داستانی طور پر معروف سوویت ہوا باز آمیت (احمد) خان سلطان
فسطائی ہوا باز، ہوا باز امیت خان سلطان سے زیادہ خائف تھے بہ نسبت زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے۔ ان کے والد سلطان آمیت خان تھے تو داغستانی لیکن وہ کام کرنے کی خاطر کریمیا چلے گئے تھے جہاں انہوں نے نصیبہ نام کی کی کریمیائی تاتار خاتون سے بیاہ کر لیا تھا۔
آمیت خان کو بچپن سے ہی سمندر اور آسمان پسند تھے، سکول تمام کرنے کے بعد وہ ہوا بازی سکھانے والے ادارے میں داخل ہو گئے تھے۔ جنگ عظیم دوم میں وہ بطور جنگی پائلٹ شریک ہوئے۔ 21 جون 1941 کو وہ فضائی جاسوسی کرنے کے لیے فضا میں بلند ہوئے مگر واپسی پر اپنے ہی فضائی اڈے کو نہ پہچان سکے جو جرمنوں کی بمباری سے خاک و راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔
آمیت خان کو لمبے عرصے تک تخصیصی طور پر فضائی جاسوسی کرنے کی خاطر بھیجا جاتا رہا۔ اس کام کے دوران انہیں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرکے بحفاظت لوٹنا ہوتا تھا۔ اًمیت خان ایسا کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ انہوں نے جنگی استخدام کے پہلے چھ ماہ میں 130 پروازیں کیں۔ انہیں اپنے سکواڈرن کا سربراہ بنا دیا گیا اور انہیں "سرخ پرچم" نام کا تمغہ ودیعت کیا گیا۔
1942 میں سوویت فضائیہ کو جنگی طیارے یاک ون میسّر آ گئے تھے، جن میں بیٹھ کر فسطائیوں کے ساتھ دوبدو لڑائی کی جا سکتی تھی۔ یوں دشمنوں کے مار گرائے جانے والے جنگی طیاروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا ساتھ ہی آمیت خان کی جنگی مہارت بھی فزوں تر ہوئی تھی۔ جب وہ سٹالن گراڈ کے محاذ پر پہنچے تو وہاں کی فضا میں خاص طور پر تیار کردہ ان جرمن پائلٹوں کا راج تھا جو ایم ای-109 طیاروں کو چلا رہے ہوتے تھے لیکن آمیت خان پہلے سے ہی ایسے طیاروں کو مار گرائے جانے میں طاق ہو چکے تھے۔ ان کی خاص ترکیب یہ ہوتی تھی کہ وہ فضا میں بہت بلندی پر چلے جاتے تھے اور پھر اچانک نیچے آ کر دشمن کے طیارے کو اس کے اوپر سے نشانہ بناتے تھے۔۔ ان کی بصارت ناقابل یقین حد تک تیز تھی ۔ وہ جسے تاک لیتے تھے اس پر پلک جھپکتے پل پڑتے تھے۔ 1943 کے موسم بہار میں آمیت خان کو سوویت یونین کے ہیرو کا اعزاز دیا گیا تھا۔
مارچ 1944 میں آٹھویں فوج کے فضائی اڈے کی فضا میں ایک جرمن جنگی طیارہ ایم ای-109 پہنچا جس نے چیلنج کیا تھا کہ سوویت یونین کا بہترین پائلٹ فضا میں بلند ہو کر اس کے ساتھ دوبدو مقابلہ کرے اور وعدہ کیا تھا کہ جب تک سوویت طیارہ 3000 میٹر کی بلندی تک نہیں پہنچے گا اس کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ کمانڈر نے آمیت خان سلطان کو طیارہ فضا میں بلند کرنے کا حکم دیا تھا۔ فضائی اڈے پر موجود ہر شخص کو یہ لڑائی یاد رہے گی اگرچہ اس لڑائی کا دورانیہ محض پندرہ منٹ کا تھا۔ ٍفضا میں دو طیاروں نے ایک جھولا سا بنا لیا تھا۔ ایک بھی گولی چلائے بنا ایک دوسرے کے گرد چابکدستی سے غوطے لیتے اور بلند ہوتے رہے تھے۔ پھر گولہ داغا گیا تھا، جرمن طیارے سے دھواں اٹھنے لگا تھا اور وہ زمین پر آ رہا تھا۔ اس طرح آمیت خان نے اس پائلٹ کو مار گرایا تھا جو پچاس سوویت طیاروں کو نشانہ بنا چکا تھا۔
آمیت خان نے آخری لڑائی برلن کی فضا میں لڑی تھی۔ جرمن طیارے میں ایک کرنل سوار تھا جسے جرمنی کا بہترین جنگی اعزاز مل چکا تھا۔ جب کرنل پیراشوٹ کے ذریعے کود کر اپنے ہیڈ کوارٹرز پہنچا تھا اس نے خواہش کی تھی کہ اسے وہ سوویت پائلٹ دکھایا جائے جس نے اس کے طیارے کو مار گرایا تھا۔ اس کو ایک پستہ قد اور کمزور میجر کو دیکھ کر بہت دیر تک یقین نہیں آیا تھا مگر جب اسے بتایا گیا تھا کہ یہ آمیت خان سلطان ہے تو اس نے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔ اس کا طیارہ تیسواں اور آخری طیارہ تھا جو آمیت خان نے مار گرایا تھا۔
جنگ ختم ہو جانے کے بعد آمیت خان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ماسکو کے مضافات میں ژوکوسک میں فضائی جانچ کے انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہونگے۔ اس انسٹیٹیوٹ میں 25 سال کام کرنے کے دوران آمیت خان سلطان نے کئی طیاروں کی دشوار فضائی جانچ کی پروازیں کی تھیں۔
"زمین سے سمندر" میں نشانہ بنانے والے کروز میزائل کی جانچ کرتے ہوئے ان کے ساتھ ایک ناقابل یقین واقعہ پیش آیا تھا۔ میزائل ایک بہت بڑے طیارے ٹی یو چار کے ساتھ معلق ہوتا تھا۔ جس کے انجن کو سٹارٹ کرکے پائلٹ اسے چھوڑ دیتا تھا۔ ویسے تو میزائل میں پائلٹ نہیں ہوتا لیکن اس کی پڑتال کے دوران پائلٹ کو میزائل میں سوار ہونا پڑا تھا۔ ایسا اس لیے کیا گیا تھا تاکہ پائلٹ اس کی پرواز کا راستہ دیکھ سکے اور اگر میزائل متعلقہ راستے سے بھٹکے تو اس کا کنٹرول سنبھال سکے۔ ایسی پڑتال خفیہ اور انتہائی خطرناک تھی۔ میزائل میں بیٹھے ہوئے آمیت خان تب طیارے سے علیحدہ ہو گئے جب ابھی میزائل کا انجن سٹارٹ نہیں ہو سکا تھا۔ میزائل برق رفتاری سے زمین کی جانب آ رہا تھا۔ ذہنی دباؤ نے پائلٹ کو کرسی سے باندھ کر رکھ دیا تھا۔ آمیت خان نے انجن سٹارٹ کرنے کی جتنی بھی کوشش کی مگر ناکام رہے تھے۔ جب زمین بہت ہی قریب رہ گئی تو میزائل کا انجن چالو ہو گیا اور میزائل نے غیر متعینہ سمت میں چلنا شروع کر دیا۔ آمیت خان کی موت میں چند ثانیے باقی بچے تھے۔
آواز کی رفتار سے زیادہ تیز طیاروں کے آ جانے کے بعد ان میں سے بٹن دبا کر پیراشوٹ کے ذریعے کودنا پڑتا تھا۔ آمیت خان اس عمل کی پڑتال کرنے والے پہلے اشخاص میں سے تھے۔ ایک بار وہ پیراشوٹ جمپنگ کی پڑتال کرنے والے ولیری گولوون کے ساتھ بلندی کی جانچ کے لیے پرواز پر روانہ ہوئے تھے۔ اچانک دھماکہ ہوا اور کاک پٹ میں مٹی کا تیل بکھر گیا۔ پتہ یہ چلا کہ پائلٹ کی کرسی اچھالنے والے آلے نے قبل از وقت کام شروع کر دیا تھا۔ طیارے میں کسی وقت بھی آگ لگ سکتی تھی۔ "کودو" آمیت خان نے چیخ کر گولوون سے کہا تھا۔ " نہیں کود سکتا، کرسی جم کر رہ گئی ہے" گولوون نے جواب دیا تھا۔ زمین سے کمانڈ نے آمیت خان کو طیارے سے نکل جانے کا حکم دیا تھا لیکن انہوں نے اپنے دوست کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ مٹی کے تیل کی چبھنے اور اندھا کر دینے والی گیس کے باوجود آمیت خان نے عملی طور پر دیکھے بغیر طیارہ اتارلیا تھا۔
خلائی پروگرام کے ضمن میں خلابازوں کو زمین پر واپس لانے والے آلے کی جانچ بھی آمیت خان نے ہی کی تھی۔ گولوون کے ساتھ مل کر انہوں نے خلانوردوں کے لیے، زمین پر واپس لانے والے آلے میں خرابی کی صورت میں ہنگامی طور پر زمین پر اترنے کا طریقہ وضع کیا تھا۔ آمیت خان سلطان نے اس پہلے طیارے کی بھی جانچ کی تھی جس میں مصنوعی طور پر بے وزنی کی کیفیت پیدا کی گئی تھی۔
آمیت خان اپنی عمر کے پچاس سال پورے ہونے کے فورا" بعد ایک حادثے کا شکار ہو کر انتقال کر گئے تھے۔ یکم فروری 1971 کو آمیت خان نے "اڑن لیبارٹری" میں پرواز کی تھی تاکہ طیارے کے اس نئے انجن کی پڑتال کر سکیں جو طیارے کے اندر لگایا گیا تھا اور جو ایک خاص میکانزم کے ذریعے باہر نکلتا تھا۔ جب طیارہ جانچ کے مقام تک پہنچ گیا اور ایویشن انجنیر نے انجن کو باہر نکالا تو عملے کے دوسرے رکن نے پرواز کے عمل کے آغاز سے متعلق زمین کو اطلاع دی تھی۔ یہ کنٹرول ٹاور تک پہنچنے والا آخری پیغام تھا۔ طیارہ دلدل میں جا گرا تھا۔ پورا عملہ ہلاک ہو گیا تھا۔ اس سانحہ جاتی روز کیا ہوا تھا ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ جس انجن کی پڑتال کی جانی تھی وہ پھٹ گیا ہو۔
ترجمہ: ڈاکٹر مجاہد مرزا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“