داستان ساغرصدیقی
ساغر صدیقی جدید اردو ادب کے شاعر تھے،نئے زمانے کی شاعری کرتے تھے ،جس زمانے میں ساغر صدیقی نے شاعری شروع کی ،اس وقت جدید اور ترقی پسند ادب و شاعری کی جڑیں بہت گہری ہو چکی تھی ،اس لئے ساغر کی شاعری میں جدیدت اور ترقی پسندیت نظر آتی ہے۔ساغر 1928 میں مشرقی پنجاب کے علاقے انبالہ میں پیدا ہوئے ،،ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ،ماں کا تعلق دلی اور باپ کا پٹیالہ سے تھا۔غریب گھرانے سے تعلق تھا ،اس لئے بچپن میں چند درجے ہی تعلیم حاصل کر سکے ۔اس زمانے میں ان کے پڑوس میں ایک انسان رہا کرتے تھے جن کا نام حبیب حسن تھا ،عالم و فاضل انسان تھے ،اس لئے ساغر ان سے تعلیم و تربیت لیتے،کہا جاتا ہے کہ جب ان کی عمر سات سے دس برس کے درمیان تھی ،اس وقت سے ہی انہوں نے مشاعروں میں شاعری پڑھنا شروع کردی ۔انبالہ میں غربت سے تنگ آگئے تو پندرہ برس کی عمر میں محنت و مزدوری کے لئے امرتسر چلے گئے ۔اب محنت مزدوری کرتے ،جہاں کام ملتا ،وہ سوجاتے ،لیکن شعر بدستور کہتے رہے ،اب چند غریب دوست تھے ،انہیں شعر سناتے ،اپنا تخلص ناصر حجازی رکھ لیا ،بعد میں تخلص بدلا اور ساغر صدیقی ہو گئے ۔سولہ سال کی عمر میں انیس سو چوالیس میں امرتسر میں اس بچے نے ایک مشاعرے میں اپنی غزل پڑھی اور پھر کیا تھا ہر طرف سے بھرپور داد ملی ۔سمجھ لیں ساغر نے مشاعرہ لوٹ لیا ۔یہی سے دنیائے ادب میں ان کی پہچان بننا شروع ہوئی ۔اب فنی سفر کا آغاز ہو چکا تھا ،مزدوری چھوڑ دی ،باقاعدہ شعر و شاعری شروع کردی ۔لطیف انور گرداسپوری سے شاعری کے حوالے سے تربیت حاصل کی ۔1947 میں ہندوستان تقسیم ہو گیا ،پاکستان کی تخلیق ہوگئی ،ساغر اب امرتسر سے لاہور آگئے ۔اب ان کی عمر 19 سال تھی ۔داتا کی نگری میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔ان کا کلام اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونے لگا۔وہ مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بن گئے تھے ۔اب ساغر بیس سال کا تھا ،خوبصورت نوجوان ،جس کے لمبے سنہرے گھنگریالے بال تھے ،لمبا قد ،حسین آنکھیں ،کھلتا رنگ ،خوبصورت باتیں ،حسن و جوانی ،ناز و انداز ،یہ تھے ساغر صدیقی جنہیں جنہیں اردو شاعری کا شہزادہ کہا جاتا تھا ،وہ دنیائے ادب کے شہزادے بن گئے تھے ۔اب وہ بھارت اور پاکستان کے فلم سازوں کی فلموں کے لئے گانے لکھ رہے تھے ،وہ نغمے مشہور بھی ہورہے تھے ۔پچاس کی دہائی کے اوائل میں محمد رفیع نے ایک گانا گایا تھا جو بہت مقبول ہوا،گانا تھا ،میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی ،مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا ۔یہ ساغر کی عزت اور شہرت کا زمانہ تھا ۔1947 سے 1952 تک کا زمانہ ساغر صدیقی کا سنہری دور تھا ۔یہ زمانے انہیں کامیابی ،شہرت ،اور دولت کی بلندیوں پر لے جانے والا تھا ۔کاش ایسا ہوتا ،لاابالی طبعیت تھی ،لاہور میں رہنے کے لئے ایک گھر تک نہ بنایا ،انہیں کہا گیا کہ متروکہ جائیداد کا دعوی کرکے مفت گھر حاصل کر لیں ،کہا کہ وہ جائیدار ترک کرکے نہیں آئے تھے ،اس لئے گھر نہیں لیں گے ۔سسٹی ہوٹلوں میں رہتے تھے ،کرائے کے کمروں میں رہائش اختیار کرتے ،کھانا بازار سے کہیں بھی مل جاتا ،کھا لیتے ،اپنا خیال کبھی نہ رکھا ۔پھر بھی زندگی اچھی گزر رہی تھی ،لیکن پھر حالات بدلنے لگے ،کہا جاتا ہے 1952 میں ایک ادبی مہانامے کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ شدید سردرد ہوا،درد سے نجات کے لئے معرفین کا کسی نے انجیکشن لگادیا ۔سردرد تو ختم ہو گیا ،لیکن نشے سے آشنا ہو گئے ۔اوپر سے بدقسمتی دیکھیں کہ جس دوست فوٹو گرافر کے ساتھ کرائے کے کمرے میں رہتے تھے ،وہ ہر قسم کا نشہ کرتا تھا ۔شراب ،افیون ،چرس ،بھنگ وہ سب نشے کرتا تھا ،ساغر بھی اسی راستے پر چل نکلے ۔ا سلئے ساغر شکستہ کھنڈر بنتے چلے گئے ۔اب ہوش و حواس میں شاعری کررہے تھے ،لیکن زمانے کی ستم ظریفیاں ان کا مقدر بن گئیں تھی۔دوستوں نے آنکھیں پھیر لی ،دوستوں کے ظلم وستم سہہ رہے تھے ۔انہیں محسوس کررہے تھے ،لیکن خاموش تھے ۔کبھی شکوہ نہیں کیا ۔اب ان کی شاعری دکھ کی آواز بن گئی تھی ۔ان کے کلام میں بہت نغمگی تھی ،اس لئے ان کے کلام کو جس نے بھی گایا وہ مشہور ہو گیا اور خوب دولت سمیٹی ،لیکن ساغر کی حالت بدترین تھی ۔عزیر میاں قوال کی گائی گئی مشہور قوالی،کون بشر ہے اللہ جانے ،ان کی تحریر کردہ ہے ۔اسی طرح نصرت فتح علی خان کی آواز میں یہ غزل تو سب نے سن رکھی ہوگی ،میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا ،یہ بھی ساغر صدیقی کی غزل ہے ۔استاد غلام علی نے تو ساغر صدیقی کے غزلوں کی مکمل کیسٹ ریلیز کی ۔ان تمام گلوکاروں کو معاوضے ملتے ،لیکن ساغر کو کوئی پیسہ نہ ملا ۔ریڈیو پر ساغر کے لکھے گانے چل رہے ہوتے اور ساغر لاہور کی سڑکوں پر بھیک مانگ رہا ہوتا ،یہ تھا وہ کرب جس کا وہ شکار تھے ۔اب وہ داستان عبرت بن گئے تھے ۔اب ساغر صدیقی نشے کی علت پوری کرنے کے لئے بلیک میل ہورہا تھا ،لوگ ان سے غزل اور نظم لکھواتے ،اور نشہ لیکر دیتے ،فلمساز ان کے گانوں سے پیسہ کمارہے تھے ،لیکن ساغر لاہور کی سڑکوں پر بدحال تھا ۔لوگ ان کے کلام کو جمع کرکے چھپوا رہے تھے اور پیسے بٹور رہے تھے ۔ساغر نظم اور غزل کا عظیم شاعر ہے ،جس نے کبھی بھی اپنی شاعری میں کسی فلسفے کی تبلیغ نہیں ،غم پسندی ،حسن و عشق ،ان کی شاعری کے موضوعات ہیں ۔ساغر نے وطن سے محبت کی خاطر غیر سرکاری قومی ترانہ بھی لکھا تھا ،وہ قومی ترانہ ایک زمانے میں سینما گھروں میں دیکھایا اور سنایا جاتا تھا ،بیس سال تک لوگ ساغر کو ایک ملنگ ،درویش ،مجذوب اور پاگل کہتے رہے ،لیکن ان کا کلام کہیں سے بھی کسی دیوانے کا کلام نہیں لگتا ۔بھاٹی،لوہاری،داتا دربار،میکلوڈ روڈ گوال منڈی میں وہ خون تھوک رہا تھا ،وہ جس نے عظیم گیت لکھے ،وہ اب مررہا تھا ،جانے کیسا سفر ہے میرا ،جہاں ہے منزل وہی لٹیرا ۔اب پڑھے لکھے لوگ ساغر کو نشے کی پوریا ،بھنگ ،چرس اور شراب اس شرط پر دیتے کہ وہ انہیں نظم یا غزل لکھ کردیں گے ،ساغر انہیں لکھ کر دیتا اور وہ اپنے نام پر چھپواتے ۔سب نے آنکھیں پھیر لی تھی ۔ساغر اب مکمل طور پر نشے کی پناہ میں تھا ۔وہ نوجوان جو حسین و جمیل تھا ،اب اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔جسم پر میلے کچیلے بدبودار کپڑے تھے ۔میلی سی چادر میں لپٹا یہ شاعر ننگے پاوں لاہور کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں گھوم رہا تھا ۔اس کے ہاتھ میں سگریٹ تھے ۔اور زمانے پر وہ مسکرارہا تھا ۔کہتے ہیں اسی زمانے میں ایک کتا بھی ان کا رفیق بن گیا تھا ،اب وہ جہاں جاتے ،وہ کتا بھی ان کے ساتھ ہوتا ۔ایک حسین اور حساس شاعر اس دنیا میں ایک کتے کے ساتھ رہ رہا تھا ۔عمر اب 46 برس تھی ،دن تھا 19 جولائی سال تھا 1974 جب صبح لوگوں نے دیکھا کہ لاہور کی ایک سڑک کے کنارے پر ساغر کی لاش پڑی ہے ۔زمانے کے ظلم نے عظیم شاعر کو برباد کردیا ،وہ جو اپنی شاعری ترنم سے پڑھتا تھا ،وہ جو ہر دور کا شاعر ہے ،وہ جو خوش پوش نوجوان تھا ،وہ جو بوسکی کے ملبوسات پہنتا تھا ،وہ جو دلچسپ باتیں کرتا تھا ،اس کی لاش سڑک کنارے ملی ،یہ ہے ہمارا سماج جس پر ہم فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اشر ف المخلوقات سمجھتے ہیں ۔وہ جس کا سینا امنگوں اور حوصلوں سے بھرا تھا ،اس سماج نے اسے سڑک کے کنارے جانور سے بھی بدترین موت دیدی ۔اس سماج نے ہی اسے اس مقام تک پہنچایا تھا ۔وہ اپنی زات میں سمٹتا چلا گیا اور دور ہو تا چلا گیا ،یہاں تک کے ایک آوارہ کتے نے اسے اپنا دوست بنا لیا تھا ۔کتے کو بھی انسانیت کی شناخت تھی ،لیکن انسانوں نے اسے کتے کی موت دی ۔سوال یہ ہے کہ وہ تو اپنی زات کو تسخیر کر گیا ،لیکن ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ان کی ایک نظم سنا دیتا ہوں،کہتا ہے ،بات پھولوں کی سنا کرتے تھے ،ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے ،مشعلیں لے کے تمہارے غم کی ،ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے ،اب کہاں ایسی طبعیت والے ،چوٹ کہا کر جو دعا کرتے تھے ،بکھری بکھری زلفوں والے قافلے روک لیا کرتے تھے ،آج گلشن میں شگوفے ساغر ،شکوے باد صبا کرتے تھے ۔میلی چادر ،نحیف جسم ،چپل سے محروم ،روٹی سے محروم ،دن رات سڑکوں کی خاک،نشے کی لعنت میں غرق،ہم نے ایسے کیسے ہونے دیا ؟کیا کبھی سوچا کہ ہم کتنے ظالم ہیں ؟جس کے شعر سینوں میں سنسنہاہٹ اور دلوں کو گداز بخشتے تھے ،وہ کتے سے بھی بدترین موت کا شکار ہو گیا ؟ساغر کا ایک شعر ہے کہ ۔۔چشم تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں ،دامنوں کا فراغ ہیں ہم لوگ ۔۔۔۔جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی ،اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے ،فقیر شہر نے تہمت لگائی ہے ساغر پر،یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے۔،آو ایک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں ،لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں ۔ایک جگہ ساغر صدیقی اپنے غم کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ۔۔میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا ،غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا ،اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے ،یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا ،ہائے یہ بیگانگی ،اپنی نہیں مجھ کو خبر ،ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں ۔ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں ،میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں ،ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو ،ہم سے کہتے ہیں وہی،عہد وفا یاد نہیں ،زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے ،جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ،میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے ،میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں ،صرف دھندلاتے ستارے کی چمک دیکھی ہے ،کب ہوا،کون ہوا،مجھ سے جدا ،یاد نہیں ۔لاش اس کی لاہور کی سڑک کے کنارے ملی ،چند لوگوں نے میانی صاحب قبرستان میں دفنا دیا ۔اب وہاں لنگر خانہ بھی ہے جسے لنگر خانہ ساغر صدیقی کہتے ہیں ۔وہ جو روٹی کے لئے ترستا رہا ،اب لنگر خانہ اس کے نام کا بن گیا ہے ،معلوم نہیں ہم کیسی قوم ہیں جو مرنے کے بعد تو بڑا احترام دیتے ہیں ،لیکن وہ انسان زندہ ہو تو اسے کتے کی موت سے نوازتے ہیں ؟ساری زندگی اس نے فٹ پاتھوں پر تکلیف دہ زندگی گزاری ،بیس سال تک وہ اس کیفیت میں رہا ،کسی کو احساس تک نہ ہوا ،یہ ہیں ہم ،یہ ہے ہمارا حقیقی گھناونا چہرہ؟ساغر صدیقی کا آخر میں ایک شعر سنا کر کہانی ختم کرتا ہوں ،کیونکہ اب لفظ میرا ساتھ چھوڑنے لگے ہیں ،میری آنکھوں میں آنسو ہیں ،شعر پیش خدمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھنا ہماری تربت کو ۔۔۔۔۔۔۔۔قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا ۔۔۔۔۔۔خدا حافظ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔