سولہ دسمبر آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ کم ہی ہیں یہاں جو ان زخموں کو دیکھ سکیں۔ ہوا چلتی ہے تو خون رسنے لگتا ہے۔ کبھی نہ بھرنے والے زخموں سے کسک اٹھتی ہے، کسک جو اندر تک درد کی لہر ابھار دیتی ہے۔
اُنیس کا سن تھا جب میں سبزہ و گل کے اس شہر میں اترا جس کے بارے میں جعفر طاہر نے کہا تھا ع
ڈھکنی سے اک شہر ڈھکا اور ڈھاکہ جس کا نام
1967ء کا اکتوبر تھا۔ میں مرکزی حکومت پاکستان کے بین الصوبائی فیلوشپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے لیے منتخب ہوا تھا۔ وہی ڈھاکہ یونیورسٹی جو بیس کی دہائی میں کلکتہ یونیورسٹی کے جواب میں بنی تو ہندو اسے طنز سے مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ جس کے اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر، کامرس، اکنامکس اور انگریزی ادب کے شعبے دنیا بھر میں معروف تھے۔ وہی ڈھاکہ یونیورسٹی جہاں مولوی تمیز الدین خان کی صاحبزادی پڑھاتی تھیں۔ وہی یونیورسٹی جہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں نے ’’چھ نکات‘‘ پیش کیے تھے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے اتحاد کی واحد صورت تھی اور آخری صورت تھی۔ آخری اور واحد صورت… جو کم فہموں اور خود غرضوں کی ہاہاکار میں گم ہو گئی۔ بغیر جانے اور بغیر پڑھے جن ’’بزر جمہروں‘‘ اور ’’دانائوں‘‘ نے ان نکات کی مذمت کی، ان سے اب کون پوچھے کہ جو کچھ ہوا، کیا چھ نکات، اس سے بھی بدتر تھے؟ ؎
کھویا ہے اُسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے ، لاکھ پکارو
پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارے ہوئے شب و روز نخیل زندگی کے بہترین برگ و بار لگتے ہیں۔ کیا شہر تھا اور کیا لوگ تھے۔ کیا رونقیں تھیں اور کیا ہماہمی تھی۔ یونیورسٹی کی لائبریری رات دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ ہڑتالیں، جلسے جلوس اور ہنگامے بھی تھے لیکن جنہیں دُھن تھی وہ مطالعہ، تحقیق اور تصنیف و تالیف میں ہر وقت مگن رہتے تھے۔ بہت سے مشاہیر زندگی میں پہلی بار وہیں دیکھے، حکیم سعید، سید ابو الاعلیٰ مودودی، طارق علی، مولوی فرید احمد، مولانا
عبدالستار نیازی اور بہت سے دوسرے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کو ہم طالب علم خواجہ خیر الدین کی حویلی میں ملنے گئے تو ڈھاکہ کا مشہور عالم پنیر پہلی بار وہیں کھایا۔
شامیں بیت المکرم کے سائے میں گزرتی تھیں تو دوپہریں بو ُری گنگا کے پانیوں میں سفینہ راں ہوتی تھیں۔ میمن سنگھ کے گھنے جنگل دیکھے، حدِّنظر تک پھیلی ہوئی جھیلوں پر کنول کے پھول تیر رہے ہوتے تھے۔ سلہٹ میں جلال بابا کے مزار پر حاضری دی، چائے کے باغات کی سیر کی، وہ پہاڑ دیکھے جو سرحد کے پار بھارت میں واقع تھے۔ رانگامتی اور کپتائی کے پانیوں کی سیر کی۔ زرد کپڑوں میں ملبوس بھکشو دیکھے۔ چکمہ قبیلے سے ملے۔ راجہ تری دیو رائے کا محل دیکھا۔ چٹاگانگ سے آگے کاکسِس بازار میں برما کی سرحد پر آباد قبیلوں کو دیکھا۔ نسوانی پیکروں میں آسمانوں کا حسن اُتر آیا تھا۔ بپھرے ہوئے میگنا کے دریا کو کئی بار فیری کے ذریعے پار کیا۔ کیا نعمتیں تھیں جو قدرت نے اُس سرزمین کو عطا کی تھیں، انناس، آم، کھجور، املی، کٹھل، شریفہ اور ناریل۔ اُس زمانے میں مغربی پاکستان میں لیچی اور چیکو کا وجود ہی نہ تھا اور کیلا برائے نام تھا۔ پان اور چائے سمیت سب کچھ وہیں سے آتا تھا۔ ابھی پلاسٹک یا تو ایجاد نہ ہوئی تھی یا عام نہیں تھی اور پٹ سن کے خزانے مشرقی پاکستان میں تھے۔
وہاں سُندربن کا جنگل تھا اور باری سال کے دریا، اینٹوں کے بنے ہوئے پختہ تالاب تھے جن کے چاروں طرف سیڑھیاں اترتی تھیں اور اردگرد آم، جامن اور املی کے پیڑوں کے حصار تھے جہاں بلبلیں چہکتی تھیں اور کوئلیں کوکتی تھیں۔ حدِّنگاہ تک ہریالیاں تھیں اور رنگ رنگ کے پھول۔ بنگالی دوست بے پناہ محبت سے عید پر اپنے گھروں میں لے کر جاتے تھے۔ کبھی کوئی ٹرین میں بٹھا کر کومیلا لے جا رہا ہے اور کبھی بس میں بیٹھے شیرپور جا رہے ہیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہوسٹل کو ہال کہتے تھے اور ہال تقریباً درجن بھر تھے۔ محسن ہال، جناح ہال، فضل الحق ہال، رقیہ ہال، جگن ناتھ ہال۔ ہر ہال میں مسجد تھی اور نمازِ باجماعت اور نمازِ جمعہ کا انتظام اور اہتمام تھا۔ ہر روز شام کو نیو مارکیٹ کا چکر لگتا تھا۔ سبز ناریل کا پانی ہر روز پیتے تھے جسے ڈاب کہا جاتا تھا۔ بہت سی چیزیں وہاں پہلی بار دیکھیں اور بہت سی چیزوں پر تعجب ہوا کہ مغربی پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا۔ لائبریری کے چوبیس گھنٹے کھلے رہنے کا تذکرہ تو ہو چکا،امتحان کا پرچہ وہاں تین گھنٹے کا نہیں، چار گھنٹے کا ہوتا تھا۔ رمضان بھر تعلیمی اداروں میں تعطیل ہوتی تھی۔ یہاں کی یونیورسٹیوں میں طالب علم تھری پیس سوٹوں میں ملبوس آتے تھے۔ وہاں دیکھا کہ طلبہ کی اکثریت کرتے پاجامے اور چپل میں ہوتی تھی۔ پروفیسر بھی سادگی کا نمونہ تھے لیکن اپنے فرائض ادا کرنے میں انتہا درجے کے دیانت دار اور سخت محنت کرنے والے۔ پروفیسر سی۔ جی۔ دیو جو ہندو تھے اور شعبہ فلسفہ کے سربراہ تھے، اقبالیات کے ماہر تھے اور علامہ کے بے حد گرویدہ، تقریبات میں اقبالؔ اور اقبالیات پر اُن کی تقریریں سننے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آرمی ایکشن ہوا تو وہ بھی بہت سے دوسرے دانشوروں کے ساتھ اُس کی نذر ہو گئے۔ دستک ہوئی، باہر نکلے، گولی مار دی گئی۔
ایوب خان نے کٹھ پتلی عبدالمنعم خان کو، جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہ تھا، مشرقی پاکستان کی گورنری کے لیے منتخب کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُس کے متعلق کئی لطیفے زبان زدِ خاص و عام تھے۔ مثلاً وہ چین گیا اور مائوزے تنگ سے ملاقات ہوئی تو اُس سے پوچھا کہ ہمارے ہاں بائیں بازو والے دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک روس نواز اور دوسرا چین نواز، آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے؟ ایک اور لطیفہ یہ مشہور تھا کہ ایوب خان ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اُترا تو عبدالمنعم خان نے استقبال کیا۔ بغل گیر ہوتے ہوئے ایوب خان کو محسوس ہوا کہ منعم خان نے اپنے لباس کے نیچے کچھ چھپایا ہوا ہے۔ خطرے کا احساس کرتے ہوئے اُس نے حکم دیا کہ اس کی تلاشی لی جائے۔ تلاشی لی گئی تو سینے کے ساتھ ایوب خان کی تصنیف ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ بندھی ہوئی ملی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک سانحہ تھا۔ بہت بڑا سانحہ لیکن اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اکتالیس سال ہو گئے ہیں۔ آج تک یہی طے نہیں ہو رہا ہے کہ کس کی کیا غلطی تھی۔ ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنا تو شاید سیکھا ہی نہیں۔ ’’سازش‘‘ کا سر ُمہ پوری طرح ہماری بینائی کو زائل کر چکا ہے۔ اپنی کسی غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے ہم ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی اور دھوکا ہوا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مومن تو دھوکا کھاتا ہی نہیں! ہم اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے آئے ہیں کہ انگریزوں نے مکاری اور دھوکے سے برِّصغیر پر قبضہ کیا۔ وہی بچے جب برطانیہ اور امریکہ جا کر اپنا اور اُن کا فرق دیکھتے ہیں تو اُن کی آنکھیں کھلتی ہیں اور ’’مکاری اور دھوکے‘‘ والی تھیوری پر ہنستے ہیں۔ مکاری سے آپ ایک دو علاقوں پر قبضہ کر سکتے ہیں اور پھر وہ قبضہ کچھ عرصہ ہی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن درجنوں ریاستوں، بیسیوں حکومتوں اور برِّصغیر جیسے وسیع و عریض علاقے پر یعنی برما سے لے کر پشاور تک اور سری لنکا سے لے کر نیپال اور تبت تک۔ مکاری سے قبضہ کیا جا سکتا ہے نہ سینکڑوں سال تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو یہ سچائی بتانے کے لیے تیار نہیں کہ کلائیو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر ہوتا تھا اور ہمارے نواب اور راجے مہاراجے پالکیوں میں سوار ہو کر میدانِ جنگ میں آتے تھے اور بیگمات ساتھ
ہوتی تھیں۔ ہمارے ہاں موتیوں سے منہ بھرنے اور سونے میں تولنے کا رواج تھا جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک ایک پیسہ کمپٹرولر جنرل اور مالیات کے افسران سے پوچھ کر خرچ کیا جاتا تھا۔ چالیس سال سے ہم یہ پڑھ اور پڑھا رہے ہیں کہ بھارت نے حملہ کرکے مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا۔ ہم شدید کوتاہ نظری کا شکار ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت صرف اُسی صورت میں کامیاب ہوتی ہے جب گھر کی دیواریں کمزور ہوں اور عوام کو حکومت پر اعتماد نہ ہو۔ پاکستان کی جنگ تو لڑی ہی مشرقی محاذ پر گئی تھی۔ کیا یہ بات زبان زدِ خاص و عام نہ تھی کہ :
BATTLE OF PAKISTAN WAS FOUGHT AND WON ON EASTERN FRONT.
مشرقی پاکستان میں تو تحریک پاکستان کی مخالفت ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہاں احراری تھے نہ خاکسار، جماعت اسلامی تھی نہ یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈی جاگیردار! تو پھر مشرقی پاکستانی عوام کیا موم کی ناک تھے یا احمق تھے کہ اچانک، بغیر کسی سبب کے بھارت کی مداخلت کا شکار ہو گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں ہندو تھے اور وہ پاکستان کی وحدت کے خلاف کام کرتے رہے۔ ہندو تو وہاں اُس وقت بھی تھے جب تحریکِ پاکستان مشرقی بنگال کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی تھی اور سلہٹ سے لے کر خلیج بنگال تک اور برما کی سرحد سے لے کر کلکتہ کے مشرق تک پاکستان کے نعرے لگ رہے تھے۔ یہ ہندو اُس وقت بھی وہاں موجود تھے جب لاکھوں مہاجرین کو مشرقی پاکستان کے عوام نے خوش آمدید کہا اور پوسٹل اور ریلوے جیسے پورے پورے محکمے مہاجرین سے بھر دیے۔ اصل میں ہمارا روّیہ اُن ناخواندہ اور بے وقوف والدین کا سا ہے جو امتحان میں بچے کی ناکامی کا الزام سکول اور اساتذہ پر ڈال دیتے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے کیا عوامل تھے؟ ہم نے کہاں کہاں ٹھوکر کھائی اور کہاں کہاں اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری، اس کا جائزہ ہم کل والی نشست میں پیش کریں گے۔