ارتقاء کا مطلب صرف “انسانی ارتقاء ” نہیں، بلکہ اس دنیا میں ہر زندہ جاندار ہر وقت اور ہمہ دم اپنے اندر ارتقائی تبدیلیوں کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور لاکھوں سال کے عرصے میں انہی تبدیلیوں کے تحت اپنے ماحول سے مطابقت بھی حاصل کرتی ہیں جس سے ان کی بقاء ممکن ہوتی ہے ، ساتھ ساتھ کچھ وقت کے بعد بہت ساری تبدیلیوں کے تحت نئی انواع میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے ایک خطے بنوں ، کے پی میں ایک طبقے کے جبر کے تحت ارتقاء (خصوصا انسانی ارتقاء) کو اسکول و کالجز میں طالبعلموں کو پڑھانے پر پابندی عائد کردی گئی اور اسکو پڑھانے والے ایک پروفیسر صاحب کو زبردستی ایک بیان حلفی دینے پر مجبور کیا گیا جس میں دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ انکو ارتقاء اور دیگر سائنسی افکار و نظریات کے پڑھانے پر بھی پاپندی عائدکی تھی۔
لیکن پابندی عائد کرنے والوں کے لیے یہ بات ہے کہ کیا اسطرح کی پابندیوں کے دائرہ کار میں لاکر کیا ہم ارتقاء کی تھیوری کو جھٹلا سکتے ہیں؟ اسکا رد کرسکتے ہیں؟ میرا نہیں خیال ایسا کبھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک زندہ جاندار کا جسم ہی اس بات کا بین ثبوت بن جاتا ہے جس سے ان جانداروں میں ارتقاء ہونے اور ایک نوع سے دوسری علیحدہ نوع تشکیل پانے کے ناقابل تردید شواہد مل جاتے ہیں۔ اسطرح ہم لاکھ ارتقاء پڑھانے پر پابندی لگائیں لیکن ہمارے اجسام ہی گواہی دیتے ہیں کہ جانداروں میں ارتقاء ہوتی ہے اور مسلسل جاری رہتی ہے۔ 2018 میں ایسے ہی ایک تحقیقی مطالعے اور جینیاتی شواہد کی بنیاد پر یہ طے کیا گیا کہ حشرات کی دنیا کے دو نہایت ممتاز اور بڑے گروہ ، یعنی کاکروچز اور دیمک دراصل ایک ہی خاندان کی دو مختلف انواع میں شمار ہوتے ہیں۔
دیمک اب سرکاری طور پر کاکروچز ہیں۔ یعنی دیمک Termites جوایک لکڑی کھانے والے حشرات ہیں، انکو کاکروچ یعنی لال بیگ کی کیٹگرری میں رکھا جائے گا۔ اسکو امریکہ کی اینٹومولوجیکل سوسائٹی نے کئی دہائیوں کے جینیاتی شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے اصطلاحات کو اسی ترتیب میں جوڑا ہے جیسا کہ کاکروچ ہیں اور اسی فیملی میں رکھا ہے۔۔ حالانکہ دونوں حشرات کو اکٹھا کرنا عجیب سا لگتا ہے، لیکن یہ ایک ایسا اقدام ہے جس پر سائنسدان تقریباً ایک صدی سے غور کر رہے تھے۔ ارتقاء کا مطلب صرف “انسانی ارتقاء” ہی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اس دنیا میں پائے جانے والی تقریبا 87 لاکھ انواع میں پائے جانے والا ارتقاء اسی میکانزم و ترتیب سے پایا جاتا ہے جیسا ہم اسکو سائنسی طریقے سے سمجھتے اور مانتے ہیں۔ اس زمین پر پائی جانے والی تمام حیات ، چاہے وہ موجودہ ہو یا پھر معدوم شدہ، ارتقاء ان سب سے پایا جاتا تھا اور پایا جاتا ہے۔
بظاہر طور پر، دیمک اور کاکروچ کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں لگتا۔ کاکروچ ایک ایسی تنہا مخلوق ہیں جو ضائع شدہ خوراک کے ڈبوں، کچرے کی ڈسٹ بن اور کونوں کھدروں کے نیچے چھپنا پسند کرتے ہیں، اور وہیں اپنی غذا وغیرہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ انسانوں سے انکا انٹریکشن کم اور محدود ہوتا ہے۔ جبکہ دیمک ایک ٹیم ورک کے طور پر مٹی کے ٹیلے بنانے اور ہمارے گھروں کی لکٹری کو تباہ کرنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں، کیونکہ لکڑی اور اس بنی چیزیں دیمکوں کی پسندیدہ خوراک ہے۔ اس کے علاوہ، وہ یعنی کاکروچ اور دیمک کچھ بھی ایک جیسے نہیں لگتے ہیں. مزید برآں، دیمک کو اصل میں یوروپی لوگ پہلے”سفید چیونٹی” کہتے تھے، اور یہ نام چیونٹیوں سے ان کی نمایاں مماثلت کی وجہ سے پھنس گیا، جو کہ مشابہہ اور متضاد ارتقاء convergent evolution کا نتیجہ ہے (حالانکہ چیونٹی اور دیمک آپس میں ایک غیر متعلق حشرات میں سےہے)۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کاکروچ اور دیمک ایک مشترک آباؤ اجداد کا اشتراک کرتے ہیں — جو کچھ جینیاتی ماہرین نے 2007 میں ثابت کیا تھا۔ ان کے مالیکیولر تجزیے سے ثابت ہوا کہ دیمک بنیادی طور پر سماجی کاکروچ ہیں۔(کاکروچ + دیمک) کا سب سے حالیہ عام مشترک اجداد پرمیئن عہد Permian epoch (~275 ملین سال لگ بھگ) سے تعلق رکھتا ہے، جو کاکروچ کی ڈیوونین ماخذکے مفروضے سے متصادم ہے۔ اسٹیم ٹرمائٹس کی تاریخ ٹرائیسک/جراسک باؤنڈری پر رکھی ہوئی ہے، جو انکے ٹرائیسک ماخذ سے ہونےکی تردید کرتی ہے۔یعنی آج سے قریبا 275 ملین سال قبل دیمک اور کاکروچ کے اجداد ایک مشترکہ اجداد مانے جاتے تھے، پھر وہاں سے انکی راہیں ارتقاء کے سبب الگ الگ ہونا شروع ہوئی تھیں۔
فلوریڈا یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات تھامس چووینک Thomas Chouvenc نے اپنے ایک تحقیقی آرٹیکل میں بتایا کہ “دیمک ایک سماجی حشرات سے کاکروچز ہیں ، جنکو انگلش میں eusocial کہا جاتا ہے۔ “eusocial” کے ذریعے، وہ ان کیڑوں کا حوالہ دے رہے ہیں جو سماجی تنظیم کی اعلیٰ سطح کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے چیونٹی اور شہد کی مکھی وغیرہ۔ یعنی یہ حشرات اپنا تمام کام مل جل کر کرتے ہیں اور ایک کالونی بناکر رہتے ہیں، جہاں ہر ایک انفرادی فرد کو تھوڑی الگ الگ ذمہ داری دی جاتی ہے۔ جیسا دوسرے ہائی آرڈر جانوروں میں دیکھا جاتا ہے۔
نارتھ کیرولینا اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ سے تعلق رکھنے والے کوبی شال Coby Schal نے اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بلیٹوڈیا Blattodea (حشرات کی ایک فیملی )میں کاکروچ اور دیمک دونوں شامل ہونے چاہئیں۔ “دونوں کے آباؤ اجداد گٹ سمبیونٹس (فلیجیلیٹسflagellates)، دیمک کی نفمس nymphs[یعنی یعنی دیمک کے بچے] کاقدیم کاکروچ نمفس سے شکلی مماثلت رکھتے ہیں، اور دونوں حشرات کے بچے لکڑی کھاتے ہیں،” اس نے اپنے آرٹیکل میں بتایا۔ “لیکن سب سے زبردست ثبوت ڈی این اے کی ترتیب سے ہے – دیمک اور کاکروچ اپنے جین کی ترتیب میں بہت زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔”
لیکن پھر بھی دیمکوں اور کاکروچز کو ایک ہی فیملی میں ڈالنے کے باوجود ،عام استعمال کے لیے دیمک ،دیمک ہی رہے گا، اسکو ہم کاکروچ جیسا نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن خالصتا حیاتیاتی نقطہ نظر سے، ان کا کہنا ہے کہ یہ کہنا مناسب ہے کہ دیمک “لکڑی کو بطور کھانا کھانےوالے سماجی روچز” ہیں، لیکن اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کافی بڑی بات مانی جائے گی۔
ریفرنس
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...