داستان مصطفی زیدی
پہلے سید مصطفی زیدی کی یہ نظم ،بہ نام وطن،سنیئے ،اس کے بعد اس عظیم انقلابی اور باغی شاعر کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں،ملاحظہ کیجیئے، کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم، وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم، وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم ، وہی تم ، لائق صد تذکرہء و صد تقویم، تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں، پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں، تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی ، تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی ، اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی ، خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی ، آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو ، حَلَفِ ذہن و وفادارئ جاں مانگتے ہو، جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو ، طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو، اپنے دربانوں سے بدتر فُقرا سے مانگو، اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو، مجھ سے پوچھو گے تو خنجر سے عُدو بولے گا، گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا، تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے ، جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے، اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے، سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے، علم نے خونِ رگِ جاںدیا اور نہ مَرا، علم نے زہر کا ہیمانہ پیا اور نہ مَرا، علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو، علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو، عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو، علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسوُ، وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا، جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا، تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں ، عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں ، مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں ، کس کے خرمن کے لیے شعلہء اسرار بنوں ، کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں ، قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں، صُبح ِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے ، سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے ، کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے ، بال ِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے ، یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو، کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو، کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک، کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک، کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک، کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک، دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے ، کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے، بہ وفادارئ رہ وار و بہ تکریمِ علم ، بہ گہربارئ الفاظ صنا دیدِ عجم، بہ صدائے جرس قافلئہ اہلِ قلم، مجھ کو ہر قطرہء خُون ِ شُہدا تیری قسم ، منزلیں آکے پُکاریں گی سفر سے پہلے ، جُھک پڑے گا در ِ زنداں مرے سر سے پہلے، آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست، تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ ممُسلمان کے دوست، نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست، تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست، تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں ، اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں، ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں ، ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں ، گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں ، فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں ، کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی، کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی تو کل پُھوٹیں گی، کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم ، جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم ، رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم ، گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم، زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے، خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے، ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے ، ایک اک خوشئہ گندم تمہیں کیا کہتا ہے ، ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے ، آگ اچھی ہے کہ دستور ِ نمو اچھا ہے ، محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے، تم کو کیا کہہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟، بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو، تمغئہ مکر سے سینوں کو سجانے والوں، کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں ، برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں ، دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ، اپنی آواز کی پلکوں کو جُھکا کر آؤ، کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے ، مصر میں جلوہء یوسف کی دکاں جلتی ہے ، عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے ، بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے ، چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح، زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح، صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں ، پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں ، کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں ، آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں ، اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں ، اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں، تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا ، کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا، کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا ، دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا، اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ، اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ، اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی ، اتنی پرخار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی، کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی ، اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی، اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں ، کس شقی کے یہ تمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں، اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے ، غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے ، درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے ، ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے ، کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھالی تجھ سے، چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے، رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں ، صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں ، اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں ، بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں، ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے، مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے، عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول، بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول، طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول، مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول، آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی ، بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہیں وہ حقیقی مصطفی زیدی جن کی آج ہم بات کرنے جارہے ہیں۔میں مصطفی زیدی کو جدید اردو ادب و شعری کا پہلا باغی اور انقلابی شاعرمانتا ہوں ،کہا جاتا ہے کہ یہ وہ نظم ہے جو ان کے پراسرار قتل کا سبب بنی تھی ،کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے خیالات کی وجہ سے انہیں ایک سازش کے زریعے قتل کیا گیا اور بعد میں اس قتل کو خودکشی کا نام دے دیا گیا ۔10ا کتوبر 1930 کو سید مصطفی حسنین زیدی الہ آباد میں پید ا ہو ئے۔ تیغ الہ آبادی کے قلمی نام سے شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا۔ سترہ برس کی عمر میں زیدی کا پہلا مجموعہ کلام شائع کیا جاچکا تھا ۔ 1952 میں گورنمنٹ کالج لا ہور سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا۔ اسلامیہ کالج کراچی، پشاور یونیورسٹی میں پروفیسر کی زمہ داریاں سر انجام دیں۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پیشہ ورانہ امور کی تربیت کے لیے برطانیہ چلے گئے ۔ پہلےڈپٹی کمشنر بعد میں ڈپٹی سیکرٹری مقرر ہوئے۔ سترہ برس کی عمر میں ان کی شاعری نے اردو ادب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو حیران کر دیا تھا ۔۔
زیدی کے مجموعہ ہا ئے کلام میں ’’روشنی ‘‘۔’’شہر آذر‘‘۔’’مو ج میری صد ف صدف ‘‘۔’’ گریبان‘‘۔’’قبائے ساز‘‘اور ’’ کوہ ندا‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے جرمن خاتون ویرا سے شادی کی، جن سے ان کے دو بیٹے ہوئے۔ مصطفی زیدی کی موت کے بعد ویرا زیدی اپنے وطن جرمنی واپس چلی گئیں۔مشہور زمانہ نظم بہ نام وطن ان کے مجموعہ کلام شہر آذر میں موجود ہے،ان کا یہ مجموعہ کلام 1953 میں شائع ہوا تھا ۔مصطفیٰ زیدی جب گوجرانوالہ میں بطور سرکاری ملازم زمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے تو یہیں پر ان کی ملاقات شہناز گُل نامی خاتون سے ہوئی ۔۔۔۔۔ شہناز گل مصطفےٰ زیدی کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کی تنہائیوں کی ساتھی تھیں ۔۔زندگی کے آخری پر اسرار لمحات زیدی صاحب نے کیسے گزارے ،یہ سب کچھ صرف شہناز گل ہی جانتی تھی ۔۔
بدترین فوجی آمروں میں ایک آمر یحییٰ کا دور تھا۔ یحیی نے فوجی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں 303 افسران کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا۔ مصطفی زیدی بھی ان میں سے ایک تھے جنہیں اعلی ملازمت سے فارغ کیا گیا،اب زیدی اعلی بیوروکریٹ نہ رہے، ویرا زیدی اور بچے پہلے سے ہی جرمنی میں تھے، پاسپورٹ فوجی حکومت نے ضبط کر رکھا تھا، ایسی صورتحال میں ارب پتی دوست فیاض ملک نے اپنے بنگلے کی انیکسی مصطفی زیدی کے حوالے کردی اور کہا زیدی صاحب یہ انیکسی آپ کی ہے۔ اسی انیکسی میں شہناز گل اور زیدی صاحب کی ملاقاتیں ہوتی تھی ،محبت و عشق اور راز و نیاز کی سارے سلسلے اسی انیکسی سے جڑے تھے ۔پھر ایک دن ایسا آیا جب مصطفی زیدی نے کراچی کی ایک شاہراہ پر سگنل پر رکی ایک عالیشان کار میں دیکھا کہ شہناز گل ارب پتی سرمایہ دار آدم جی پیر بھائی کے ساتھ بیٹھی مسکرا رہی ہے۔ عظیم باغی اور عاشق مزاج سے مزین زیدی جیسا حساس شاعر اس منظر کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکا، شہناز گل تو اس کی محبوبہ تھی ،لیکن اب وہ ایک ارب پتی سرمایہ دار کی بانہوں میں تھی،اس منظر کو دیکھنے کے بعد کی کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ مصطفیٰ زیدی کی لاش دس اکتوبر 1970ء کواسی انیکسی میں پڑی ملی جس میں شہناز گل اور ان کی عشقیہ کہانی پروان چڑھی تھی ۔ شہناز گل بھی نیم مردہ حالت میں ان کے ساتھ بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔اس کے بعد کی کچھ یوں ہے کہ شہناز گل کو مصطفی زیدی کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ،ان کے قتل کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن بنا ،عدالت میں مقدمہ چلا ،عرصے تک اخبارات میں عشق و قتل کی اس پراسرار کہانی کو خوب اچھالا گیا ،اور بلا آخر مصطفی زیدی کے قتل کو خودکشی قرار دیکر عدالت نے شہناز گل کو باعزت بری کردیا ۔۔باغی شاعرمصطفی زیدی 12 اکتوبر 1970 کو جب قتل ہوئے تو اس وقت ان کی عمر صرف چالیس برس تھی۔۔ ان کی مو ت کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر منظر عام پر لائے گئے ۔ پہلا یہ کہ شہناز گل نے انہیں زہر دیکر انہیں قتل کیا تھا،دوسرا یہ کہا جدید اردو ادب کے باغی شاعر نے شہناز گل کی بے وفائی کی وجہ سے خودکشی کی تھی۔ پراسرار افسانوی مو ت کی حقیقی وجہ کیا تھی ،یہ راز ابھی تک راز ہی ہے؟زیدی صاحب کی موت کی کہانی ایک شعر میں سے عیاں ہے ،میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں،تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے،مصطفی زیدی کی بدقسمتی شاید یہ بھی رہی تھی کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اس دور میں پزیرائی نہیں مل رہی تھی ، وہ ایسا باغی فلسفی شاعر تھا جو محبت،انسانیت،کائنات سماج اور فوجی آمریت کی بدکاریوں کے کے حوالے سے ایک شفاف،صاف ستھرا اور منفرد نظریہ رکھتا تھا ۔۔کہا جاتا ہے کہ مصطفی زیدی خطرناک حد تک دل پھینک انسان تھے ،محبت و عشق کے بازار میں شدید جذبات کے حامل تھے ،کم عمری میں ہی وہ شہناز گل سے پہلے کئی لڑکیوں کے عشق میں مبتلا رہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے بھی کئی مرتبہ انہوں نے خود کشی کی ناکام کوششیں کی تھی ،اب ایک انسان جو باغی ہے ،عاشقانہ مزاج رکھتا ہے ،کائنات کے بارے میں سوچتا ہے ،فوجی آمریت کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے ،جسے اعلی ملازمت سے صرف اس لئے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ آمریت کے خلاف لکھ رہا ہے ،جرمن بیوی اور دو معصو بچے جرمنی میں ہیں ،شہناز گل جیسی عیار و حسین خاتون کو دل دے بیٹھا ہے ،کیا کہیں ایسا ممکن ہے کہ اس طرح کا حساس شخص خودکشی میں پناہ لینے کی کوشش کرے ؟اس طرح کے دلائل دیکر زیدی کی موت کو خودکشی کا نام دیا گیا ۔ ان کی موت کے بارے میں ان کی محبوبہ شہناز گل نے یہ کہانی سنائی تھی کہ مصطفی زیدی اس سے شادی کرنا چاہتے تھے،لیکن اس نے اس بناٗ پر شادی کرنے سے انکار کیا تھاکیونکہ زیدی پہلے سے شادی شدہ تھا ۔شہناز گل کی اس بات کو مان بھی لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ دن و رات کیوں ایسے حساس شخص سے جسمانی و جنسی روابط رکھے ہوئے تھی ۔شہناز گل کے لیے مصطفی زیدی نے ویسے تو بہت غزلیں اور نظمیں لکھی ،ان میں سے ایک بہت مشہور ہے،جو آپ کو سنا دیتا ہوں ،فن کار خود نہ تهی ،مرے فن کی شریک تھی،وه روح كے سفر میں بدن کی شریک تھی،اُترا تھا جس پہ باب حيا كا ورق ورق،بستر كے ایک ایک شکن کی شریک تھی،میں اک اعتبار سے آتش پرست تھا،وه سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی،وه نازشِ ستاره و طَنّازِ ماہتاب،گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی،وه ہم جليسِ سانحہ زحمتِ نشاط،آسائشِ صلیب و رسن کی شریک تھی،ناقابل بیان اندھیرے کے باوجود،میری دُعائے صبحِ وطن کی شریک تھی،دُنیا میں اک سال کی مدت کا قُرب تھا،دل میں کئی ہزار قرن کی شریک تھی،مصطفیٰ زیدی کو جس درد و کرب سے گزرنا پڑا اس کی باز گشت ان کی غزلوں کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ خاص طور پر ان کی مشہور غزل میں تو یہ کرب بار بار اتر آتا ہے،کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے، غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے، کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی ہم زباں نہیں ہے، فقط ایک دل تھا اب تک سو مہرباں نہیں ہے، مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو، مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے، کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکارو، بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے، انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ، مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے،مصطفیٰ زیدی نے بھی کربلا کے استعارے کو بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے،اس کی مثال ان کے یہ شعرہیں،ایسی سونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی، دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگیِ صبح وطن،میں اسی کو ہ صفت خون کی ایک بوند ہوں جو، ریگ زارِ نجف و خاکِ خراساں سے ملا،جدید غز ل کی تشکیل میں مصطفیٰ زیدی کا بہت اہم حصہ ہے اور ان کے شعری مجموعے موج مری صدف صدف، شہر آرزو،زنجیریں، کوہ ندا اور قباے سازاردو کے شعری ادب میں ایک خوبصورت اثاثہ ہیں۔
مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس عہد کی زندہ روایت جوش اور مجاز کی رومانوی باغیانہ خطابتی شاعری کی فضا تھی۔ دوسری طرف جگر مراد آبادی، حفیظ جالندھری اور احسان دانش بھی بہت مقبول ہوئے۔ اختر شیرانی کی نظمیں بھی نوجوان نسل کے لئے بہت دلکش تھیں، لیکن مصطفی زیدی کو باغیانہ خطابت اور رومانوی فضا زیادہ پسند آئی۔ دراصل یہ ایک ایسا عہد تھا، جس میں داخلی و خارجی دونوں اعتبار سے پورا معاشرہ مختلف جبریتوں اور بندھنوں کا شکار تھا۔ ایسے میں بغاوت اور عشق جیسے تخلیقی عوامل سیاسی، معاشرتی اور جذباتی گھٹن کو توڑ کر نئی راہ اختیار کر گئے۔ اسی بغاوت، معاشرتی شعور اور عشق کا نتیجہ مصطفی زیدی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ”زنجیریں“ اس کی مثال ہے۔ زنجیریں سنگم پبلشنگ ہاﺅس الٰہ آباد (بھارت) سے جولائی1947ءمیں شائع ہوا۔ اس کا دیباچہ فراق گورکھپوری نے تحریر کیا تھا۔مصطفی زیدی شعرا کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے شاعری کو سچ بولنا سکھایا۔ سچ بولنا ہر صورت میں مشکل ہے۔ جب معاشرے کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو۔ انہوں نے اردو شاعری کو حوصلہ مندی ، حقیقت صداقت، انصاف اور دیانت کی قدروں سے روشناس کیا۔فرقت کے شب و روز میں کیا کچھ نہیں ہوتا،قدرت پہ ملامت بھی، دُعائے سحری بھی،دل کے رشتے عجیب رشتے ہیں،سانس لینے سے ٹوٹ جاتے ہیں۔یہاں ہم اپنی تمنا کے زخم کیا بیچیں،یہاں تو کوئی ستاروں کا جوہری بھی نہیں۔۔۔۔مصطفی زیدی کے آخر میں کچھ شعر سنا دیتا ہوں ،اس کے بعد زیدی کی زندگی کی کہانی کو خود ہی سوچیئے کہ کیا انہوں نے خودکشی کی تھی یا کسی سازش کے زریعے ان کا قتل کیا گیا تھا ۔کچھ مَیں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی،دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں،میرا تو جرم تذکرہ¿ عام ہے، مگر،کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہات میں۔خدا حافظ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔