(Last Updated On: )
دینی تعلیمی مدارس کا آغازمحسن انسانیت ﷺ نے فرمایا۔معلم انسانیت ﷺنے صفہ کے چبوترے پراصحاب صفہ کی تعلیم و تربیت کا آغازکیا،یہ وہ اصحاب رسولﷺتھے جو اپنے گھربارچھوڑ کر حصول تعلیم کے لیے اس تعلیمی ادارے کے طلبہ بنے اورانتہائی نامساعدحالات میں بھی بھوک اور افلاس سے مقابلہ کرتے ہوئے علوم وحیہ کے حصول میں سرگرم عمل رہے۔اصحاب صفہ پر بعض اوقات ایسے حالات بھی آئے کہ نقاہت کے باعث وہ دیواروں کو تھام تھام کر چلتے لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی۔جب کبھی دوردرازکاکوئی قبیلہ مسلمان ہوتا تو دینی مسائل سے آگاہی کے لیے اصحاب صفہ میں سے کچھ نوجوان وہاں بھیج دیے جاتے جو انہیں جملہ امورمعاشرت ودیگراحکامات شریعہ سے آگاہی فراہم کرتے۔ایک بار تودھوکے سے لے جانے والے اصحاب صفہ کی کثیرتعدادکو شہید بھی کر دیا گیا تھا جس کا کہ محسن انسانیت ﷺکوبے حد قلق ہوا۔”صفہ“کاسلسلہ خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا اور حضرت عمر کے زمانے میں ”گشتی تعلیمی ادارے“ وجود میں آئے،چندعلمائے دین اور اونٹنی پر دھراسامان خواندگی پرمشتمل یہ”قافلہ تعلیم“ قبیلہ قبیلہ مطلقاََان پڑھ اور جاہل افراد کو تلاش کرتا اورلازمی تعلیم کے طورپر قرآن مجیدکے چند حصے حفظ کراتااورلکھنے پڑھنے کی ضروری تربیت بھی فراہم کرتا۔دینی کا تعلیم کے اس ادارے نے امت مسلمہ کا عروج اور زوال دیکھا،مسلمانوں کی آزادی اور دورغلامی دیکھااور عرب و عجم کے چہروں سے بھی آشنائی حاصل کی لیکن کسی نہ کسی طرح اپناوجود برقراررکھااور آج تک یہ ادارہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور اپنا جواز بھی پیش کررہاہے۔
جبکہ سیکولرتعلیمی ادارے مغربی نوآبادیاتی دورغلامی کی پیداوار ہیں۔سیکولرتعلیمی اداروں کاموجد”لارڈ میکالے“تھا جس نے یہ تعلیمی ادارے اس لیے بنائے کہ آزادقوم کے نوجوانوں کو ”آداب غلامی“سکھلائے جا سکیں۔گورے سامراج نے بڑی چابکدستی سے رزق کے دروازے صرف ان لوگوں کے لیے کھولے رکھے جو انہیں کے قائم کردہ سیکولرتعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے۔یورپی استعمارنے ان سیکولراداروں سے وہ سرنگوں قیادت پیداکی جس نے محض انگریزی زبان کے تفوق سے بدیسی حکمرانوں سے قربت جمائی اوران کے احکامات کواس سرزمین پر جاری و ساری کیا۔یہ ادارے آج تک اسی تہذیب وثقافت کے علمبردار ہیں اور آزادی کی فضا بھی ان غلامانہ اداروں کا کچھ بھی بھلا نہیں کرسکی۔ جب تک ان سیکولراداروں کا انتظام و انصرام خود گورے کے ہاتھ میں تھاتوان کا معیاراس لیے بہترتھا کہ گوروں کو مہیاہونے والی افرادی قوت دورآزادی کی پروردہ تھی جبکہ آزادی کے بعدآج اس نظام پر وہ لوگ مسلط ہیں جودورغلامی کے تربیت یافتہ ہیں۔چنانچہ آج کے سیکولرتعلیمی ادارے جس طرح کی پسماندہ سے پسماندہ ترین ذہنیت اور اخلاقیات سے عاری نوجوان فراہم کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ جس تیزی سے تنزل کی طرف گامزن ہے وہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے۔
دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی اداروں میں ایک خاص فرق یہ بھی ہے کہ دینی تعلیمی اداروں نے غلامی کو ذہنی طورپر قبول نہیں کیاتھا۔اگرچہ قومی بہاؤمیں انہیں بھی وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا پڑالیکن انہوں نے اس کے باوجود بھی اپنا جداگانہ تشخص برقراررکھا،اس کے مقابلے میں سیکولر تعلیمی ادارے مغربی یورش کے ہر حملے کے آگے سپرڈالتے چلے گئے چنانچہ وہ ”گورے“نہ بن سکنے کی شرمندگی میں اپنے اصل حقیقت سے ہمیشہ منہ ہی چھپاتے رہے۔دورغلامی سے آج تک اس طبقے نے انگریزوں کے سے سو طرح کے رنگ ڈھنگ اپنائے لیکن یہ جب بھی گوروں کے سامنے گئے احساس ندامت ہی لے کر پلٹے۔جبکہ دینی مدارس نے اپنی مقامی تہذیب و ثقافت کو دندان سخت جان سے دبائے رکھااورکتنے ہی معاشی و معاشرتی سخت سے سخت تر وار سہتے رہے لیکن اپنی اصل سے جڑے رہے اوراپنی پہچان سے دستبردار نہ ہوئے۔اس آزادمنش رویے نے انہیں تاریخ کے کچھ ایام میں تنہا بھی کردیااور ان کے ہاں سے کچھ ایسے فیصلے بھی صادرہوئے جسے وقت نے قبول نہ کیالیکن اس نقصان کی سرمایاکاری نے بھی انہیں کسی بھی بڑے خسارے سے محفوظ رکھاکیونکہ آزادی کا ایک خطیرخزانہ ان کے پہلوئے ملبوس میں موجود تھا۔
دینی مدارس اور سیکولرتعلیمی اداروں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولردینی ادارے چونکہ غلامی کی پیدارواہیں اس لیے ان کے فارغ التحصیل نوجوان ”نوکری“کی تلاش میں رہتے ہیں،لڑکپن سے ابتدائے شباب تک غلامی کے آداب سے روشناس نسل خود کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتی اور اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کسی آقا کی تلاش ان کے سر میں سمائی رہتی ہے جس کی نوکری سے ان کا پیٹ وابسطہ ہوناہے۔ایسے نوجوانوں سے سڑکیں اور بازار بھرے پڑے ہیں جن کے پاس لمبی لمبی ڈگریاں ہیں لیکن جب تک آقا میسر نہ آئے ان کی غلامانہ تعلیم بے فائدہ ہے۔اس کے مقابلے میں دینی مدرسے کاکوئی طالب علم بے روزگار نظر نہیں آئے گا،شاید اس لیے کہ ان کے ذہنوں میں رزق حلال کے لیے تگ و دوکوعبادت قراردیاگیا ہے خواہ وہ کسی بھی درجے کی محنت و مشقت سے وابسطہ ہو۔چنانچہ اس آسمان نے بڑے بڑے جید علمائے کرام کوحصول رزق حلا ل کے لیے طرح طرح کی مزدوریاں کرتے دیکھالیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلاکرنوکری کامنتظررہناان کے تعلیمی منہج کے خلاف تھا۔
آزادی اور غلامی کے فرق کواس طرح بھی سمجھاجاسکتاہے کہ آزادقومیں اپنی نسلوں کو اپنی روایات منتقل کرتی ہیں،اپنی زبان اوراپنی تہذیب و ثقافت سکھاتی ہیں اور اپنا لباس اور اپناپہناوے میں فخرمحسوس کرتی ہیں اور اپنے دیسی و مقامی کھانوں کے ذائقوں سے اپنے بچوں میں اپنائیت کو نفوذکرتی ہیں۔جبکہ غلامانہ طبقات کا رویہ ان سے کلیۃ مختلف ہوتاہے۔ایک پروان چڑھتی ہوئی نسل جب سب کچھ اپنا سیکھے گی تو وہ سب کو اپنا سمجھے گی اس کے مقابلے میں بدیسی لباس،بدیسی زبان،بدیسی کھانے ور بدیسی طورواطوارسیکھنے والی نسل اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہوجائے گی تب وہ سیکولرتعلیمی اداروں کی پروردہ نسل اپنی اجنبیت کا انتقام لینے کے لیے عورتوں سے پرس چھینے گی،بزرگوں کامذاق اڑائے گی،زوجیت اور سسرال کے تعلقات ان کے لیے محض حس مزاح کا باعث ہوں گے،نکاح کاتعلق لطیفوں کی نذر ہوگا اور لڑکیوں لڑکوں کی ناجائز دوستیاں ان کے لیے باعث فرحت و شادمانی ہوں گی اوررشتہ داراور مہمان ان کے اخراجات پر بوجھ ثابت ہوں گے اورآنے والی نسل کووہ اپنی آرام دہ اور پرتعیش زندگی کا دشمن سمجھیں گے۔یہ سب غلامی کے ثمرات ہیں جبکہ دینی مدارس کے طلبہ کوان کی مقامی تہذیبی تعلیم و تربیت ان تمام مکروہات سے باز رکھتی ہے۔
سیکولرتعلیمی اداروں نے تعلیم جیسے شیوہ انبیاء علیھم السلام کوکاروبار کی شکل دے دی ہے۔سیکولرازم نے استادکو باپ کے درجے سے گرادیاہے اور شاگردکوبیٹے کے مقام سے محروم کردیاہے۔نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ استاد نے دکاندارکی شکل اختیارکرلی ہے اور شاگردکی حیثیت بازارمیں گاہک کی سی ہو چکی ہے۔اعلی انسانی اقدارکو چندبے حقیقت سکوں کی بھینٹ چڑھانااس سیکولر تعلیمی اداروں کا ماحاصل ہے۔اورخاص طور پر مخلوط تعلیم نے تواستاداورشاگرد کے تعلق کے ساتھ ساتھ ماحول کو جس قدر آلودہ کر دیاہے اس کا تو اندازہ ہی نہیں کیاجاسکتا۔ان اعلی انسانی معاشرتی اقدارکا مشاہدہ کرنا ہو تو دینی تعلیمی ادارے اس کی زندہ مثال پیش کرتے ہیں،جہاں آج بھی استاد کا کردار سگے باپ سے بڑھ کر ہے اور شاگرد وں کے درمیان مسابقت کا جذبہ موجود ہے کہ کون استادسے زیادہ شاباش حاصل کرتاہے۔دوردرازدیہاتوں،وادیوں اور جزیروں میں جہاں سیکولر تعلیمی اداروں کی جہالت عنقا ہے وہاں تو تعلیم صرف دینی تعلیم کے نام سے جانی جاتی ہے،کتاب کا عنوان صرف قرآن مجید پر صادق آتاہے اورقیادت صرف اسوۃ حسنہ ﷺکا ہی نام ہے اور معاملات کی باگ دوڑ مردوں کے ہاتھ میں ہے۔چنانچہ وہاں آج بھی انسانیت موجود ہے،تہذیبی و ثقافتی شعائرموجود ہیں اورنسوانیت اپنی اصلی اور فطری شکل میں نظرآتی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دینی مدارس کے باعث ہی امت مسلمہ نے غلامی کا طوق اتارپھینکاہے اورآزادی کے سفر میں ارتقاء بھی انہیں اداروں کا مرہون منت رہے گا۔غلامی نے جہاں پوری امت کوداغدارکیاہے وہاں باوجود سعی و جستجوکے دینی تعلیمی ادارے بھی کہیں نہ کہیں اس کا شکار ہوئے ہیں۔نصابات اور طرق تدریس میں عصری تقاضوں کی اہمیت سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں۔گزشتہ ایک عرصہ سے دینی تعلیمی اداروں نے سیکولرازم کے وار سہے ہیں اور اپنا دفاع کرتے رہے ہیں اور آج تک اپنا وجود وجواز باقی رکھے ہوئے ہیں جبکہ سیکولرتعلیمی ادارے اپنا جواز کھو چکے ہیں اور انہوں نے قوم کو پژمردہ،مفلوج،ذہنی پسماندہ،اغیار سے شکست خوردہ اور مایوس کن افرادی قوت فراہم کی ہے۔سیکولرتعلیمی اداروں کا اخلاقی انحطاط اب ایک جھٹکابھی سہ جانے کے قابل نہیں رہا۔آزادی کے بعد غلامی کی اس باقیات کو بھی جڑ سے اکھیڑپھینکناچاہیے کہ جب تک دورغلامی کی یہ نشانیاں موجود ہیں ہمارے ہاں روشن خیال قیادت کافقدان ہی رہے گا۔قائداعظم ؒ نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی کمشن بنایا تھا،تعلیمی کمشن۔اس کمشن کی سفارشات آج بھی تشنہ تکمیل ہیں۔اللہ کرے کہ امت مسلمہ کوبیدارمغزقیادت میسرآئے تاکہ غلامی کے منحوس سائے چھٹ سکیں اور پاکستان پوری امت کواور پوری دنیاکوایک شاندارقیادت فراہم کر سکے،آمین۔