داستان ن م راشد
کیا ن م راشد فیض احمد فیض سے بڑا شاعر اور فلسفی تھا؟
ن م راشد یکم اگست 1910 کو گجرانوالہ کے ایک قصبے علی پور چٹھ میں پیدا ہوئے ۔پاکستان کے قیام سے پہلے علی پور چٹھہ کا نام اقال گڑھ تھا ۔راشد صاحب کی پیدائش کے وقت اس قصبے کی آبادی تین ہزار تھی ۔اس قصبے میں ایک خاندان رہتا تھا جس کا تعلق جنجوعہ زات سے تھا ۔راشد صاحب اسی خاندان کے ایک فرد فضل الہی کے گھر پیدا ہوئے ۔فضل الہی محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے ۔ان کے ایک بیٹے کا نام نزر محمد اور دوسرے کا نام فخر محمد تھا ۔نزر محمد بعد میں راشد صاحب کی شکل میں اپنی شعری صلا حیتوں کے زریعے جدید اردو ادب کی دنیا میں چھا گئے ۔راشد صاحب کی شاعری عام پسند شاعری نہیں ہے ،اس شاعری میں روائیتی اور معانوی اعتبار سے انحراف پایا جاتا ہے۔یہ ایسا نحراف یا بغاوت ہے جسے سمجھنا یا قبول کرنا آسان نہیں ۔اردو ادب کے شعری افق پر راشد صاحب کا ظہور ایک ایسی گونج اور ارتعاش ہے کی یاد دلاتا ہے جو ان کی پہلی کتاب ماورا کی اشاعت کے بعد دیکھی محسوس کی جاسکتی ہے۔اردو ادب میں اگر ن م راشد کی شاعری کو سمجھنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس گہرا تفکر اور وسیع مطالعہ ہو ،ایسا نہیں تو پھر ن م راشد کو سمجھا نہیں جاسکتا ۔راشد صاحب نے روایات سے انحراف مشکل ترین انداز میں کیا ہے ۔لیکن اس انحراف کی شکل بہت خوبصورت ،دلکش اور معصوم سی ہے ۔اردو شاعری میں راشد کی شاعری کی مثال کلاسیکل موسیقی جیسی ہے جسے سمجھنے کے لئے انسان کا تخلیقی ہونا بہت ضروری ہے۔کہا جاتا ہے کہ ن م راشد کے والد کا شاعرانہ زوق بھی ن م راشد کے بہت کام آیا ۔مطلب راشد صاحب کا شاعرانہ زوق بہت ہی اچھا تھا ۔راشد کا غالب سے تعلق اپنے والد کے مرہون منت تھا ۔راشد نے ابتدائی تعلیم علی پور چٹھہ میں حاصل کی ،یہی سے انہوں نے 1926 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ،1928 میں راشد نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان گورنمنٹ کالج لائل پور سے پاس کیا ۔انٹر میڈیٹ میں ان کے نصاب میں انگریزی،اردو ،فلسفہ تاریخ اور فارسی کے مضامین تھے۔انٹرمیڈیٹ کے دوران ان کا شعری سفر جاری رہا ۔انہوں نے انٹرمیڈیٹ میں کالج کے رسالے بیکن میں ایڈیٹر کی حیثیت سے نظموں کے ساتھ ساتھ کچھ مضامین انگریزی زبان میں بھی لکھے۔انٹر میڈیٹ کے بعد راشد صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں آگئے ،جی ہاں وہی گورنمنٹ کالج لاہور جو اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کہلاتا ہے۔اس کالج میں راشد صاحب نے بی ائے میں داخلہ لیا ۔بی ائے میں انگریزی ،اقتصادیات اور فارسی ان کے مضامین تھے ۔بعد میں اسی کالج میں اقتصادیات کی ڈگری حاصل کی ۔راشد صاحب کو گورنمنٹ کالج لاہور سے والہانہ محبت تھے ،اس کالج کے ادبی اور دانشوارانہ ماحول نے راشد صاحب کی تخلیقی سرگرمیوں میں کمال نکھار پیدا کیا ۔اان دنوں وہ کالج کے مشاعروں میں باقاعدگی سے حصہ لیا کرتے تھے ۔آزاد نظم کی ابتداٗ انہوں نے یہی سے کی ۔مشاعروں میں کمال شاعری پر انہیں کئی انعامات سے نواز گیا ،کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت کالج کی ادبی فضاٗ کے خوبصورت شہزادے کا درجہ حاصل کر چکے تھے ۔گورنمنٹ کا لج کے معروف رسالے راوی کے اردوحصے کے وہ ایڈیٹر رہے۔گورنمنٹ کالج لاہور کا ماحول نذر محمد کو راشد بنا گیا ۔معروف ادبی شخصیت پطرس بخاری اس وقت گورنمنٹ کا لج لاہور میں ان کے استاد تھے جو ہر وقت راشد صاحب کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے ۔پطرس بخاری کی کالج میں اردو مجلس ہوا کرتی تھے ،جس میں ن م راشد باقاعدگی سے شامل ہوتے ۔وہ راوی رسالے کے پہلے نائب ایڈیٹر اور بعد میں ایڈیٹر بن گئے ۔یہ وہ کالج تھا جس سے راشد کا مرتے دم تک تعلق رہا ۔اس زمانے میں راشد صاحب کی ایک خواہش تھی ،جس کا اظہار وہ اپنے پرانے دوست عبداللہ حسین سے بار بار کرتے تھے ۔عبداللہ حسین کہتے ہیں کہ راشد کی خواہش تھی کہ ایک زمانہ آئے جب اسی کالج میں ان کے نام کی ایک تختی لگ جائے ۔ان کی یہ خواہش بعد میں پوری بھی ہو گئی ہے۔آج گورنمنٹ کا لج لاہور میں ان کے استعمال کی نایاب چیزیں محفوظ ہیں ۔،ان اشیاٗ کے ساتھ ساتھ دیوار پر وہ تختی بھی آویزاں ہے جس پر راشد صاحب کا نام لکھا ہوا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ ان کا پسندیدہ ترین ٹائپ رائیٹر بھی موجود ہے جو ان سے پہلے ہندوستان کے عظیم افسانہ نگار منٹو کے زیر استعمال تھا ۔راشد نے آزاد نظم میں تخلیقی شعری ادب تخلیق کیا ،ہندوستان میں جدید آزاد نظم کے وہ سب سے بڑے شاعر کہلاتے ہیں ۔راشد شعری ادب میں بھی اپنے خیال کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ان کے نزدیک شاعری میں یہ اہم نہیں کہ پیرایہ کیسا ہے ،پیمانہ کیسا ہے ؟شعر میں وزن ہے یا نہیں ہے ،ردیف ،قافیئے کے ساتھ ساتھ نظم میں خیال میں تنظیم رہے ،یہ سب سے اہم چیز ہے ۔راشد کی آزاد نظم میں ترتیب،تنظیم اور خیال کی موسیقیت تخلیقی انداز میں آگے بڑھتی رہتی ہے ۔وہ شاعری کے وزن کو بھی قائم رکھتے ہیں اور خیال کی سالمیت اور اہمیت کو بھی رقص کی سی کیفیت کے ساتھ آگے بڑھاتے رہتے ہیں ۔راشد کے نزدیک خیالات کے اظہار کا بہترین زریعہ جدید آزاد نظم ہے ۔راشد نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اردو ادب میں آزاد نظم کا انتخاب کیا ۔انہوں نے اردو میں اپنی آزاد نظم 1925 میں تحریر کی تھی ،اس نظم کا نام تھا جرات پرواز ۔اردو ادب میں جس شاعر نے آزاد نظم کو تعمیر کیا ،اس کی نشوونما کی اور اسے ترقی کی منزل تک پہنچایا ،ان کا نام ہے ن م راشد ۔راشد نے آزاد نظم کو اپنی باطنی اور اندرونی ضرورت کی خاطر بھرپور استعمال کیا ۔ان کی شاعری اپنے اظہار کے لئے خود بھاگ کر آزاد نظم کے پاس پہنچی ،کیونکہ راشد کا خیال اور نظریہ صرف اور صرف آزاد نظم میں ہی پناہ لے سکتا تھا ۔ن م راشد کسی صورت بھی یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ شاعری کے دوران ان کا خیال ڈسٹرب ہو ۔ان کا خیال ان کی زات کا بہترین عکاس تھے ۔اپنی زات کے احساس کو وہ ہمیشہ اہمیت دیتے تھے ،اس لئے اردو ادب میں انہوں نے اس پیرائے کا استعمال کیا جو ان کے خیال کے ساتھ لو آفئیر کر سکے ۔وہ شبدوں کی خاطر تھوڑی دیر بھی نہیں رکتے تھے ۔ان کا خیال موسیقی کے سروں کی طرح رقص کرتا آگے بڑھتا جاتا تھا ۔حسن کوزہ گر ان کی مشہور نظموں میں سے ایک نظم ہے ۔اس میں حسن کوزہ گر ایک باصلاحیت تخلیقی فنکار ہے ،حسن کوزہ گر آئن سٹائن ،کارل مارکس جیسا ہے ۔اس میں کوزہ گری بطور تمثیل استعمال کیا گئی ہے ۔انسانی تخلیقی صلاحیت مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے ،اس تخلیقی صلاحیت کو انہوں نے کوزہ گری کی تمثیل میں استعمال کیا ہے۔اس نظم میں یہ بتایا گیا کہ وہ کیا کیا چیزیں ہیں جو تخلیقی انسان کی راہ میں رکاوٹیں پیداکرتی ہیں ۔1930 میں علامہ عنایت اللہ مشرقی نے خاکسار تحریک کی داغ بیل ڈالی ،راشد کیونکہ ڈسپلن کے قائل تھے ،نظم و ظبط کے قائل تھے ،اس لئے اس تحریک میں شامل ہو گئے ۔پھر کچھ عرصہ بعد راشد اس تحریک سے بددل ہو گئے اور کہا کہ ایسی تحریکیں صرف آمریت اور امروں کو جنم دیتی ہیں ،تخلیقیت کی دشمن ہوتی ہیں ،اس لئے تخلیقی انسانوں کو اس طرح کی تحریکوں میں حصہ نہیں لینا چاہیئے۔1935 میں راشد کی شادی ان کی ایک رشتہ دار کزن سے کردی گئی ،جنکا نام صفیہ تھا ۔یہ شادی والد کی خواہش پر راشد نے کی ۔صفیہ سے راشد کے پانچ بچے ہوئے ۔شادی کا یہ تجربہ ان کے لئے اچھا ثابت نہ ہوا ۔1939 میں دوست کو لکھے گئے ایک خط میں شادی کے نظریئے پر بات کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ان کا شادی کا تین سال کا تجربہ ہو چکا ہے ،جو ناخوشگوار رہا ہے ،شادی برے آدمیوں کے لئے یقینا اچھی ہے ،لیکن اچھے آدمیوں کے لئے یقینا اچھی نہیں ،میں اپنے آپ کو ایک اچھا آدمی سمجھتا ہوا۔کہتے ہیں شادی کے ابتدائی دن بڑے خوشگوار ہوتے ہیں ،لیکن بعد کی روٹین توبہ ۔یہ تھا راشد کا شادی کے بارے میں نظریہ ۔راشد نے صرف شاعری کو روزگار کا زریعہ نہیں بنایا بلکہ بیشمار نوکریاں کی ۔انہوں نے پہلی نوکوی ملتان میں بطور کلرک کے طور پر کی،1939 سے 1943 تک وہ آل انڈیا لاہور اور آل انڈیا دلی کے ساتھ وابستہ رہے۔1943سے 1947 تک اپبلک سروسز ڈائرکٹریٹ انڈیا میں پبلک ریلشن آفیسر کے طور پر کام کرتے رہے ۔1947 کے بعد ریڈیو پاکستان کا حصہ بن گئے ۔1951 سے 1956 کے دوران اقوام متحدہ ہیڈ کواٹر میں انفارمیشن آفیسر رہے ،اس کے بعد اقوام متحدہ میں ہی مختلف عہدوں پر انڈونیشاٗ ،امریکہ اور ایران میں کام خدمات سرانجام دیتے رہے ۔1974 میں ڈائریکٹر یواین انفارمیشن کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے ،اس وقت وہ ایران میں کام کررہے تھے ۔آیئے اب ان کے کچھ شعری مجموعوں پر بات کر لیتے ہیں ۔ان کے تخلیقی شعری سفر کے کل چار مجموعے شائع ہوئے ۔ادبی شعری سفر کے چار پڑاو بڑے ہی دلچسپ ہیں ۔شعری مجموں میں ایک ماورا ہے ،پھر ایران میں اجنبی ،لا مساوی انسان اور گماں کا ممکن ۔ان چاروں مجموعوں میں ان کےفلسفیانہ انداز کے ارتقاٗ کی کھوج آسانی سے لگائی جاسکتی ہے۔ماورا اور ایران میں اجنبی ،اگر پڑھیں تو لگتا ہے کہ ان کے خیالات مین سادگی ہے ،کہیں پیچیدگی نظر نہیں آتی ۔لامساوی انسان اور گماں کا ممکن ،ان شعری مجموعوں میں فلسفہ تفکر ،مختلف خیالات و نظریات ہیں جنہیں پیچیدہ انداز سے پیش کیا گیا ہے۔گماں کے ممکن میں اس دور کے تصور مذہبیت ،معاشرت اور سیاست پر بات کی گئی ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ ان کو ٹھیک کرنا ممکن نہیں ۔راشد کے ہاں ارتقاٗ کا جو سفر دیکھائی دیتا ہے ،وہ کسی اور شاعر کے تخلیقی سفر میں دیکھائی نہیں دیتا ۔ان کا تیسرا مجموعہ لامساوی انسان ہے ۔اس میں وہ کہتے ہیں کہ یہ سفر لوگوں کو الجبرائی لگے گا ،کہتے ہیں لامساوی انسان سے مراد ان کی یہ ہے کہ زندگی کی مساوات میں انسان ایک گمشدہ حصہ ہے ۔اس مجموعے مین زمین سے لیکر آسمان تک جو مسائل ہیں وہ بیان کئے گئے ہیں ۔تمام مسائل کو تخلیقی ہم آہنگی میں بیان کیا گیا ہے۔اب ان کے تنقیدی مقالات پر بات کر لیتے ہیں ،راشد نے اپنی کتابوں کے جو مقدمے تحریر کئے ہیں وہ بہترین تنقیدی مقالوں کا درجہ رکھتے ہیں ۔قرت العین کے ناول آگ کے دریا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ ناول جدید زہن کی اعلی تخلیق ہے ،جس میں ایک طرف نئی دنیا کا فکر و شعور موجود ہے ،اور دوسری فرف ماضی کے صنم خانوں سے گہری شناسائی کی بات کی گئی ہے ۔کہتے ہیں آگ کا دریا کا موضوع وقت ہے ،جس میں مصنفہ کی زہنی گرفت حیرت انگیز محسوس ہوتی ہے ۔راشد کے کچھ خواب بھی تھے ،آیئے اب ان خوابوں پر بات کر لیتے ہیں ،راشد کے موضوعات سادہ ہیں ،لیکن جس طرح وہ ان موضوعات پر بات کرتے ہیں ،ا س میں خاصی زہنی مشق کا عمل دخل ہے۔کوزہ گری کے زکر سے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بات کی گئی ہے ۔خوابوں کے زریعے راشد نے انسان کے مسائل سلجھانے اور انسان کو جگانے کی بھی بات کی ہے ۔خواب لے لے خواب نظم میں اندھے تخلیق کار کی بات کی گئی ہے ،پرانی تہذیب میں اندھے انسان کو تخلیقی انسان سمجھا جاتا تھا ،کہا جاتا تھا کہ فطرت نے اس کی ظاہری بصارت چھین لی ،لیکن اسے کچھ اور قوتیں عطا فرمادی ،جو اس دور میں تخلیقی سمجھی جاتی تھی ،ان کی نظم اندھا کباڑی میں یہی بات کی گئی ہے کہ ایک ایندھا کباڑی جو خواب بیچتا ہے ،لیکن لوگ خواب لینے کے لئے تیار نہیں ۔مطلب یہ کہ معاشرہ اتنا غیر تخلیقی ہو گیا ہے کہ اس کے اندر تخلیق کا خواب ہی مر گیا ہے ۔اکتوبر 1961 میں راشد صاحب کی پہلی بیوی صفیہ راشد انتقال کر گئیں ،1963 میں راشد نے شیلا انجلینی نامی خاتون سے شادی کر لی ۔شیلا اسکول ٹیچر تھی ،اقوام متحدہ کے عالمی اسکول میں پڑھاتی تھی ،اس شادی کی وجہ سے راشد سے ان کے بچے اور رشتہ دار ناراض ہو گئے ۔کہا جاتا ہے کہ راشد نے یہ شادی جذباتی ضرورتوں کے لئے کی تھی ۔بچوں سے وہ دور رہتے تھے ،لیکن ان سے محبت کرتے تھے ،دوسری شادی کی وجہ سے ان کے بچوں نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ۔اسی حوالے سے ایک دوست کو خط میں کہتے ہیں کہ ماں باپ کی خیریت اسی میں ہے کہ وہ اولاد کے معاملات میں زیادہ دخل نہ دیں ، کیونکہ اب زمانہ ندل گیا ہے ۔بچے خوش رہیں ،بس یہی والدین کی خواہش ہونی چاہیئے ۔یہ درست ہے کہ مرنے کے بعد ن م راشد کو جلایا گیا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے اپنی بیوی شیلا کو وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں جلادیا جائے ۔دس اکتوبر 1975 کو ن م راشد 65 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔راشد صاحب کی وفات کے بعد ان کا جسد خاکی جلادیا گیا ۔ان کے دوست اور معروف ناول نگار عبدللہ حسین کے مطابق راشد صاحب کے نزدیک مردہ انسان کو آگ میں جلانا صاف ستھرا عمل ہے ۔راشد صاحب کو وہ مقبولیت نہیں مل سکی جو فیض کو ملی ،حالانکہ فیض احمد فیض کی نسبت راشد صاحب کے خیالات میں بہت زیادہ پختگی ہے ،بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ راشد فیض کی نسبت بڑا انسان تھا ،فیض کی نسبت راشد کے خیالات میں زیادہ پختگی تھی ۔فلسفی ماہرین کے نزدیک راشد کو سمجھنے کے لئے پختگی چاہیئے ۔اس کے لئے جمود کو توڑنا پرتا ہے ،راشد نے خود کہا ہے کہ مجھے سمجھنا ہے تو جذباتی جمود سے باہر نکلنا ہوگا ،اس کے لئے کو شش کرنی پڑتی ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ۔فیض کی دنیا میں داخل ہونے کے لئے جمود کو توڑنے کی ضرورت نہیں ،اس لئے کہا جاتا ہے کہ راشد فیض سے بڑا شاعر اور فلسفی تھا ۔لیکن جو مقبولیت فیض صاحب کو ملی ہے ،ایسی شہرت راشد کو نہیں مل سکی ۔راشد جس مقبولیت اور عزت و احترام کا حقدار تھا ،اسے وہ حق نہیں مل سکا ،کاش ہم کبھی راشد کو سمجھ سکیں ،عہد فیض سے عہد راشد کا سفر بھی شروع ہو گا ۔فیض کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھل جاتا ہے ،لیکن راشد کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھل نہیں سکتا ،راشد کا دروازہ کھولنے کے لئے بغاوت ،بلوغت اور پختگی کی ضرورت ہے ۔اس لئے راشد کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھولا نہیں جاسکتا ۔راشد کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بہت بڑے پہاڑ پر چڑھنا پڑتا ہے ،جو اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائے ،پھر اسے وہ منظر نصیب ہوتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ۔راشد کے خیالات میں ابہام نظر آتا ہے اور وہ بھی ہر طرح کا ابہام ۔اس لئے راشد کی باتیں آسانی سے سمجھ میں نہیں آتیں ۔ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ راشد کے کہنے کا یہ مطلب ہو سکتا ہے ،یہ نہیں تو پھر یہ معانی ہو سکتے ہیں ۔میر اور غالب کے بعد راشد ہی وہ شاعر اور فلسفی ہیں جو منزل کا پتہ دیتے ہیں ،فیض اس فہرست میں نظر نہیں آتا ،یہ کہنا ہے اردو کے جدید اور لبرل شاعروں اور فلسفیو ں کا ۔۔۔اردو ادب کے فلسفی شاعر کہتے ہیں کہ راشد صاحب کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے دنیا بدل گئی ہے ،جیسے کائنات بدل گئی ہے ۔زہنی فکری اور فلسفیانہ نگاہ سے راشد ایک امیر اور رئیس شاعر تھے ۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری کم علمی راشد تک ہمیں پہنچنے نہیں دیتی ،لیکن فیض تک ہم پہنچ ہی جاتے ہیں ۔گمان کا مکن راشد کی شاہکار نظم ہے ،کبھی موقع ملے تو اس نظم کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرور کو شش کریں ۔اردو شاعری کے بارے میں راشد کہتے ہیں کہ بہت سی اردو شاعری کس کام کی چیز ہے ؟کیا اردو شاعری کا بہترین استعمال آشقانہ خط و کتابت ہے ؟کتنے اردو کے ایسے شعر ہیں جو پڑھنے والے کو اس دنیا میں لے جائیں جہاں وہ پنے آپ کو پرکھ سکے ،اسے فکر اور احساس کی رفعتیں بخشے ۔یہ تھے راشد کے خیالات ،میری بس اتنی سی اپیل ہے کہ کبھی موقع ملے تو راشد صاحب کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش ضرور کریں ،جس دن ن م راشد کی سمجھ آگئی واقعی یہ معاشرہ ندل جائے گا ،دنیا اور کائنات مختلف نظر آئے گی ،مجھے لگتا ہے کہ اب ہم اتنے میچور ہو گئے ہیں کہ ہمیں فیض سے راشد کی جانب سفر شروع کردینا چاہیئے ۔باقی آپ کی مرضی ۔امید ہے آپ سب کو داستان ن م راشد پسند آئے گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔