میں ایک کہانی کار ہوں اور میں آپ کو کچھ ایسی ذاتی کہانیاں سناوں گی جنہیں میرے خیال میں “داستان واحد کے نقصانات” کہنا چاہیے ۔میں مشرقی نائجیریا میں ایک یونیورسٹی کی حد ود میں پروان چڑھی۔میری ماں کے بقول میں نے دو سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا تھا جبکہ میرے خیال میں چار سال کی عمر کہنا ذیادہ حقیقت کے قریب ہے۔۔میں نے کم عمری میں ہی پڑھنا شروع کیا اور میرے زیر مطالعہ ذیادہ تر امریکی اور برطانوی بچوں کی کتابیں تھیں۔میں نے لکھنا بھی جلدی شروع کیا اور سات سال کی عمر سے میں نے پینسل اور کریان کے رنگوں سے بنی تصاویر کے ساتھ کہانیاں لکھیں جو میری ماں کو پڑھنی پڑھتی تھیں۔میں بالکل ویسی ہی کہانیاں لکھ رہی تھی جیسے میں نے پڑھی تھیں۔میرے کردار نیلی آنکھوں والے گورے تھے جو برف میں کھیلتے،سیب کھاتے، اور موسم کی دلکشی پر باتیں کرتے۔
” آج سورج نکلا تو موسم کتنا خوبصورت ہو گیا ہے”
اب اس حقیقت کے برعکس کہ میں نائجیریا میں رہ رہی تھی اور کبھی اس سے باہر نہ گئی تھی۔ہمارے ہاں برف نہیں ہوتی ،ہم آم کھاتے ہیں۔اور ہم موسم کے بارے میں کبھی بات نہیں کرتے کیونکہ وہاں اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔میرے کردار جنجر بئیر پیتے کیونکہ جو کتابیں میں پڑھتی تھی ان کے تمام کردار جنجر بئیر ہی پیتے تھے اگرچہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ جنجر بئیر ہے کیا بلا ۔اس سے اگلے کئی سالوں تک مجھے جنجر بئیر پینے کی شدید خواہش رہی۔لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے۔
اس سے میں نے یہ سیکھا کہ کہانیوں کے سامنے ہم کسقدر بے بس ہوتے ہیں اور ان سے کسقدر نتائج اخذ کرتے ہیں اور خصوصا بچوں کو یہ کسقدر متاثر کرتی ہیں ۔چونکہ میں نے ساری باہر کے ممالک کی کتابیں پڑھی تھیں تو مجھے یقین تھا کہ کتاب میں تمام کردار باہر کے لوگوں کے ہی ہونے چاہیں اور انہی چیزوں اور باتوں کے بارے میں ہونے چاہیں جن کو خود میں ذاتی طور پر جانتی ہی نہیں۔
صورتحال تب بدلی جب میں نے افریقن کتابیں پڑھنی شروع کیں۔وہ نہ تو آسانی سے ملتی تھی نہ انہیں غیر ملکی کتابوں کی طرح خرید لینا آسان کام تھا۔۔۔افریقی مصنفین کی وجہ سے ادب کے بارے میں میری سوچ کا دھارا بدلنے لگا میں نے جانا کہ میرے جیسی چاکلیٹ رنگی لڑکیاں بھی ادب میں پائی جا سکتی ہیں جن کے گھنگریالے بالوں سے پونی ٹیل نہیں بن سکتی۔
پھر میں نے ایسی چیزوں کے بارے میں لکھنا شروع کیا جن کو میں خود جانتی اور پہچانتی تھی۔میں ان برطانوی اور یورپی کتابوں سے پیار کرتی ہوں جنہوں نے میرے تخیل میں رنگ بھرے اور ان پر نئے در کھولے مگر غیر ارادی طور پر ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے لگا کہ میرے جیسے لوگوں کا ادب میں کوئی کام نہیں۔ افریقن کتابوں نے مجھ پر یہ احسان کیا کہ انہوں نے مجھے کتابوں کے تعارف کے بارے میں داستان واحد کے ستم سے محفوظ رکھا۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک روایتی مڈل کلاس نائجیرین خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔میرے والد ایک پروفیسر تھے اور میری ماں ایک ایڈمنسٹریٹر تھی۔اسی لئے ہمارے پاس گھر میں کام کے لئے ملازم موجود تھے جو قریبی گاوں سے آتے تھے۔جب میں آٹھ سال کی ہوئی تو ہمارے گھر کام والا ایک نیا لڑکا آیا جس کا نام فیڈے تھا۔میری والدہ نے اس کے تعارف میں ہمیں صرف یہ بتایا کہ وہ ایک بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔میری ماں شکر قندی ، چاول اور ہمارے پرانے کپڑے اس کے خاندان کو بھجوا دیتیں۔ اور جب میں اپنا کھاتا ختم نہ کر پاتی میری ماں مجھے ڈانٹے ہوئے کہتیں:
” کھانا ختم کرو!تمھیں کیا پتا کہ فیڈے جیسے لوگوں کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا!”
مجھے فیڈے کے خاندان پر بہت ترس آتا۔ایک ویک اینڈ پر ہم فیڈے کا گاوں گھومنے گئے تو اس کی ماں نے ہمیں پام کے سوکھے پتوں سے بنی ایک ایسی خوبصورت ٹوکری دکھائی جو فیڈے کے بھائی نے بنائی تھی۔میں حیران ہو گئی۔یہ تو میں نے سوچا تک نہ تھا کہ اس کے خاندان میں کوئی کچھ بنا بھی سکتا ہے۔میں ان کے بارے میں صرف یہی جانتی تھی کہ وہ کسقدر غریب ہیں۔چناچہ میرے لئے بہت مشکل تھا کہ میں سمجھ سکتی کہ وہ غریب ہونے کے علاوہ بھی کچھ اور ہیں۔انکی غربت وہ واحد داستان تھی جو میں نے سنی تھی۔
سالوں بعد جب میں نے نائجیریا چھوڑا اور یونیورسٹی کے لئے امریکہ گئی تو مجھے اس بات کی سمجھ آئی ۔میں انیس سال کی تھی۔میری امریکی روم میٹ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئی۔اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے اتنی اچھی انگلش کہاں سے سیکھی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ انگلش نائجیریا کی سرکاری زبان ہے تو وہ مزید حیران ہو ئی۔
اس نے مجھ سے ہماری ” قبائلی موسیقی “سننے کی فرمائش کی
اور یقینا بہت مایوس ہوئی جب میں نے ماریہ کیری کا میوزک سنایا۔اس کا خیال تھا مجھے چولہا تک چلانا نہیں آتا۔جس بات نے مجھے سب سے ذیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ کہ اسے مجھ پر ترس آیا تھا اگرچہ وہ ابھی مجھے جانتی تک نہ تھی۔ایک افریقی کے طور پر میرے بارے میں اس کا پہلے سے طے شدہ رویہ ایک ہمدردی اور برتری کا تھا۔میری روم میٹ نے بھی افریقہ کے بارے میں داستان واحد سنی تھی جو تباہی کی تھی اور اس واحد کہانی میں افریقی باشندے کسی بھی طرح امریکی لوگوں جیسے نہیں تھے۔چناچہ وہ ہم پر صرف ترس ہی کھا سکتے تھے۔وہ کسی بھی طرح ہمیں اپنے برابر نہیں سمجھ سکتے تھے۔
مجھے اعتراف ہے کہ امریکہ جانے سے پہلے مجھے قطعی اپنی افریقی پہچان کا علم نہ تھا لیکن امریکہ میں جب بھی افریقہ کا نام آتا لوگ میری طرف مڑتے۔ اس کے باوجود کہ مجھےنیمبیا جیسی جگہوں کے بارے میں قطعی کوئی علم نہ تھا۔لیکن میں نے اپنی اس نئی شناخت کو تسلیم کیا اور خود کو افریقن سمجھنا شروع کر لیا۔اگرچہ مجھے بڑا برا لگتا جب جب افریقہ کو ایسا ملک کہا جاتا ۔جیسے ابھی تین دن پہلے Lego سے میری ایک فلائیٹ کے دوران ایک اعلان کیا گیا جس میں افریقہ ،انڈیا اور دوسرے ممالک میں ہونے والی امداد کا ذکر کیا گیا۔
امریکہ میں ایک افریقی کے طور پر کچھ سال گزار لینے کے بعد مجھے میری روم میٹ کے رویے کی وجہ سمجھ میں آنے لگی۔اگر میں نائجیریا میں پیدا نہ ہوئی ہوتی اور میں نے افریقہ کو اس کی وجہ شہرت سے جانا ہوتا تو میں بھی سمجھتی کہ افریقہ ایک خوبصورت قدرتی مناظر والی ،خوبصورت جانوروں اور عجیب و غریب لوگوں کی جگہ ہے جو بیکار جنگوں میں الجھے رہتے ہیں،،غربت اور ایڈز کی وجہ سے مرتے ہیں ۔جو اپنے لئے آواز نہیں اٹھا سکتے ۔جو انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی رحمدل گورا آ کر ان کی مدد کرے۔میں بھی افریقی لوگوں کو ایسے ہی سمجھتی جیسے ایک بچی کی طور پر میں نے فیڈے کے خاندان کو سمجھا۔
افریقہ کی بارے میں یہ واحد داستان میرا خیال ہے مغربی ادب سے آتی ہے۔لندن کے ایک کاروباری شخص جان لک کی لکھی ایک لائن ہے جو مغربی افریقہ میں 1561 میں لنگر انداز ہوا۔ اور اس نے اپنے اس سفر کے بارے میں خوبصورت تحریر لکھی۔کالے افریقی لوگوں کے بارے میں اس نے لکھا کہ ” یہ ایسے درندے ہیں جن کے گھر نہیں ہیں،۔
“یہ ایسے لوگ ہیں جن کے دماغ نہیں، ان کی آنکھیں اور منہ ان کی چھاتیوں پر ہیں۔
اب میں جب بھی یہ پڑھتی ہوں مجھے ہنسی آتی ہے۔اور اس کے تخیل کو داد دیتی ہوں۔لیکن اس تحریر کے بارے میں جو بات اہم ہے کہ یہ مغرب میں افریقی کہانیوں کے رواج کی شروعات کو ظاہر کرتی ہےجس میں افریقہ کے لوگوں کو مختلف،منفی اور جاہل تصور کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔۔
جیسے شاعر رووجیٹ کپلنگ نےہمیں “آدھے بھوت اور آدھے بچے ” کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چناچہ میں نے سمجھنا شروع کیا کہ میری امریکی روم میٹ اپنی تمام ذندگی اس پروفیسر کی طرح اسی داستان واحد کے مختلف ورژن دیکھتی رہی ہے جس نے مجھے ایک بار کہا کہ میرا ناول دراصل مستند افریقی انداز کا نہیں ہے۔اب میں اس بات پر اتفاق کرتی ہوں کہ میرے ناول میں کچھ خامیاں موجود ہیں لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ افریقہ کی عکاسی کیوں نہیں کر رہا۔دراصل مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اصل افریقی انداز کیا ہے۔
۔اس نے کہا میرے تمام کردار اس کے جیسے پڑھے لکھے مڈل کلاس لوگ ہیں ۔وہ کاریں چلاتے ہیں اور ان کو قحط کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اس لئے وہ اصلی افریقی نہیں ہیں۔
مجھے کہنے دیں کہ میں خود بھی داستان واحد کے ظلم کا حصہ بن چکی ہوں ۔کچھ سال پہلے میں امریکہ سے میکسیکو گئی۔اس وقت امریکہ کے سیاسی حالات خاصے تناو کا شکار تھے اور وہاں امیگریشن کے موضوع پر مباحثے ہو رہے تھے۔اور جیسے امریکہ میں عموما ہوتا ہے۔امیگریشن کا مطلب میکسیکو کے لوگوں سے متعلقہ ہی سمجھا جاتا ہے۔وہاں میکسییکو کے ایسے لوگوں کے بارے میں لاتعداد کہانیاں گھومتی ہیں جن میں وہ صحت کے نظام کو نظرانداز کرتے ہیں،چوری چھپے سرحد پار کرتے ہیں اور پھر وہاں پکڑے جاتے ہیں۔مجھے گاڈالہارا میں گھومتے ہوئے اپنا پہلا دن یاد ہے ۔لوگوں کو دفاتر جاتے دیکھنا،بازاروں میں ٹارٹیلا بناتے ،ہنستے،سیگریٹ پیتے!مجھے یار ہے مجھے سب سے پہلے حیرت ہوئی اور پھر مجھے بے تحاشا شرم آئی۔ مجھے احساس ہوا کہ میکسیکو کے بارے میں ہونے والی میڈیا کوریج نے مجھے اس قدر متاثر کیا تھا کہ وہ میرے نزدیک صرف ایک ہی حقیقت بن کر رہ گئے تھے،حقیر مہاجر!
میں بھی میکسیکو کے بارے میں ایک واحد کہانی کی زد میں آ چکی تھی اور اب خود پر شرمندہ ہو رہی تھی۔
اس طرح سے دنیا کو صرف ایک کہانی سنانا ،اسے صرف ایک پہلو بتانا اور بار بار بتاتے رہنا یہاں تک کہ ہم انہیں صرف وہی سمجھنے لگتے ہیں۔یہ نا ممکن ہے کہ کہ داستان واحد کے بارے میں بات کی جائے اور طاقت کے بارے میں بات نہ کی جائے۔ایک” ایبو” لفظ ہے جو ہمیشہ جب بھی میں دنیا کے طاقت کے ڈھانچے کے بارے میں سوچوں میرے دھیان میں آتا ہے اور یہ ہے” انکالے”_____یہ ایک اسم ہے جس کا آسان ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے سے برترہونا ” جیسے ہماری معاشی اور سیاسی دنیائیں!کہانیوں کو بھی این کالے کے اصول کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔ کہ کون بتا رہا ہے اور کیا بتا رہا ہے،کب بتایا جا رہا ہے اور اس بارے میں کتنی بار بتایا گیا ہے۔ یہ سب مکمل طور پر طاقت پر منحصر ہے۔طاقت وہ صلاحیت ہے جس کے تحت نہ صرف آپ دوسروں کی کہانی سنا سکتے ہیں بلکہ اسے مکمل یقین کے ساتھ ایک کہانی بنا سکتے ہیں۔ فلسطینی شاعر مرید باگوٹی لکھتے ہیں کہ اگر تم لوگوں کو کہیں سے بے دخل کرنا چاہتے ہو تو صرف ایک کام کرو،ان کے بارے میں کہانی سناو اور اسے “دوسری بات” سے شروع کرو!
کہانی برطانوی قابضوں کے آنے سے شروع کرنے کی بجائے علاقائی امریکیوں کے مارے گئے تیروں سے شروع کرو۔ اس سے آپ کے سامنے ایک بالکل مختلف کہانی آ جائے گی۔افریقی ریاستوں میں کالونیاں بنانے سے شروع کرنے کی بجائے افریقی ریاست کی ناکامی سے کہانی شروع کرو اور بالکل ایک بدلی ہوئی کہانی کا لطف اٹھاو۔
حال ہی میں میں ایک یونیورسٹی میں بات کر رہی تھی جہاں مجھے ایک طالب علم نے بتایا کہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ نائجیرین مرد( میرے ناول کے ایک کردار کی طرح) عورت کو گالیاں نکالتے ہیں۔میں نے اسے بتایا کہ میں نے ابھی ایک ناول ختم کیا ہے جس کا نام تھا “امریکی سائکو” اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ امریکی نوجوان قتل کرتے رہنے کے عادی ہیں۔اب ظاہر ہے کہ میں نے یہ سب زچ ہو کر کہا۔لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی تھی کہ محض اس لئے کہ میں نے ایک ناول پڑھا ہے جس میں ایک کردار سیریل قاتل ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے امریکی ایسے ہیں۔اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس طالب علم سے بہتر تھی بلکہ اس لئے کہ امریکہ کی سماجی اور معاشی طاقت کے بارے میں میں نے امریکہ کی بہت ساری مختلف کہانیاں جان رکھی ہیں۔میں نے بہت سارے دنیا بھر کے لکھنے والوں کو پڑھ رکھا ہے تو میں محض ایک واحد کہانی نہیں جانتی۔
کچھ سال پہلے جب مجھے پتا چلا کہ اکثر سمجھا جاتا ہے کہ اگر مصنفین کو کامیاب ہونا ہے تو ان کا بچپن بہت بدصورت ہونا چاہیے۔تو میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں اپنی ذندگی میں کسطرح وہ زیادتیاں ایجاد کروں جو میرے والدین نے میرے ساتھ کیں۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ میرا بچپن بہت خوشگوار تھا۔ایک بہت چھوٹے سے خاندان میں مزے اور محبت سے بھرا۔لیکن میرے دادا ایک مہاجر کیمپ میں وفات پا گئے تھے،میرا کزن پولی مناسب صحت کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے وفات پا گیا تھا،میرا ایک قریبی دوست اوکلامہ ایک جہاز کے کریش میں فوت ہوا کیونکہ ہمارے ہاں آگ بجھانے والے ٹرکوں میں پانی نہیں ہوتا تھا۔میں ایک فوجی حکومت کے دور میں پلی جو تعلیم کو اہمیت نہیں دیتی تھی چناچہ بعض اوقات میرے والدین کو تنخواہیں نہیں ملتی تھیں۔ ایک بچی کے طور میں نے دیکھا کہ ناشتے کی میز سے جیم غائب ہوگئی۔پھر مارجرین غائب ہوا، بریڈ بہت مہنگی ہو گئی ، دودھ کم ہونے لگا۔اور ایک غیر محسوس قسم کا سیاسی خوف ہمیشہ ہماری ذندگیوں میں پھیلا رہتا تھا۔میں آج جو بھی ہوں مجھے انہیں سب چیزوں نے مل کر بنایا ہے۔لیکن اگر صرف ان بری کہانیوں پر ہی توجہ مرکوز رکھی جائے تو میرے مکمل سچ کو نامکمل کر دیا جائے گا،اور میرے ایسے دوسرے تجربات کو نظرانداز کیا جائے گا جنہوں نے مجھے بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ایک واحد کہانی سٹیریو ٹائپس بناتی ہے اور سٹیریو ٹائپ کے ساتھ مسلئہ یہ نہیں ہے کہ یہ جھوٹ ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ نامکمل ہیں۔یہ صرف ایک ہی پہلو کو مکمل کہہ کر کے دکھاتے ہیں۔
بلاشبہ افریقہ ایک تباہی سے بھرا براعظم ہے کچھ بہت ذیادہ تشویشناک ہیں جیسے کانگو میں ہونے والے اذیت ناک ریپ اور کچھ پریشان کن ہیں ہیں جیسے نائجیریا میں پانچ ہزار لوگوں کے لئے صرف ایک نوکری ہے لیکن وہاں پر ایسی باتیں بھی ہیں جو قیامت خیز نہیں ہیں اور یہ بہت اہم ہے کہ ان کے بارے میں بات کی جائے۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت مشکل ہے کہ کسی جگہ یا کسی فرد کو بغیر اس کے تمام پہلو دیکھے اور جانے بغیر مکمل جان لیا جائے ۔صرف ایک پہلو / کہانی جاننے کا نتیجہ انہیں بے وقار کر دیتا ہے۔اس سے ہمیں اپنے آس پاس کے لوگوں کو پہچاننے میں مشکل ہوتی ہے۔یہ ہمارے اختلافات کو اجاگر کرتی ہیں جبکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کس قدر ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں!
تو اگر اپنے میسکیو ٹرپ سے پہلے میں امیگریشن سے متعلق امریکی اور میکسیکن دونوں طرف کا نکتہ نظر لے لیتی تو کیسا ہوتا! کیسا ہوتا اگر میری ماں مجھے بتاتی کہ فیڈے کا خاندان غریب ہے مگر محنت کش بھی ہے۔کیسا ہو اگر ہمارے پاس افریقہ کا ایک ایسا ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہو جو پوری دنیا میں افریقہ کی ذندگی کے پہلے سے مختلف پہلو اجاگر کرے۔ نائجیرئن رائیٹر چینوئے چیبو کے مطابق “کہانیوں کا توازن” آخر کیا ہے؟
۔۔۔کیسا ہو اگر میری روم میٹ میرے نائجیرین پبلشر مختار باکرے کو جانتی،ایک ایسا غیر معمولی انسان جس نے بینک میں اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنے خوابوں کی تکمیل کی خاطر ایک پبلشنگ ھاوس شروع کیا۔اب روایتی سوچ تو یہی کہتا ہے کہ نائجیرین ادب نہیں پڑھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس سے اتفاق نہیں کرتا ۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر لوگ ادب پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ ضرور پڑھیں گے بشرطیکہ ان کو آسانی سے ادب خریدنے کا موقع ملے گا۔میرا پہلا ناول چھپنے کے فورا بعد میں لیگس میں ایک ٹی وی انٹرویو کے لئے گئی تو ایک خاتون جو وہاں ایک قاصد کے طور پر کام کرتی تھیں میرے پاس آئیں اور بولیں:
مجھے آپ کا ناول بہت اچھا لگا مگر مجھے اس کا انجام پسند نہیں آیا!__اب آپ کو ضرور اس کا اگلا حصہ لکھنا چاہیے جس میں یہ یہ ۔۔۔ہونا چاہیے!”اور وہ مجھے بتاتی رہی کہ مجھے اگلے حصے میں کیا لکھنا ہے۔مجھے اس خاتون نے بہت متاثر کیا۔کیونکہ وہ ایک عام نائجیرین عورت تھی جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ادب نہیں پڑھتے۔اس نے نہ صرف ناول پڑھا بلکہ اس کو اپنا سمجھ اس کے بارے میں ہدایات بھی دیں۔
اب اگر میری روم میٹ کو میری دوست فومی لنڈا کا پتا ہوتا جو ایک بہادر عورت ہے اور لیگس میں ٹی وی شو کرتی ہے اور وہ کہانیاں بتاتی ہیں جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔
اگر میری روم میٹ کو اس ہارٹ سرجری کا پتا چلے جو لیگس کے ہسپتال میں پچھلے ہفتے کی گئی؟ اگر اسے جدید نائجیرین موسیقی کا علم ہو جس میں پڑھے لکھے لوگ انگلش اور پیجن میں گاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
کیسا ہو اگر میری روم میٹ اس خاتون وکیل کو جانتی جو حال ہی میں کورٹ گئی ہے ایک ایسے عجیب قانون کو چیلنج کرنے جس کے مطابق خواتین کو اپنے پاسپورٹ رینووکرنے کے لئے اپنے شوہروں کی رضامندی کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر میری روم میٹ کو نولی وڈ کا پتا ہوتا جس میں ایسے تخلیقی لوگ بھرے ہوئے ہیں جو تکنیکی مشکلات کے باوجود اچھی فلمیں بناتے ہیں۔ایسی فلمیں جو اتنی مشہور ہیں کہ وہ در حقیقت اس کی صحیح مثال ہیں کہ نائجیرین اپنی صلاحیتوں کااچھی طرح استعمال کرتے ہیں!
کیسا ہو اگر میری روم میٹ کو میری حیران کن شخصیت کی مالک بیوٹیشن کا پتا ہو جس نے ابھی لمبے بال بیچنے کا اپنا بزنس شروع کیا ہے۔یا پھر ان ہزاروں نائجیرین کا جنہوں نے کاروبار شروع کیا اور بعض اوقات ناکام ہو گئے لیکن انہوں نے خواب دیکھنے نہیں چھوڑے۔
میں جب بھی اپنے ملک لوٹتی ہوں مجھے ہمارے ناکام نظام اور ہماری ناکام حکومت دیکھ کر شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن مجھے اپنے لوگ کی وہ تندی بھی نظر آتی ہے جس سے وہ ناکام سرکار کے باوجود بلکہ بعض اوقات اسی وجہ سے وہ کوشس کرتے ہیں۔
میں ہر موسم گرما میں لیگس میں لکھنے کی ورکشاپ کرواتی ہوں اور میرے لئے اسقدر حیران کن بات ہے کہ کتنے لوگ اس میں داخلہ لینے آتے ہیں۔کتنے لوگ لکھنے کو اور کہانیاں سنانے کو بے چین ہیں۔میرا نائجیرین پبلشر اور میں نے مل کر ایک نان پرافٹ ٹرسٹ فارافیںا کے نام سے قائم کیا ہے۔ہم نے نئی لائبریریاں بنانے اور جو پہلے سے موجود ہیں ان کی تعمیر نو کےبڑے بڑے خواب دیکھ رکھے ہیں ۔ہم نے ریاستی سکولوں میں کتابیں مہیا کرنے (جن کی لائبریریوں میں کچھ نہیں ہوتا)اور اس کے ساتھ ہم نے بہت سی لکھنے اور پڑھنے کی ورکشاپ کروانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو کہانیاں سنانا چاہتے ہیں۔کہانیوں سے بہت فرق پڑتا ہے۔بہت سی کہانیاں بہت سا فرق ڈال دیتی ہیں۔۔کہانیاں بے دخل اور بدنام کرنے کے لئے استعمال کی گئی ہیں۔لیکن انہی سے طاقت اور انسانیت پھیلائی بھی جا سکتی ہے۔کہانیوں سے دوسری قوموں کو بے وقار بھی کیا جا سکتا ہے اور اسی بے وقار قوم کو پھر سے عزت بھی دی جا سکتی ہے۔امریکی رائیٹر ایلس واٹر نے اپنے ایک رشتہ دار کے بارے میں لکھا جب وہ جنوبی علاقے سے شمالی علاقے میں شفٹ ہوا اور اس نے جنوب کی ذندگی جسے وہ پیچھے چھوڑ گیا تھا کے بارے میں ایک کتاب متعارف کروائی ۔
“وہ بیٹھے اور کتاب پڑھنے لگے،یا میری زبان میں اسے سننے لگے اور ذندگی پھر سے جنت لگنے لگی۔”
میں اس لائن پر اختتام کروں گی کہ جب ہم واحد کہانی سننےکو مسترد کر دیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی جگہ کی صرف ایک کہانی نہیں ہو سکتی اور یہی ہمیں ہماری کھوئی ہوئی جنت واپس دلا دیتی ہے۔
نائجیرین رائیٹر شیماماندا نگوشی ایڈیشی کی ٹیڈ ٹاک میں گفتگو
ترجمہ و تلخیص:
صوفیہ کاشف
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...