داستان ضیاء محی الدین
آج ہم خوش لباس،خوش شکل،تعلیم یافتہ اور اردو ادب کی لازوال آواز کے جادوگر ضیاٗ محی الدین کے بارے بات کرتے ہیں ۔اردو ادب میں طنزو مزاح کے آقا مشتاق یوسفی نے ضیاٗ محی الدین کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ضیا اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی تحریر پڑھ لے، تو وہ زندہ ہوجاتا ہے۔ یہ واحد ادبی شخصیت ہیں جن کے پڑھنے اور بولنے کے ڈھنگ کو عالمی شہرت نصیب ہوئی ، آواز کی کھنک ،گنگا جمنی لہجہ ،آواز کا اتار چڑھاو،شعر پڑھنے کا قدیمی و جدید انداز ایسا ہے کہ علم و فکر سے مزین انسان عش عش کر اٹھتا ہے ،دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں اور ہم سنتے رہیں ۔ضیاٗ محی الدین ریختہ کی شان ہیں ،وہ جنہیں اردو زبان سمجھ نہیں آتی،وہ بھی ضیاٗ محی الدین کے ادبی و شعری رنگ و ڈھنگ کے دیوانے ہیں ۔اردو شعر پڑھنے کے نئے اور جدید لہجے کے وہ سچے موجد ہیں ،ضیا محی الدین ریختہ کا دلکش اور شاہکار چہرہ ہیں ۔انہوں نے پاکستان میں اسٹیج شوز کی بنیاد رکھی ۔ایسی قابل اور محترم شخصیت جنہیں ایک انوکھا لہجہ دنیا بھر میں ممتاز کر گیا ۔ضیا محی الدین نام ہے معیار کا ،اخلاق کا ،آواز کا ،علم و فکر کا ،آگہی و شعور کا ،علم و فکر کا ،ایک ایسا عہد ہیں جن کو سن کر انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ بھی تعلیم یافتہ ہے ۔ضیاٗ محی الدین کی ایک فقرے میں تعریف کی جائے تو وہ یہ ہے ،شخصیت،آواز اور لہجے کی انفرادیت ،فن و ادب سے محبت ،اسے کہتے ہیں ضیا محی الدین صاحب ۔یہ عظیم فنکار بیس جون انیس سو تتیس کو لیل پور میں پیدا ہوا،ضیا صاحب کے والد کا تعلق بھی علم و تدریس کے شعبے سے تھا ،انہوں نے کی پہلی پاکستانی فلم تیری یاد کی کہانی تحریر کی تھی، یعنی تیری یاد کے وہ مصنف ہیں ،اس فلم کے تمام مکالمے بھی ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین نے تحریر کئے تھے۔اردو ادب و شعری آواز کے الہامی جادوگر ضیا محی الدین نے شہر بے مثال یعی لاہور کے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی ،اس کے بعد علم کی آگ بجھانے آسٹریلیا جا بسے ،علم وآگہی اور فن وآرٹ کی تلاش کے لئے برطانیہ کا سفر کیا ،جہاں وہ رائل اکیڈمی آف تھیٹر اینڈ آرٹس سے وابستہ ہو گئے ۔یہاں پر انہوں نے صداکاری و اداکاری کے فن کی تربیت حاصل کی اور پھر یہی سے صداکاری و اداکاری کا آغاز کیا ۔اسی دوران کچھ عرصے کے لئے وہ پاکستان آگئے ،ریڈیو پر صداکاری کی ،کچھ ریڈیو ڈراموں میں فن اداکاری کا مظاہرہ کیا ،غالبا یہ انیس سو چھپن کی بات ہے ۔اس کے بعد دوبارہ گوروں کے دیس وآپس چلے گئے ۔اب انہوں نے برطانیہ میں ہدایئتکاری یعنی ڈائریکشن کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کی ۔برطانیہ میں انیس سو ساٹھ میں عالمی شہرت یافتہ ادیب فوسٹر کے مشہور ناول A PASSAGE TO INDIA کو رائل اکیڈمی برطانیہ میں اسٹیج پر پیش کیا گیا ،تواس اسٹیج ڈرامے میں لہجے کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر ضیا محی الدین کو کام کرنے کا موقع ملا ،ضیا صاحب نے اس ڈرامے میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کیا تھا،ایسی شانداز اور باکمال پرفامنس دی کہ شائقین حیرت زدہ رہ گئے ۔اب وہ اسٹیج کی دنیا میں سب کی توجہ کا مرکز و محور بن چکے تھے ،انہیں اسٹیج کا لیجنڈ فنکار کہا جانے لگا ۔ہالی وڈ کی دنیا میں بھی ان کا نام بطور ایک فنکار کے لیا جانے لگا ،انیس سو باسٹھ میں ایک ہالی فلم بنی تھی جس کا نام LAWRENCE OF ARABIA تھا ، یہ فلم ہالی وڈ کی کلاسیکل فلموں میں شمار کی جاتی ہے ۔یہ ہالی وڈ فلم انڈسٹری کی معروف ترین فلموں میں ایک ہے ۔اسے نایاب فلموں میں شمار کیا جاتا ہے ۔اس فلم میں ضیا محی الدین نے یادگار پرفامنس دی ،اس کے بعد برطانیہ میں انہوں نے تھیٹر کے کئی یادگار ڈراموں میں لاجواب پرفامنس دی ،جس کی وجہ سے انہیں بھرپور پزیرائی ملی ۔ضیا صاحب نے ہالی وڈ کی بہت ساری فلموں میں کام کیا اور شائقین فلم کے دل جیتے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں فلم اور اسٹیج کی ترقی کے لئے کام کریں ،اس لئے وہ انیس ستر میں برطانیہ سے پاکستان آگئے ۔پی ٹی وی پر انہوں نے ایک اسٹیج پروگرام کا آغاز کیا ،اس اسٹیج شو کا نام تھا ،ضیا محی الدین شو ۔بطور میزبان ایسی پرفامنس دی کہ مقبولیت کے تمام رکارڈ ٹوٹ گئے ۔اس پروگرام کے زریعے ضیا محی الدین نے اردو ادب کی توجیح و تشریح میں اہم کردار ادا کیا ،اب پاکستانیوں کو اردو زبان سے محبت ہونے لگی ،پہلی مرتبہ انہیں لگا کہ اردو زبان تو دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے ،جس کے لہجے میں الہامی کیفیت ہے ،اسی لئے ضیا محی الدین کو اردو زبان کا سب سے حسین و دلکش لہجہ کہا جاتا ہے۔ کچھ پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا ،لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام اور ماحول سے وہ خوش نہیں تھے ،اس لئے فلموں میں بطور فنکار کنارہ کشی اختیار کر لی ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ فلم انڈسٹری میں بڑی کامیابی حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ۔پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں اس لیجنڈ آرٹسٹ کو آرٹس اکیڈمی کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔بطور سربراہ انہوں نے اداکاری و صداکاری کے فن کی نشوونما اور ترقی کے لئے تخلیقی کام کئے ،اسی دوران انہوں نے نامور رقاصہ ناہید صدیقی سے دوسری شادی کی ۔ ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں پائل، چچا چھکن، ضیا کے ساتھ اور جو جانے وہ جیتے کے نام سب سے نمایاں ہیں ۔ضیا محی الدین کی آواز ہی ان کی اصل شناخت ہے ،خوبصورت آواز اور الہامی لہجہ کی وجہ سے انہوں نے وہ مقام پیدا کیا ہے جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوسکا ۔اردو ادب کے لازوال فن پاروں کو اسٹیج پر اس انداز و لہجے میں پیش کیا کہ دنیا کو اردو زبان سے عشق ہو گیا ۔ 2004ء میں انہیں روشنیوں اور رنگوں سے مزین شہر کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کا ڈائرکٹر مقرر کیا گیا ۔ جہاں وہ آج بھی ایماندار اور دیانت داری سے تخلیقی کلاسیکل سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔تعلق تو بنیادی طور پر ان کا لیل پور پنجاب سے ہے ،لیکن اب انہوں نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہیں ۔ ضیامحی الدین کا نام آتے ہی ان ذہنوں کی سکرین پر 70ء کی دہائی کے ٹی وی ڈرامے اور وہ اسٹیج شوز چلنا شروع ہو جاتے ہیں جن میں کام کرکے ضیامحی الدین نے اپنے فن کا لوہا منوایا تھا ۔ بنیادی طور پر ضیا صاحب کا خاندان بھارت کے علاقے ہریانہ سے تعلق رکھتا تھا۔ زندگی کا کچھ عرصہ قصور اور لاہور میں بھی گزارا۔ضیا محی الدین کے اشعار پڑھنے کا انداز و لہجہ پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ وہ انگریزی زبان کے ادب کو ایسے دلکش اور شاندار طریقے سے پڑھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے شیکسپئیر کا تعلق جیسے ضیا محی الدین کے سے ہو ۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد وہ مایوس ہو کر واپس برطانیہ چلے گئے تھے۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں رہائش اختیار کی اور وہاں فن و آرٹ کے حوالے سے کام کرتے رہے ۔دو ہزار پانچ میں سابق صدر اور آمر جنرل پرویز مشرف نے ضیامحی الدین کو کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) کی تشکیل کی دعوت دی تھی ۔ اس وقت ضیا محی الدین پچاسی برس کے ہیں ،آرٹ کے لئے ان کی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں ،ضیامحی الدین کو انگریزی اور اردو زبان کا شہزادہ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے اردو زبان کے نایاب شاعر و فلاسفر مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط جس اندازمیں پڑھے، اس سے بھی انہیں بہت شہرت ملی۔وہ ایسے باکمال فنکار ہیں، جنہوں نے فن کی کئی جہتیں متعارف کرائیں ان سب کے علاوہ وہ اعلیٰ درجے کے مرثیہ خواں بھی ہیں، اس شعبے میں بھی انہیں منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کے انگریزی ٹی وی ڈراموں میں ’’ ڈینجرمین، دی ایونجرز مین، ان اے سوٹ کیس، ڈیٹیکٹو ، ڈیتھ آف اے پرنسس ، دی جیول پرائڈ‘‘ ان دی کرائون اور فیملی سر فہرست ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سر سے پاوں تک صرف ایک تخلیقی فنکار ہیں ،ساتھ ساتھ وہ انتہائی شائستہ اور مہذب انسان ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں انہیں ایک قابل احترام شخصیت سمجھا جاتا ہے ۔2012 میں انہیں ہلال امتیاز سے بھی نوازا جاچکا ہے۔۔ضیا صاحب پرانے دور کے پی ٹی وی ڈراموں کے مداح ہیں ،کہتے ہیں وہ ایک کلاسیکل دور تھا ،ویسا گولڈن دور ضرور ایک دن وآپس لوٹے گا ۔پاکستان فلم انڈسٹری کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس انڈسٹری کو اعلی تعلیم یافتہ ڈائرکٹرز ،میوزیشنز اور کہانی کاروں کی ضرورت ہے ،جو بدقسمتی سے موجودہ دور میں دستیاب نہیں ،اس لئے فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے ۔ ضیامحی الدین نے تین شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی سرور زمانی تھیں جن سے ان کے دو بیٹے ہیں۔ نامور کتھک ڈانسرناہید صدیقی سے ان کا ایک بیٹا ہے۔ تیسری بیوی عذرا ہیں ،جن سے ان کی ایک بیٹی ہے۔ اس وقت یہ لیجنڈ فنکار بھرپور زندگی گزار رہا ہے ،جب بھی پاکستان میں آرٹ کی تاریخ لکھی جائے گی ،اس نایاب ہیرے کا نام سرفہرست ہوگا ۔ہمیں فخر ہے کہ ہم عہد ضیا محی الدین میں زندہ ہیں ۔ دعا ہے کہ بہت عرصہ یہ ہمارے درمیان رہیں تاکہ آرٹ کی توجیح و تشریح کا سفر جاری رہ سکے ۔ضیا محی الدین صاحب میری طرف سے آپ کو سلام عظیم ۔۔۔۔۔آپ ہیں تو پاکستان جیسے ملک میں کبھی کبھار آرٹ و فن کی بات چل نکلتی ہے ،آپ ہیں تو شعر و ادب کے لہجے اور انداز پر بات ہو جاتی ہے ،آپ ہی کی وجہ سے خوبصورت اردو شاعری اور ادب سے میرے جیسے انسان کو تھوڑی بہت محبت نصیب ہوئی ۔پاکستان میں اردو ادب سے محبت رکھنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ اس عظیم انسان سے اپنا رابطہ بڑھائیں ،ان کی ویڈیوز سنیں ،ان کے لب و لہجے کی انفرادیت کا مشاہدہ کریں اور سمجھیں کہ وہ اصل میں کہنا کیا چاہتے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔