کچھ دن قبل “مولانا دین محمد وفائی کا دینی وادبی سوانح نگاری پر کام :ایک تحقیقی جائزہ” نامی تحقیقی کتاب کی قرات کی۔یہ کتاب افشان خاتون خشک اور بشیر احمد رند نے لکھی ہے۔ مولانا دین محمد وفائی ایک ممتاز عالم دین، آزادی پسند، صحافی، کالم نگار، مورخ اور بہترین سوانح نگار تھے۔ ان کی زندگی کے کئی اہم پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک پر مستقل مضامین لکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ مضمون ان کی سوانح عمری کے کام کا ایک جائزہ پیش کرتا ہے۔ سوانح عمری میں ان کی خدمات اس قدر وسیع ہیں کہ سیرت نگار کی شخصیت سب کو معلوم ہے۔ ان کی سیرت کے موضوعات میں سے ایک سیرت صحابہ بھی ہے۔ اولیاء کرام اور علماء کی سیرت ان کا موضوع رہی ہے۔ ان کی صحافتی زندگی کے دوران سیرت کے موضوع پر مختلف شخصیات کو اداریوں یا تاثرات کی صورت میں مسلسل لکھا گیا، اسی طرح اس موضوع پر ان کی بہترین کتاب ’’تذکرہ مشکور سندھ‘‘ بھی ہےاس تحقیقی کتاب میں سوانحی خدمات جائزوں کو پیش کیا گیا ہے۔جو دین محمد وفائی ک کی فطانت اور علمت کو بہتریں خراج عقیدت ہے۔
مولانا دین محمد وفائی 14 اپریل 1894ء بمطابق 27 رمضان 1311 ہجری کو سندھ کے ضلع شکارپور، گھڑی یاسین کے ایک چھوٹے سے گاؤں “کھٹھی”{ سندھی میں کتھی کہتے ہیں} میں پیدا ہوئے، جسے “نبی آباد” بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد کا نام خلیفہ حکیم گل محمد بھٹی تھا۔ وہ اپنے زمانے میں عالم اور شاعر تھے۔ مولانا دین محمد کا تعلق بھٹی قبیلے سے تھا۔ وفائی صاحب نےابتدئی تعلیم شروع میں اپنے والد سے حاصل اور جب ان کی عمر 9 سال کی تھی تو ان کے والد صاحب دنیا سے چلے گئے۔ پھر والد کے انتقال کے بعد انہوں نے مولوی میاں محمد علیم سے فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔
پھر عربی سیکھنے کے لیے گڑھی یٰسین کے مولانا محمد قاسم کے پاس گئے، پھر اوستہ بھلا الدین آباد میں مولانا خادم حسین سے مزید عربی سیکھنے کے لیے وہ ضلع لاڑکانہ میں سونو جتوئی آگئے مولانا غلام عمر کے پاس مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے شاگرد بنے۔ 1907 سے 1911 تک انہوں نے بڑی محنت سے عربی مکمل طور پر سیکھی اور منطق، عربی اور فارسی کی کتابوں کا یکسوئی اورگہرائی سے مطالعہ کیا۔ ۔ وہ بہت ذہین، فطین اور محنتی عالم اور ادیب تھے۔ جن کا انتقادی شعور بہت گہرا اور علمی نوعیت کا تھا۔ ۔
ان کی زندگی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ مولانا وفائی نے سادہ زندگی بسر کی ۔ اس نے کبھی عیش و عشرت کی خواہش نہیں کی۔ وفائی صاحب کا معاشرےایک عینی نظریہ تو تھاوہ ایک عملی دانشور بھی تھے۔ اور مختلف طبقوں میں مساوات کی بات کرتے تھے۔ مولانا صاحب نے ساری زندگی سیکھنے اور سکھانے میں گزاری۔ وہ فرصت کا زیادہ تر وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کرتے تھے۔ بہت سے لوگ جو علم حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے ان کی صحبت میں وقت گزارتے تھے۔ وہ ایک خاموش طبع انسان تھے اور زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن جب انہیں کوئی بات سمجھانا ہوتی تو زندگی سے بہت سی مثالیں، دوسرے مصنفین کے اقتباسات اور اپنے مشاہدات پیش کرتے۔ وہ اپنے شعبوں کے ماہر لوگوں سے سوال پوچھنے میں کبھی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ وہ علماء اور ادیبوں کو پسند کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے اور ان میں سے اکثر سے واقف تھے۔ وہ پوری مسلم دنیا کے علماء، محققین اور ادیبوں سے رابطے میں رہے۔ ان سے ان کی خط و کتابت بھی رہتی تھی۔
دین محمد وفائی نے دو شادیاں کی تھی اور تین یٹے تھے۔ مولانا دین محمد وفائی کے والد کا نام حکیم گل محمد بھٹی تھا جو حکیم میر مولوی میر محمد بھٹی ولد حکیم صالح محمد بھٹی کے فرزند تھے۔ ان کے بھائی خلیفہ میر محمد اور شفیع محمد تھے جو کم عمری میں انتقال کر گئے۔ فاطمہ ان کی اکلوتی بہن تھیں مولانا صاحب کے 3 بیٹے علی نواز وفائی، شفیع محمد وفائی اور مظفر حسین وفائی اور دو بیٹیاں زیب النساء اور سبحان خاتون تھیں۔ زیب النساء کا انتقال کم عمری میں ہوا۔ ان کے بیٹے علی نواز وفائی نے اپنا ادبی کام جاری رکھا۔ علی نواز وفائی کے 5 بیٹے تھے۔ آصف وفائی، اعجاز وفائی، سلیم وفائی، سنین وفائی اور عامر وفائی اور ایک صاحب زادی قرۃ العین ہیں۔
مولانا دین محمد وفائی صحافی ہونے کے علاوہ ایک نامور ادیب بھی تھے۔ تاریخ، سیاست، مذہب اور تصوف ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ انہوں نے ادبی میگزین ’’مہران‘‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1940 میں سندھ حکومت نے انہیں “مکمل سندھی ڈکشنری” کےمدیران کی کمیٹی کے رکن بھی نامزد ہوئے تھے۔۔
مولانا وفائی صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے دو نمایاں پہلو صحافت اور ادب تھے۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور صحافی 1916 میں کیا، جب وہ رانی پور میں تھے۔ وہاں حکیم محمد صادق رانی پوری کی نگرانی میں ماہنامہ صحیفہ قادریہ شروع کیا جو مختصر مدت شائع ہونے کے بعد بند ہوگیا۔
پھردو سال کے بعد وہ ڈوکری کے قریب تھلہ کے ایک مدرسہ میں قیام پذیر ہوئے، وہاں رہتے ہوئے ان کی ملاقات بڑے بڑے علماء سے ہوئی اور ان کا مطالعہ اور تحقیق جاری رہی۔ ۔ اس دوران انہوں نے عربی، فارسی اور مذہب کی بنیادی کتابیں قرات کی۔اور ان کتابوں کے حوالے اور اشارات کو اپنی نوٹ بک میں محفوظ کیا۔ یہ نوٹس اس کی اگلی تحقیق اور تحریروں میں بڑے مدگار ثابت ہوئے۔
دین محمد وفائی نے نے تھلہ سے ’’الکاشف‘‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ جاری کیا ۔ یہ جریدہ اپریل 1918ء میں چھپنا شروع ہوا اور اسے انجمن اسلام لاڑکانہ کی مالی معاونت سے شائع کیا جاتا تھا۔۔ جریدے ” الکاشف” میں ادب کے ساتھ تاریخ، فقہ اسلامی قانون اور صحت پر بہت سے مضامین شائع ہوئے۔ اس جریدے میں سوال جواب کا حاشیہ { کالم} بھی ہوتا تھا، مولانا وفائی مرحوم سوالات کے جوابات خود دیتے تھے۔ یہ رسالہ سندھ میں اپنی نوعیت کا پہلا رسالہ تھا اور طویل عرصے تک شائع ہوتا رہا ۔ یہ رسالہ اس وقت کا سندھ کا سب سے مقبول جریدہ تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد برصغیر کےمعاشرتی اور سیاسی حالات خراب ہوگئے تھے۔ انگریزوں نے چالاکی اور مکاری سے مقامی لوگوں کو آپس میں لڑانے کی منصوبہ بندی کی۔ ۔ ان نامساعد حالات میں مولانا وفائی صاحب نے تھلہ چھوڑ کر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور مولانا تاج محمود امروٹی کی مشاورت میں تحریک خلافت میں شمولیت اختیار کی۔ 1920ء میں لاڑکانہ میں آل انڈیا خلافت کانفرنس طلب کی گئی جس میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالباری اور مولانا شوکت علی نے بھی شرکت کی تھی۔
اس موقع پر مولانادین محمد وفائی صاحب نے مولانا تاج محمود امروٹی کی زیر نگرانی ’’اظہار الکرامات‘‘ شائع کیا جو اس کانفرنس میں بھی تقسیم کیا گیا۔ انہوں نے مارچ 1920 میں تحریک خلافت کی حمایت اور اس کے حامیوں کو آگاہ کرنے کے لیے کراچی میں ایک اخبار” الوحید” کی اشاعت کی ابتدا کی۔ ۔ وفائی صاحب کو اخبار کا معاون مدیر اور قاضی عبدالرحمن کو ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ اس اخبار نے سندھ کے مسلمانوں کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔اس اخبار نے تحریک خلافت کے نظریہ اور اس کے سیاسی افکار کو اجاگر کیا۔
طارق عزیز شیخ نے لکھا ہے ” دوران مولانا دین محمد نے تحریک پاکستان میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان کی علمی و تاریخی تقاریر نے تحریک کو بھرپور تقویت دی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے علمائے کرام، مذہبی و سیاسی رہنما تحریک میں شامل ہوتے گئے، تحریک شدت اختیار کرنے لگی اور انگریز حکمرانوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ چناچہ برصغیر پاک و ہند میں تمام تحریکوں کی طرح سندھ میں بھی خلافت کا زور توڑنے کے لئے انگریزوں نے اپنے پٹھوئوں کے ذریعے انتشار پھیلانا شروع کر دیا۔ اس کام میں بعض نام نہاد دینی رہنماں سے بھی تحریک کے خلاف فتوے حاصل کرکے خوب تشہیر کی جس سے اس تحریک کو بھرپور نقصان پہنچا۔مولانا دین محمد وفائی نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا، اس سے مقابلہ کرنے اور حکمت عملی تیار کرنے کے لئے وہ سکھر سے جاری ہونے والے اخبار”الحق” کے مالک شیخ عبد العزیز سے جا ملے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس وقت کے ایک اور نامور مذہبی عالم مولانا تاج محمد امروٹی بھی اس جہاد میں ان کے ساتھ مل گئے۔انگریزوں کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا جواب دینے کے لئے پہلا کتابچہ انہوں نے 1925ع میں لاڑکانہ میں منعقدہ خلافت کانفرنس کے موقعہ پر تقسیم کیا گیا جس میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبد الباری لکھنوی اور مولانا شوکت علی نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کے بعد مولانا دین محمد وفائی کو جمیعت علمائے اسلام سندھ کا ناظم مقرر کیا گیا تھا۔ وفائی صاحب آخری وقت تک اس عہدے پر خوش اسلوبی سے فائز رہے۔ انہوں نے اپنے دور میں جمیعت کو فعال کیا، نشر و اشاعت کی وجہ سے وہ کراچی میں قیام پذیر ہوگئے” { “مولانا دین محمد وفائی… سندھ کے وہ عالم جس نے قلم کی طاقت سے قوم کو بیدار کیا” ۔۔’نوائے وقت’ لاہور،15 اپریل2022 }
اخبار” اظہار الکرامات ” انگریز سامراج کے خلاف اپنی بیزاری کا اظہار ہی نہیں کرتا تھا۔ بلکہ اس اخبار مین حوکمت وقت کے خلاف سخت مضامین شائع ہوتے تھے ۔ لہذا سات مہینے یہ اخبات چھپنے کے بعد برطانوی حکومت نے اخبار بند کر دیا اور ایڈیٹر قاضی عبدالرحمن کو ایک سال کے لیے پابند سلاسل کردیا گیا۔
مولانا صاحب واپس تھلہ آگئے اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔ Montagu-Chemsford Reforms کے مطابق، “الوحید” کو دوبارہ جاری کیا گیا۔ مولانا صاحب اس وقت اخبار کے مدیر تھے۔
اخبار میں مصروف ہونے کے باوجود مولانا صاحب نے توحید کے نام سے ایک رسالہ باقاعدگی سے جاری کیا۔ انہوں نے یہ رسالہ 1923 میں شروع کیا، یہ رسالہ 1927 میں چھپ گیا اور 1932 میں دوبارہ گردش کرنے لگا اور مولاناوفائی کے سب سے چھوٹے بیٹے علی نواز وفائی نے ان کی وفات کے بعد شائع کیا۔
یہ رسالہ تاریخی اور ادبی مضامین اور مضامین کا مجموعہ تھا۔ میگزین کو ادب اور مذہب کی ایک باوقار اشاعت سمجھا جاتا تھا۔ اس رسالے نے سندھ کے لوگوں کی سیاسی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔
مولانا صاحب کے علاوہ “توحید” کی تدوین شیخ عبدالمجید سندھی نے کی ۔ مولانا دین محد وفاِ عبد المجید سندھی کے نظریات سے متاثر بھی تھے۔
پیر جیال شاہ شہید، جسے حزب اللہ شاہ راشدی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی نگرانی میں انہوں نے ایک اخبار الحزب جاری کیا۔ یہ سندھی زبان کا معزز اخبار تھا۔ یہ اخبار صرف سات ماہ کے لیے شائع ہوا اور پھر کچھ وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔
1943 میں مولانا صاحب نے اخبار الوحید سے استعفیٰ دے دیا، پھر کنٹرولر بورڈ بنا اور” آزاد” نامی دوسرے اخبار کے لیے کام شروع کیا۔
دین محمد وفائی نے اخبار سے منسلک ہوتے ہی اپنی بلندیوں کو چھو لیا اور ایک معتبر اور اہم اخبار شمار ہونے لگا۔ یہ سندھی زبان کا واحد اخبار تھا جس میں قومی فکر کی خبروں کے ساتھ ادبی مواد بھی شائع ہوتا تھا۔
سندھی ادب کی توثیق اور حوصلہ افزائی کے لیے مرکزی مشاورتی کمیٹی کی تجویز پر جنوری 1946 میں ایک دو ماہی رسالہ مہران جاری کیا گیا جس کے مدیر علامہ عمر بن محمد داؤد پوتہ تھے۔ ادارتی بورڈ میں عثمان علی انصاری، مولانا دین محمد وفائی، دیوان لال چند امردینو چغتانی اور ڈاکٹر ہرومل سدا رنگانی شامل تھے۔ یہ رسالہ جنوری 48ء میں شروع ہوا اور 49ء میں بند کر دیا گیا اور پھر 55ء میں سندھی ادبی بورڈ نے اسے دوبارہ شروع کیا اور اب بھی شائع ہو رہا ہے۔ مولانا صاحب نے مذکورہ اخبارات و رسائل کے علاوہ اور بھی بے شمار رسائل اور اخبارات کے لیے لکھا۔ ان کی تحریریں آج بھی پڑھنے کے لائق ہیں اور آج بھی اپنی مطابقت کھو نہیں پائی ہیں۔
مولانا وفائی صاحب صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور ادیب بھی تھے۔ تاریخ، سیاست، مذہب اور تصوف ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔
وہ تاریخ کے ماہر تھے، اس قدر کہ دوسرے علماء نے انہیں “سندھ کا متحرک انسائیکلوپیڈیا” اور “سندھی تاریخ کا امام” کہنا شروع کر دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وفائی مرحوم کا قاموسی علم بہت زیادہ تھا۔وہ دینا کے مخلتو تمدن، سیاست، اور تاریخ کو بہت جانتے تھے۔
سندھی تاریخ ان کی ان کا محبوب میدان اور دلچسپی تھی۔ انہوں نے ممتاز شخصیات، علماء کرام اور اولیاء کرام کے کارنامے اور سوانح عمری کو یاد کیا۔ وہ سندھ کی تاریخی یادگاروں کے بارے میں بھی آگاہی رکھتے تھے اور مختلف واقعات و واقعات کے بارے میں صحیح ترتیب سے بتاتے تھے۔ان کی یہ تحقیق کا یہ کمال تھا کی ان کءے تاریںی بیانہ منتشر نہیں تھا۔ وہ تاریخ کو ترتیب کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ سندھ کی عظمت‘‘ (عظمت سندھ) مولانا کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہیں سندھ کے قدیم کھنڈرات اور تاریخی مقامات میں دلچسپی تھی اور انھیں سندھی زبان، ادب اورقواعد{ گرامر} کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ جو سندھی لسانیات کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ تھا۔ جسے سندھ کی لسانیات اور ادب کی تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ انہوں نے سندھی، فارسی اور عربی میں بہت سی کتابیں لکھیں۔
دین محمد وفائی صاحب کی وفات 10 اپریل 1950 کو سکھر میں ہوئی۔ ۔ انہیں سکھر کے وریا جو تارڑ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
::: ختم کلام :::
کراچی میں راقم السطور اپنے بچپن میں اپنے نانا کے ساتھ سندھی مسلم سوسائٹی { مولانا رومی مسجد کے قریب} اکثر دین محمد وفائی صاحب کے گھر جایا کرتا تھا جہاں ان کے کے بیٹے علی محمد وفائی قیام پذیر تھے۔ میں اکثر ان کی باتیں سنتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک سندھی صحافی ستائی صاحب ہوا کرتے تھے۔ جووفائی کے اخبار “الوحید ” میں کام کیا کرتے تھے۔ وہ بھی وفائی صاحب کے متعلق دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے۔اور انھوں نے بعد مین ایک اخبار ” نوائے سندھ” جاری کیا تھا ۔ ستائی صاحب پہلے پاکستان چوک ، میں بھولو اکھاڑے کی قریب عیسی جی ابرہیم جی بلڈنگ میں رہتے تھے پھر بعد میں وہ دین محمد وفائی کے پڑوس میں سندھی مسلم سوسائٹی منتقل ہوگئے تھے۔ستائی صاحب کا ایک بیٹا انور ہوتا تھا اورستائی صاحب زادی زبیدہ میری بہن کی سہیلی تھی۔
دین محمد ففائی نے متعدد جرائد اور مقالوں میں باقاعدگی سے مضامین لکھے۔ ان میں انہوں نے عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے سندھ کی جاگیردارانہ اور مذہبی اشرافیہ کے کردار کا جائزہ لیا۔ اس نے توحید اور کئی دوسرے رسالے بھی شروع کیے۔
ان کے ہم عصروں نے انہیں سندھ پر ایک حقیقی انسائیکلوپیڈیا سمجھا۔ علاقائی اور مسلم تاریخ، تصوف، سیاست اور عمرانیات ان کے شعبوں میں شامل تھے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری اور شاہ ولی اللہ کی قیادت میں مذہبی اصلاح پر ان کی تخلیقات ان کی علمی قابلیت کے لیے مشہور ہیں۔ مولانا وفائی جیسے روشن خیالوں کی تخلیقات پر نظر ثانی کی جانی چاہیے کیونکہ ان کی بہت سی تحریریں مزید تحقیق کے لیے جہتیں پیش کرتی ہیں۔ دین محمد وفائی مرحوم نے ساٹھ سےزائد کتابیں لکھی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...