماجرا جس میں لذتِ وصال کی نیرنگیاں شعوری طور پر فی القلب موجود ہوں لیکن حصول ناممکن ہو۔ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جب اشتیاق اپنی عروج پر ہوتا ہے۔ اسی حالت کا نام شوق ہے۔ ماہر نقاد احمد جاوید صاحب نے غالباً کسی جگہ لکھا تھا کہ ”شوق وہ جذبہ ہے جس میں ہجر اٹل ہے اور وصل کی طلب اندوختۂ وجود ہے۔ ہجر کا اٹل ہونا اندوختۂ شعور اور وصل کی طلب اندوختۂ وجود ہے۔، یعنی شعور کی کُل پونجی وصل کے نا ممکن ہونے پر دال ہے اور وجود کی کل متاع یہ ہے کہ وصل ہونا چاہیے، یہ شوق ہے۔ شوق عشق کی اس خاصیت کو کہتے ہیں جس میں فراق کا تجربہ اور وصال کا یقین گندھا ہو“۔
تصوفانہ اصطلاح میں اس سے وہی مراد ہے جس پر استشہاداً ابھی بحوالۂ جِران العود دیوانِ حماسہ کا ایک شعر گزرا۔ رسالۃ القشیریۃ میں ہے کہ ایک دن حضرت داؤد علیہ السلام اکیلے جنگل کو نکل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بذریعہ وحی فرمایا : اے داؤد! تو اکیلا کیوں ہے؟ انھوں نے عرض کیا : یا الٰہی! میں دل سے تمھاری ملاقات کا مشتاق ہوں مگر مخلوق اس میں حائل ہو جاتی ہے۔ (یعنی وصال کی شدید طلب ہے لیکن حصول مشکل نظر آ رہا ہے)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان کی طرف لوٹ جاؤ، کیوں کہ اگر تو کسی نافرمان بندے کو میری طرف لے آئے گا تو لوحِ محفوظ میں تمھارا نام جهبذ (مميز بين جيدها ورديئها [بحوالہ : معجم الرائد]، یعنی کھرے کھوٹے میں امتیاز کرنے والا) لکھا جائے گا۔
( رسالۃ القشیریۃ [مترجم]، امام ابو القاسم عبد الکریم ھوازن القشیریہ، صفحہ 492، مکتبہ رحمانیہ)
استاد ابو علی دقاق سے مروی ہے کہ محبوب کی ملاقات کے لیے دلوں کا جوش مارنا شوق کہلاتا ہے۔ مزید فرمایا کہ شوق اور اشتیاق میں فرق ہے۔ کیوں کہ شوق تو محبوب کی ملاقات اور دیدار سے مدھم پڑ جاتا ہے لیکن اشتیاق ملاقات سے زائل نہیں ہوتا۔ اس کی تائید میں یہ شعر پیش کیا گیا :
ما يرجع الطرف عنه عند رؤيته
حتى يعود اليه الطرف مشتاقاً
ترجمہ : اشتیاق کی وجہ سے دیدارِ محبوب کے وقت نگاہ اس سے ہٹتی ہی نہیں، کہ اس کے دوبارہ لوٹنے کا سوال ہو“
( رسالۃ القشیریۃ [مترجم]، امام ابو القاسم عبد الکریم ھوازن القشیریہ، صفحہ 491، مکتبہ رحمانیہ)
اب آتے ہیں شعر کی شرح کی طرف :
صنعتِ ”ارسال المثلَین“ میں کہے گئے اس شعر میں شوقِ شہادت کی وجہ سے شاعر کی بے اختیاری اور جذبۂ وصال کا شدید بیان ہے۔ وہ طلبِ محبوب میں اس درجہ خود رفتہ ہے کہ اس کے اعجاز سے شمشیر کی دھار باہر کو آ گئ ہے۔ دمِ شمشیر سے تلوار کا وہ جوہر مراد ہے جو شمشیر کے لیے بہ منزلہ روح کے ہے۔ بیتابی اور شوقِ شہادت کی امتزاجی کیفیت کی ایسی عمدہ مثال پیش کرنا غالب کی شاعرانہ جدّت اور فکر کی با لید گی کا کمال نہیں تو کیا ہے۔
عموماً شارحین نے ”جذبۂ بے اختیارِ شوق“ کی نسبت ”شمشیر“ کی طرف کی ہے، یعنی شمشیر کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اشتیاقِ ملاقات میں وہ بیخود ہوئی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر محاورہ ’’آپے سے باہر ہونا‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ عاشق کو قتل کر نے کے لیے تلوار اس قدر بے اختیار ہوئی جا رہی ہے کہ اس کا دم اس کے سینے سے باہر نکل آیا ہے..…الخ۔ لیکن یہ درست نہیں، کیوں کہ اگر یہ معنیٰ درست مانیں تو ”شوقِ شہادت“ کا بنیادی نکتہ حصار میں آنے سے رہ جائے گا۔ ظاہر ہے کہ شاعر کی ذات میں کوئی نہ کوئی ایسی طلسماتی وجہ ضرور ہے جس کی بدولت دمِ شمشیر کا باہر آنا عقلاً متحقق ہے، اور وہ چیز ”طلبِ وصال کی شعوری کشش“ ہے۔ وصل کی طلب کو دوسرے الفاظ میں ”شہادت کی تمنّا“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ تمنا انسان کے لیے تو ثابت کی جا سکتی ہے لیکن تلوار کے لیے نہیں، بالخصوص جبکہ وہ اس متعینہ امر [کاٹنا، قتل کرنا] میں بذاتِ خود فاعلیت کا معنیٰ رکھتی ہو۔
جوش ملیسانی لکھتے ہیں کہ :
شوق سے شوقِ شہادت مراد ہے۔ فرماتے ہیں : میرے شوقِ شہادت کی یہ کشش دیکھنے کے قابل ہے کہ تلوار خود بڑھ بڑھ کر میری طرف آتی ہے اور میرا ارمان پورا کرنے کے لیے بیتاب ہو رہی ہے۔ دمِ شمشیر سے آبدارئ شمشیر مراد ہے۔ مگر دَم کے معنیٰ سانس بھی ہیں اور بے چینی کے لیے یہ محاورہ ہے کہ کیوں دم نکلا جا رہا ہے؟ مصرعِ ثانی میں لفظِ دَم کی یہ خوبی وجدانی ہے۔
(شرح دیوان غالب از جوش ملسیانی، صفحہ 57)
بلاشبہ غالب کا یہ شعر نقطۂ عروج کو پہنچا ہوا ہے اور بیساختہ ٹائٹس برک ہارٹ (Titus Burckhardt) کے اس قول کی یاد دلاتا ہے کہ جب دانش (Wisdom) اور مہارت (Skill) جمع ہو جائیں تو کمال جنم لیتا ہے۔
علم البدیع کے اعتبار سے اس شعر میں حسنِ تعلیل کی صنعت اپنی آب و تاب سے موجود ہے۔
حسنِ تعلیل (Ascribing to a different cause) شعری صنعت (Poetic Craftsmanship) ہے۔ جس میں شاعر کسی واقعے کی اصل، منطقی، جغرافیائی یا سائنسی وجہ کو نظرانداز کر کے ایک تخیلاتی، جذباتی اور عین شاعرانہ وجہ بیان کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کسی معلول کے لیے یہ شاعرانہ علت مبالغہ لیکن جمال آفرینی ہے۔ شاعرانہ طلسم کاری کا یہ اعجاز ہے کہ پہلی مرتبہ ذہن اس استدلال کو مان بھی لیتا ہے۔
جواہر البلاغت میں ہے کہ :
حسن التعليل : هو أن ينكر الأديب صراحة أو ضمناً علة الشىء المعروفة، و يأتى بعلة أدبية طريفة تناسب الغرض الذى يرمىٰ إليه. يعنى أن الشاعر أو الناثر يدعى لوصف علة غير حقيقة، مناسبة له باعتبار لطيف، مشتملة على دقة النظر
ترجمہ : حسنِ تعلیل یہ ہے کہ انشاء پرداز (اپنے تخیل سے) صراحۃً یا ضمناً چیز کی علتِ مشہورہ کا انکار کرے اور ایسی ادبی، انوکھی علت پیش کرے جو اس کے مقصد کے مناسب ہو۔ یعنی شاعر یا نثر نگار کا باریک بینی پر مشتمل عمدہ وصف کا تخیل کرتے ہوئے مقصد کے موافق چیز کی علتِ غیر حقیقیہ کا دعویٰ کرنا۔
(جواہر البلاغت، مصنفہ السید احمد الھاشمی، صفحہ 295 ، مطبع دار ابنِ خلدون اسکندریہ)
—————-
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
لغات :
دام : جال
شنیدن : سننا
مدعا : مقصود، مقصد، غرض، مطلب، مراد، منشا، خواہش
عَنقا : ایک خیالی پرند۔ اول مفتوح، عربی میں مع ہمزہ ہے، لیکن فارسی اردو میں بے ہمزہ رائج ہے۔ عَنقا اور ہما میں فرق یہ ہے کہ ہما کو محض چڑیا فرض کرتے ہیں، لیکن عَنقا کے ایک معنیٰ ہیولائے روحِ انسانی اور عقلِ فعال بھی ہیں۔
اپنے : "میرے" کی جگہ اپنے تاکید کے لیے ہے۔
عالمِ تقریر : گفتگو کا جہان
شرح :
طباطبائی مرحوم لکھتے ہیں کہ :
”اگر شوقِ آگہی نے صیاد بن کر شنیدن کا جال بچھایا بھی تو کیا ، میری تقریر کا مطلب طائرِ عَنقا ہے جو کبھی اسیرِ دام نہیں ہونے کا۔ غرض یہ ہے کہ میرے اشعار سراسر اسرار ہیں“۔
بلاشبہ اس مضمون کے لیے غالب نے برمحل لفظیات کا استعمال کیا ہے۔ یہ شاعر کا کمال ہوتا ہے کہ وہ طرفہ مضمون کے لیےالفاظ کا چناؤ بھی سمجھداری سے کرے۔ مغربی مفکرین میں سے دانتے (Dante) کا کہنا ہے کہ جس طرح اچھے سپاہی کے پاس اچھا گھوڑا ضروری ہے، اسی طرح اچھے شاعر کے پاس عمدہ الفاظ (Excellentia Vacabulorum) ہونے ضروری ہیں۔ آرنلڈ (Matthew Arnold) کا کہنا ہے کہ اسلوب میں ایک خاص شان اور قوت انتخابِ الفاظ (Diction) بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کی حرکت (Movement) کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ عمدہ ترین شاعری میں صداقت اور سنجیدگی کا جو اعلیٰ معیار موضوع اور مواد میں قائم ہوتا ہے، وہ انتخابِ الفاظ کی عمدگی (Superiority of diction) اور اسلوب کی قوت و حرکت کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ اور انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ فلابیر (Flaubert) نے بھی یہی بات کی ہے کہ حسین خیالات کا وجود حسین شکلوں کے بغیر ممکن نہیں۔ والٹر پیٹر (Walter Horatio Pater) کا کہنا ہے کہ کسی خیال کے اظہار کے لیے اصل چیز ”صرف ایک بے مثل لفظ، مناسب عنوان، جملے یا ایک جزو یا پورا جملہ یا عبارت کا کوئی ٹکڑا جو اس کے باطنی طرزِ احساس اور اندرونی بصیرت کو محسوس پیکر دے سکتا ہو“ ہے۔
ایک لطیف نکتہ ملاحظہ فرمائیں کہ جال عموماً چھپ کر بچھایا جاتا ہے تاکہ صید دھوکے سے پھنس جائے، کیوں کہ اگر دیکھتا ہوا تو اس کے لیے رستگاری سامنے کی چیز ہوگی، یعنی وہ جال میں آئے گا ہی نہیں۔ لیکن غالب نے کہا کہ اگر دھوکے اور چوری چھپے بھی میرے عالمِ تقریر کا مدعا کریدا جائے، تب بھی وہ عنقا کی مانند صیاد کی نگاہوں سے روپوش ہی رہے گا۔
فرہنگِ آصفیہ جلد سوم ،صفحہ 290 تا 292 میں عَنقا (بفتح العین) کے ذیل میں جو احوال مذکور ہیں، ان کا مختصر ذکر مندرجہ ذیل ہے :
⛧ عبد اللہ یافعی نے مرآۃ الخیال سے نقل کیا ہے کہ اصحاب الرس میں ایک میل اونچا پہاڑ تھا۔ جس میں ہزاروں طیور رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی برس میں ایک پرند بزرگ خلقت، طویل العَنق، جس کا منہ آدمیوں کا سا اور اعضاء میں ہر ایک پرندے کی مشابہت، اس پہاڑ پر آ نکلا۔ اول اول ان جانوروں کو ستانا اور ہلاک کرنا شروع کیا۔ ساکنانِ اصحاب الرس اس پرندے کو عَنقائے مغرب کہتے تھے۔ جب اس پرندے نے حد سے زیادہ ستانے لر کمر باندھ لی تو وہ سب جمع ہو کر اپنے پیغمبر حضرت حیطہ بن صفوان علیہ السلام کے پاس گئے ا