۱۱ ۔ ' ڈیتھ ماسک ' ( Desu masuku, 1932 )
( Death Mask)
کاواباتا یاسوناری ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
وہ نہیں جانتا تھا کہ خود کو چھوڑ کر، اس کے اور کتنے عاشق تھے ۔ بہر طور اب ایسا تھا کہ وہ اس کا آخری عاشق ثابت ہو گا کیونکہ وہ مر رہی تھی ۔
” اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ میں اتنی جلدی مر جاﺅں گی ، تو شاید یہی بہتر ہوتا کہ میں بہت پہلے ہی ماری جاتی ۔ “ وہ خوش دلی سے مسکرائی ۔ ابھی بھی جبکہ اس نے اسے تھام رکھا تھا ، اس کی آنکھوں سے لگتا تھا جیسے وہ اپنے پہلے والے بہت سے عاشقوں کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
اس وقت بھی جب وہ اپنی زندگی کے انت پر کھڑی تھی ، تب بھی وہ اپنے حسن کو نہ بھولی تھی اور نہ ہی اپنی بےشمار محبتوں کو بھول پائی تھی ۔
” سب مرد مجھے قتل کر دینا چاہتے تھے گو انہوں نے مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہا تھا لیکن دل میں وہ ایسا ہی سوچتے تھے ۔ “
اس آدمی نے ، جس نے اسے اپنے بازوﺅں میں لے رکھا تھا کہ وہ مر رہی تھی ، ایسی کوئی عجلت نہ دکھائی کہ کوئی اور اسے ، اس سے چھین کر لے جائے گا ، لہذٰا وہ اس لحاظ سے ، پہلوں ، جنہیں اسے اپنا بنائے رکھنے کے لئے سوائے اسے مار دینے کے اور کوئی راستہ نہ سوجھتا تھا ، کے مقابلے میں خوش قسمت تھا ۔ بلکہ وہ تو اسے تھامے تھامے ہی تھک گیا تھا ۔ عورت نے ہمیشہ شدید محبتوں کا پیچھا کیا تھا ۔ بیمار پڑنے پر بھی وہ اس وقت تک اطمینان سے سو نہیں پاتی تھی جب تک وہ اپنی گردن کے گرد کسی مرد کے بازوﺅں کا ہالہ یا اپنی چھاتیوں پر اس کے ہاتھوں کو محسوس نہ کر پائے ۔
اس کی حالت بتدریج بگڑتی چلی گئی ۔
” میرے پیروں کو تھامو ۔ مجھے اپنے پیر اتنے تنہا سے لگ رہے ہیں کہ میں یہ برداشت نہیں کر پا رہی ۔ “
اس کے پاﺅں واقعی الگ سے لگ رہے تھے جیسے موت اس کے پیروں کی انگلیوں سے اوپر کی طرف رینگ رہی ہو ۔ وہ اس کے بستر کی پائنتی پر جا بیٹھا اور اس کے پیروں کو اپنے پاتھوں کی مضبوط گرفت میں لے لیا ۔ وہ موت کی طرح سرد تھے ۔ پھر اچانک اس کے ہاتھ عجیب طریقے سے کانپ گئے ۔ وہ اس منچلی عورت کوپوری طرح اس کے ننھے پیروں سے محسوس کر سکتا تھا ۔ ان چھوٹے ، سرد پیروں سے بھی آدمی کے ہتھیلیوں میں اسی لطف کا احساس منتقل ہوا جیسا اسے اس وقت محسوس ہوتا تھا جب وہ اس کے پیروں کے گرم اور پسینے سے نمناک تلوئوں کو ہاتھ لگاتا تھا ۔ اسے اپنے اس احساس پر شرمندگی ہوئی جس نے اس کی موت کے تقدس کو میلا کر دیا تھا ۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ پیروں کو تھامنے کی اس کی درخواست توجہ و محبت پانے کی ایک آخری چال نہ ہو ؟ اسے ، اس کی بدقسمت نسوانیت سے خوف آنے لگا ۔
” تم شاید یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری محبت میں کسی شے کی کمی ہے کیونکہ اس میں کسی طرح کے حسد کی ضرورت ہی نہیں پڑی لیکن جب میں مر جاﺅں گی تو حسد کا یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا ۔ یقینا کہیں نہ کہیں سے ۔ '' ، اس نے کہا اور سانس چھوڑ دئیے ۔
اور ایسا ہی ہوا ، جیسا اس نے کہا تھا ۔
صبح ہونے پر نئے تھیئٹر کا ایک اداکار آیا اور اس نے مردہ عورت کے چہرے کو’ میک اپ‘ سے ایسے سجا دیا جیسے وہ اسے پھر سے جِلا دینا چاہتا ہو، اس کی خوبصورتی کو ایک بار پھر ویسا ہی منچلا بنانا چاہتا ہو جیسی اس عورت کے پاس اس وقت تھی جب وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے ۔
پھر ایک فنکار آیا ، اس نے عورت کے منہ پر ’ پلاسٹر ‘ بکھیر دیا ۔ اس سے پہلے اداکار نے جو ’ میک اپ‘ کیا تھا اس نے عورت کے چہرے کو پھر سے زندہ کر دیا تھا ، ایسا لگتا تھا کہ فنکار ، اداکار سے حسد میں آ کر ، اس کے کئے پر پانی پھیرتے ہوئے اسے واپس مردہ بنانا چاہتا ہو۔ فنکار نے اس عورت کے چہرے کا ’ ڈیتھ ماسک ‘ بنایا تاکہ اسے یاد رکھا جا سکے ۔
لیکن ’ ڈیتھ ماسک ‘ عورت کا بھی لگتا تھا اور مرد کا بھی ۔ یہ کسی دوشیزہ کا بھی دکھائی دیتا تھا اور کسی بوڑھی عورت کا بھی ۔ آدمی کی آواز کچھ ایسی سنائی دی جیسے اس کے سینے میں لگی آگ بجھ گئی ہو ۔ ” یہ وہ ہے ، لیکن وہ نہیں بھی ہے ۔ مجھے یہ ہی اندازہ نہیں ہو رہا کہ یہ مرد ہے کہ یا ایک عورت ۔ “
” بالکل صحیح کہا “ ، فنکار اداس چہرہ کے ساتھ بولا ، ” آپ کسی بھی ’ ڈیتھ ماسک‘ کو دیکھیں اور آپ کو یہ پتہ نہ ہو کہ یہ کس کا ہے تو اسے دیکھ کر آپ عمومی طور پر ’ جنس‘ کا تعین نہیں کر سکتے ۔ مثال کے طور پر بیتھوون جیسے بندے کے بھاری بھرکم چہرے کو ہی لے لیں ، اگر آپ اس کو غور سے دیکھیں تو وہ آپ کو ایک عورت کا چہرہ لگنے لگے گا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر بھی میرا یہ خیال ہے کہ یہ ’ ڈیتھ ماسک ‘ ہمیشہ زنانہ ہی رہے گا کیونکہ یہ جس عورت کا ہے ، اس سے زیادہ نسوانیت کسی اور عورت میں نہیں ہے ۔ پھر بھی یہ دوسروں کی طرح کا ہی ہے۔ ۔ ۔ وہ موت کو مات نہ دے سکی ۔ موت کے ساتھ ہی ’ جنس‘ کا فرق ختم ہو جاتا ہے ۔
” اس کی ساری زندگی ، عورت ہونے کے پرلطف احساس کا ایک المیہ ڈراما تھا ۔ زندگی کے آخری سانس تک ، وہ ایک بھرپور عورت تھی ۔ “ ، اس نے اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹا لیا جیسے کوئی بھیانک خواب ختم ہو گیا ہو ۔
” اور اگر وہ اس المیے سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو گئی ہو تو آﺅ ، ہم ایک دوسرے سے مصافحہ کریں ۔ ۔ ۔ اس ڈیتھ ماسک کے سامنے جس میں نر اور مادہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
' ڈیتھ ماسک ' ( مٹی، پلاسٹر یا پھر موم سے بنایا مرے بندے کے چہرے کا مکھوٹا ) = فوٹوگرافی کے رواج پانے سے پہلے ایک مرے بندے کے چہرے کے آخری تاثرات محفوظ کرنے کا یہ طریقہ قدیم مصری زمانے سے چلا آ رہا تھا ، یورپ کے علاوہ اور دنیاﺅں میں بھی اس کا رواج رہا ۔ ڈیتھ ماسک بنانے کا فن فوٹوگرافی کے آنے کے بعد محدود ہو کر رہ گیا ورنہ اس سے پہلے ہر اہم آدمی کا چہرہ ’ ڈیتھ ماسک‘ کے طور پر محفوظ کر لیا جاتا تھا ، جیسا کہ کہانی میں موسیقار ’ بیتھوون‘ کا ذکر بھی موجود ہے ۔
نوٹ ؛ اس کہانی کے بینر کے لئے بیتھوون کا ' ڈیتھ ماسک ہی استعمال کیا گہا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔