دورِ جدید میں مصنوعی ذہانت یا آڑٹفیشل انٹلیجنس آئے روز بہتر سے بہتر ہو رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی بنیاد مشین لرننگ پر ہے۔ جس طرح ایک بچہ اپنے ماحول سے سیکھ کر خود میں بدلاؤ لاتا ہے بالکل ایسے ہی مصنوعی ذہانت کا پروگرام کمپیوٹر کی طاقت سے اس میں فیڈ کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے سیکھتا ہے۔ آج دنیا میں ہر روز تقریباً 2.8 quintillion byte ڈیٹا جنریٹ ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا میں، آپ اور دُنیا بھر کے اربوں لوگ انٹرنیٹ کے استعمال سے، سوشل میڈیا پر پوسٹس، ویڈیوز، ای میلز، وٹس ایپ،آن لائن شاپنگ وغیرہ کے ذریعے جنریٹ کرتے ہیں۔
ماضی میں انسانوں کے پاس اس قدر ڈیٹا موجود نہیں تھا۔ مگر آج شاید فیس بک یا وٹس ایپ کو آپ سے زیادہ آپکا پتہ ہے۔ وہ چیزیں جو ماضی میں اپ ان پلیٹ فارمز پر لگا کر بھول چکے ہیں وہ بھی انکے پاس محفوظ ہے۔
اس قدر ڈیٹا ہونے کے بعد یہ قدرِ آسان ہو گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانوں یا انسانی رویوں کے بارے میں سکھایا جائے۔ کچھ عرصہ قبل ایک روبوٹ محض یوٹیوب پر کھانا پکانے کی ہزاروں ویڈیوز دیکھ دیکھ کر ہی کوکنگ سیکھ گیا۔ مصنوعی ذہانت ایک بہت ہی طاقتور ٹیکنالوجی ہے مگر اسکا غلط استعمال بھی ممکن ہے۔ جس میں سب سے زیادہ بات آج کے دور میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی ہوتی ہے۔
کسی کے چہرے پر کسی اور کا چہرا لگا کر یہ تاثر دلانا کہ یہ دراصل دوسرا شخص ہے کوئی نئی بات نہیں ۔ماضی میں بھی لوگ کس مہارت سے پاسپورٹس پر تصاویر تبدیل کر دیا کرتے۔ ایک تصویر پر دوسری تصویر لگا کر اسے یوں کاپی کرتے کہ اصل کا گماں ہوتا۔ مگر کمپوٹر اور اسکے جدید سوفٹویئرز کے آنے سے یہ سلسلہ آسان ہوتا گیا۔ شروع شروع میں لوگ ایڈوب فوٹو شاپ اور مائکروسافٹ پینٹ جیسے سافٹ وئیرز پر ایسا کرتے ۔ اس میں حقیقت سے قریب تر ہونے کا گمان، سافٹ ویئر استعمال کرنے والے آدمی کی مہارت پر منحصر ہوتا۔ مگر اب یہی سب زیادہ بہتر اور اصل نقل کی پہچان کے فرق کو مٹاتی مصنوعی ذہانت کی حامل ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کرتی ہے۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں دراصل ایسے الگورتھمز استعمال ہوتے ہیں جو دنیا بھر کے انسانوں کے چہرے، اُنکے چہرے کے تاٹرات، اُنکی معمولی سے معمولی چہرے کی حرکت، بولنے ، چلنے کا انداز، وغیرہ وغیرہ جیسی تفصیلات کو پڑھتے ہیں اور اس سے انسانی چہروں میں موجود مشترکہ فیچرز کو نوٹ کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ڈیٹا سیٹ ہوتا یے جسکے لیے ایک نہیں بلکہ کمپیوٹرز کا پورا نیٹ ورک کام کرتا ہے جسے نیورل نیٹ ورک کہتے ہیں۔ جہاں مختلف کمپیوٹر ایک مسئلے کو مختلف حصوں میں توڑ کر آپس میں مل کر کام کرتے ہیں اور یہ کسی مسئلے کی پیچیدگی کے اعتبار سے اپنے مختص کام کو بدلتے رہتے ہیں تاکہ بہتر سے بہتر حل ڈھونڈا جا سکے۔ یہ بے حد طاقتور اور تیز طریقہ کار ہے۔ جس سے گھنٹوں کا کام سیکنڈز میں ہو سکتا ہے۔
اس نیورل نیٹ ورک کی بدولت ڈیپ فیک حقیقت سے قریب تر نقلی ویڈیوز بنانے میں مہارت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ فرض کیجئے اپ نے اپنا چہرا ٹام کروز کی فلم مشن امپاسبل کے جہاز والے سین میں لگانا ہے۔ تو اب آپ کیا کریں گے کہ کسی ڈیہ فیک ایپ پروگرام میں ٹام کروز کی فلم کا وہ سین ڈالیں گے اور ساتھ ہی اپنی کوئی تصویر۔ اب یہ پروگرام کرے گا یہ کہ اس سین میں اور باقی انٹرنیٹ یا ڈیٹا سیٹ سے ٹام کروز کے چہرے کو پڑھے گا اور پھر آپکی تصویر کو ہرہر فریم میں یوں ڈھال کر لگائے گا کہ آپکے چہرے کے مصنوعی طور پر بنائے گئے تاثرات ٹام کروز کے چہرے کے تاثرات اور حرکات سے ہم میل کھانا شروع کر دیں۔ اسکے بعد یہ اسے مزید بہتر بنانے کے لئے بار بار چلا کر دیکھے گا کہ آیا کوئی خامی تو نہیں رہ گئی۔ یوں آپ یا کوئی بھی جب ڈیپ فیک سے بنائی ویڈیو دیکھے گا تو اُسکے لیے یہ جاننا مشکل ہو جائے گا کہ یہ اصلی ہے یا نقلی۔
بالکل ایسے ہی اپ اسکا اُلٹ بھی کر سکتے ہیں یعنی آپ اپنی کسی ویڈیو میں ٹام کروز کو بولتا دکھا دیں۔
ڈیہپ فیک کے جہاں انٹرٹینمنٹ اور فلم انڈسٹری کو فائدے ہیں وہیں اسکا غلط استعمال بھی دردِ سر بن سکتا ہے۔ کئی سیاستدانوں، اہم شخصیات، شوبز کے لوگوں کی اس طرح کی نقلی ویڈیوز بنا کر دنیا میں غلط خبریں پھیلائی جا سکتی ہیں جس سے جنگ کی سی صورتحال بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یوکرین اور روس کی حالیہ جنگ میں ڈیہ فیک کا بے حد استعمال نظر آ رہا کے جہاں ملکوں کے صدور می نقلی ویڈیوز بنا کر دونوں ملکوں کی عوام تک غلط معلومات پہنچا کر جنگ کے حوالے سے انکا رویہ اور حمایت بدلنے کی کوشش کی جار رہی ہے ۔ ڈیپ فیک کر استعمال سے کسی انسان کی زندگی بھی تباہ کی جا سکتی ہے۔۔خاص طور پر خواتین کی نازیبا ویڈیوز بنا کر معاشرے میں اُنکے مقام کو متنازع بنایا جا سکتا ہے۔ لہذا اس حوالے سےبین الاقوامی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جسکا فی الحال پوری دنیا میں خاطر خواہ فقدان ہے۔
سوہنی دھرتی کے لاوارث شہید ارضِ وطن کے عسکری یتیموں کا نوحہ
بہت سال پہلے کا ذکر ہے ۔ لاہور سے سیالکوٹ آیا مانی چھاوٗنی کے شمال مشرقی گیٹ کے پار لال...