دیدبان کے اگلے شمارے کا موضوع :—–
مزاحمتی ادب
ایک ایسے وقت میں جب د نیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور بنیادی آزادی محدود ہورہی ہے ، انسانی حقوق کو حاصل آئینی تحفظ کا نظام کمزور ہو رہاہے اور جمہوری عمل پہلے سے کہیں زیادہ تنگ نظر اور بنیاد پرست مذہبی و قومی جماعتوں کے دباو کاشکار ہورہاہے .
۔عسکری ادارے اور شدت پسند غیر ریاستی عناصر خوف زدہ کرنے اور خاموش کرانے کی حکمت عملی پر اپنے اپنے طور پر عمل پیرا ہیں. اور سیاسی جماعتوں اور جمہوری قوتوں کو بری طرح پسپا کر رہے ہیں ایسے وقت میں مزاحمتی ادب کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔یہ وقت انسانی حقوق کے لئے پرامن اور مسلسل جدوجہد جاری رکھنے کا ہے،یہ وقت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی ہمہ قسم کی خلاف ورزیاں خواہ وہ کسی بھی رنگ، نسل، صنف یا قومیت کے افراد کے خلاف ہوں ،ان پر آواز اٹھانے کا ہے،
یہ وقت انسانی حقوق کے عالمی منشور کے تحت سب افراد کا بلا تفریق مساوی حیثیت دلانے کے لئے کوشش کرنے کا ہے۔مقامی اور عالمی جدوجہدیااحتجاج کی یہ آواز جلد یا بدیرمذہبی شدت پسندی، نسل پرستی اور قومیت پرستی کے خلاف ایک بہتر مستقبل تعمیر کرے گی۔ ہماری ادبی یا لسانی تاریخ آمریت، معاشی استحصال اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف جدوجہد کی تاریخ ہے ۔
اپنے مضمون میں نعیم بیگ صاحب کہتے ہیں کہ…” ادب میں مزاحمتی اصطلاح کے طور پر ’ ادب المقاومہ‘ کی تاریخی اصطلاح اس وقت رائج ہوئی ، جب 1966 میں فلسطینی ادیب و نقاد غسان کنفانی نے ” فلسطین میں مزاحمتی ادب ۶۶۔۸۴۹۱ “کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ غسان نے یہ مضمون ١٩٦٧ کی جنگ سے پہلے لکھا جس میں فلسطینی مجاہدین اور اسرائیل کے کنفلکٹ کو نہ صرف نمایاں عالمی ادب کا حصہ بنایا بلکہ ہم عصر تحاریک جو اس وقت آزادی کی جدو جہد میں لاطینی امریکہ ، مشرقِ بعید اور افریقہ میں جاری تھیں کے ساتھ لا کھڑا کیا۔ اس مقالے میں مغربی استعماریت کے خلاف ایک پوری تاریخ درج ہونے کے ساتھ ہی مزاحمتی ادب کا کردار، اس کے بنیادی عناصر اور وسیع تر مابعد نو آبادیاتی رحجانات، تفاوت کو زیرِ بحث لایا گیا۔ غسان نے ایک کام اور کیا کہ انہوں نے علامتی ابلاغیات ( سیمیوٹک) سے ہٹ کر مزاحمت کے وسیع تر معنیاتی نظام کو بھی تشکیل دینے کی صراحت کی۔ مزاحمتی متون کی تثلیث کاری ’ سیاق، تناظر و ثقافت‘ کو یک جا کرتے ہوئے اسے تجارب کی دنیا سے نکال کر ایک حقیقت کا روپ دینے کی بے مثال کوشش کی جو بعدازاں مزاحمتی محرکات کی متصورہ صورت متعین کرنے مدومعاون ثابت ہوئی۔"
درج کرو !
میں عرب ہوں
میرا شناختی کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے
میرے آٹھ بچے ہیں
اور نواں بچہ موسمِ گرما کے بعد دنیا میں آ جائے گا
پس کیا تم غصہ کرو گے؟
درج کرو !
میں عرب ہوں
اور یارانِ محنت کش کے ہمراہ پتھر کی کان میں کام کرتا ہوں
میرے آٹھ بچے ہیں
میں ان کے لیے
نان اور ملبوسات اور کاپیاں
پتھروں سے باہر نکالتا ہوں ۔۔۔
محمود درویش
مضاحمتی ادب کا اسلوب انکار اور احتجاجی قوتوں کا سرچشمہ ہے: پروفیسر انیس اشفاق کا خیال ہے کہ" اردو ادب اپنی فکر ،مزاج و منہاج اور مزاحمتی اسلوب بیان میں مرثیوں سے قوت نمو حاصل کرتا ہے۔" سر، نیزہ اور انکار مرثیے کے کلیدی لفظیات ہیں اور یہ بطور علامت ہماری شاعری کی اساس ہیں۔ کربلا آج بھی برپا ہے۔ وہی حق و باطل کی کشمکش جاری ہے۔ اور اس حوالے سے مرثیے کی مضامحتی آواز عصری معنویت سے لبریز ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی کا خیال ہے کہ ”دنیا کہ تمام بڑی شاعری مزاحمت کی پیداوار ہے اور اس حوالے سے دنیا کا مزاحمتی ادب بھی یقیناًبڑا ادب ہے۔ دنیا میں مزاحمتی ادب کا قدیم ،ضخیم اور عظیم سرمایہ ہونے کے باوجوداس پر تحقیق و تنقید بہت کم ہوسکی ہے۔
دیدبان کا اگلا شمارہ مزاحمتی ادب نمبر ہوگا۔ دوستوں سے گزارش ہے اپنی تخلیقات فروری ماہ تک ہمیں دیدبان کی ای میل آئی ڈی پر روانہ پکریں۔آپ کی رہنمائی کے لئے ذیل میں موضوعات کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔
الف۔مضامین
۱۔مزاحمتی ادب کا اسلوب اور آھنگ
۲۔ مزاحمتی ادب کا ترجمہ،فکری تصادم اور لسانی اظہار
۳۔مزاحمتی ادب میں فکری اور فنی بصیرت
۴۔تیسری دنیا کا مزاحمتی ادب
ب۔تخلیقات
۱۔افسانوی تخلیقات
۲۔شعری تخلیقات
۳۔افسانوی اور شعری تخلیقات کے ترجمے
( فلسطین کے ادب پر خاص توجہ کی درخواست کے ساتھ )
[email protected]
مدیران :
نسترن احسن فتیحی ، سلمی جیلانی ، سبین علی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“