::: امریکہ کے رنگا رنگ شعری لہجوں اور مزاجوں کے شاعر: ڈیوڈ لیمن{David Lehman} ::::
امریکہ کےشاعر، نقار اور مدیر ڈیوڑ لیمن ایک یورپی یہودی مہاجر خاندان کی اولاد ہیں جو مرگ انبوہ{ ہولی کاسٹ} کے بعد امریکی آیا تھا۔ وہ ۱۱، ۱۹۴۸، جون میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ نیویارک میں ہٹن اوران وڈ میں بسر ہوا۔ اسٹینو زنٹ ہائی اسکول سے ڈپلومہ لینے کے بعد کولمبیا یونیورسٹی اور انگلستان کی کیمرج یونیورسٹی سے کپلٹ فیلو شپ کے وظیفے پر تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ انگریزی کے نقاد اور ادیب لیونگ ٹریلنگ کے تحقیقی معاون رہے۔ جب وہ کولمبیا یونیورسٹی میں طالب علم تھے ۔ ان کی نظم ایک معروف ادبی جریدے " پیرس ریویو" {۱۹۶۸} میں شائع ہوئی۔ ان کی شاعری کا لسانی بیانیہ کو " زبانی کھیل" کہا جاتا ہے۔ جو ایک قسم کے تجرباتی شاعری ہے۔ ڈیوڈ لیمن کے شاعرانہ لہجے میں رومانیت، جدیدیت، سان فرانسسکو نشاۃ ثانیہ ، نئی ہیت پسندی، مضافاتی لہجہ اور سریلرازم ر میں چی بسی ہے۔ ڈیوڈ لیمن امریکی اور امریکہ سے باہر ادبی تنقید اور شاعری پر خطبات دیتے ہیں۔ وہ آج کل " اتھسا" اور نیویارک سٹی میں قیام پذیر ہیں۔ وہ باسکٹ بال کے اچھے کھلاڈی بھی رھے ہیں۔ ان کی اہلیہ کا نام اٹیسی وڈ ہے۔ ان کی شاعری کے نو/۹ مجموعے اور پانچ/۵ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
New and Selected Works (Scribner, 2013)
Yeshiva Boys (Scribner, 2009)
When a Woman Loves a Man (Scribner, 2005)
Jim and Dave Defeat the Masked Man, coauthored with James Cummin (Soft Skull Press, 2005)
The Evening Sun: A Journal in Poetry (Scribner, 2002)
The Daily Mirror: A Journal in Poetry (Scribner, 2000)
Valentine Place (Scribner, 1996)
Operation Memory (Princeton University Press, 1990)
An Alternative to Speech (Princeton University Press, 1986)
Prose/ نثر
A Fine Romance: Jewish Songwriters, American Songs (Schocken, 2009)
The Last Avant-Garde: The Making of the New York School of Poets (Doubleday, 1998)
The Big Question (University of Michigan Press, 1995)
The Line Forms Here (University of Michigan Press, 1992)
Signs of the Times: Deconstruction and the Fall of Paul de Man (Poseidon Press, 1991
*******
::: "ملکیت کے ساتھ " :::
ڈیوڈ لیمن {امریکہ}
ترجمہ : احمد سہیل
اگلا وڈیو خود ہی چلنے لگتا ہے
اگر آج ایزرا پونڈ زندہ ہوتا
تو وہ درس دیتا
اقیانوس شمال کے چھوٹے سے کالج میں
اور وہ سالانہ تقسیم اسناد میں شرکت کرتا
سینٹ لوئیس کے ادیبوں کے اساتذہ
وہ اقتدار کے خلاف کٹہرے میں کھٹرے ہوتے ہیں
اور کٹہرہ کہتا ہے
ایک سیڑھی جس سے جفتی باہر نکل رہی ہے
وہ عالموں کے نیچے سے رینگتے ہوئے نکلتے ہیں
وہ اوپر کی طرف آسمانوں کی طرف دیکھتے ہیں
گم شدہ فرشتوں کی طرف سے
وہ مقتدریت کے جذبے کو ماردیتی ہے
{اقتدار کے ساتھ کوئی آدمی " آقا" بن جاتا ہے}
سرخیوں کی شکل میں، جو دور اقتدار میں نہیں لکھی گئی
خردبین کے نیچے
ایک دانشور کو ڈرون کے نیچے دے دیا جاتاہے۔
وہ جیکٹ کی چھاتی کی جیب سے پائپ نکالتا ہے
ھمیلٹ ۔۔۔۔۔ مدت سے " ملکیت" پر کچھ نہیں لکھا تھا
اور نہ ہی " شوبرت" کے نغمات لکھے گئے
اور نہ ھی " مونیے" اولمپیا کے زمانے میں مصّوری کے ساتھ
کوئی ذہیں شخص اس اقتدار میں ابھر نہیں سکتا ہے۔
نہ ہی عورت { میں تمہاری مسکراہٹ دیکھ سکتا ہوں}
پکاسو ایک مدت سے اس اقتدار کی طرف نہیں آیا
نہ ہی چارلی پارکر اور نہ ہی رائس اسٹیون
اور نہ ہی مارسیل پروسٹ واپس آیا۔
اور نہ ہی ٹرنر
موت ایک ایسا عہدہ ہے جس پر کوئی کام نہیں کرنا پڑتا
موت تک
مدت تک
فطرت قبض ہے جو بہتا نہیں
مدت سے کمرہ جماعت خالی ہے
تعلیم اداروں کی انّا کی وجہ سے
کیچپ کی بوتل کے اندر پھنس گیا۔
گھنٹی بجائے بغیر خط نہیں آتا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔