حضرتِ آدمؑ کے خلقت میں آنے سے لے کردورِحاضر تک قصّے اور کہانیوں کا ایک ایساسلسلہ قائم و دائم ہے جو اپنی زندگی کے مختلف مراحل سے ہوتا ہوا اور ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔کسی مفکر کا مشہور قول ہے’’یہ دنیا ایک اسٹیج کی طرح ہے اور تمام تر انسان اس اسٹیج کے کردار ہیں‘‘ اس قول کی ترجمانی میں غزل کا یہ شعر پیش کیا جا سکتا ہے:
؎ اک پرکشش کہانی کے کردار کی طرح
ہر شخص جی رہا ہے ادا کار کی طرح
انسان کے پاس جب وسائل ِ حیات مختصر و محدود تھے اور اُس کے پاس وقت کی کمی نہیں تھی وہ زبانی قصّے اور کہانیوں کو بیان کرتا تھا۔یہ قصے سینہ بہ سینہ ایک مدّت تک بیان کئے جاتے رہے جن میں اُس دور کے حالات و واقعات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ مافوق الفطرت عناصر کی بھی نمائندگی ہوتی تھی ۔پھر جب رفتہ رفتہ انسان نے پڑھنااور لکھنا سیکھ لیا اور وسائلِ زندگی فراہم ہوتے گئے یعنی دنیا سمٹنے لگی اور لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے لگے تب اس نے قصّے اور کہانیوں کو تحریر کرنا شروع کردیا در اصل اس قصّے اور کہانی کے ذریعہ وہ اپنے جزبات کی ترجمانی اور رودادبیان کرنے لگا۔لیکن اس کا مقصد صرف روداد بیان کرنا ہی نہیں تھا بلکہ اس کے توسل سے ذہنی تسکین اور سامانِ حظ فراہم کرنا بھی ایک اہم مقصد تھا۔ یہاں تک کہ ان کہانیوں یا قصوں میں وہ تمام جذبات و خیالات اور خواہشات بھی نظر آتی تھیں جن کو حقیقت میں پائے تکمیل تک پہنچانا ممکن نہ تھا۔ گویا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قصیّ اور کہانیوں کی ایک قدیم تاریخ ہے اوریہ تب سے قائم ہے جب انسان تحریر کرنا یا لکھنا بھی نہیں جانتا تھا ۔
داستا ن بھی قصّے اور کہانیوں کا ایک روپ ہے ۔جب قصّہ اور کہانی نے اپنا پیرہن بدلا تو اس کے بدلتے ہوئے لبادے سے داستان کا وجود عمل میں آیا اور یہ داستانیں تخیل اور جذبات کی فضا میںپرواز کرتی ہوئی اپنے عروج پر قائم ہوئیں اور داستان لکھنے اور سننے کا ایک سلسلہ قائم ہوا۔انسان فرصت کے لمحات میں تفریح اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے داستانیں سننے لگا۔قصہ گوئی کی شہرت یہاں تک پہنچی کہ اعلیٰ طبقے کے لوگوں نے جس میں بڑے بڑے راجہ ،مہاراجہ اور بادشاہ بھی شامل تھے اپنے دربار میں داستان گو افراد کو بطورِ ملازم رکھنے لگے۔یہ داستان گو افراد بہت ذہین اور تجربے کار لوگ ہوا کرتے تھے انھوں نے راجہ ،مہاراجہ اور بادشاہوں کی اور معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دینے کے لئے بھی داستان کو وسیلہ بنایا ۔انھوں نے داستان کوخیر و شر کا ایک ایسا معرکہ بنا کربھی پیش کیا جس سے یہ سبق ملتا تھا کہ حق پرست لوگ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور بدی پر جیت حاصل کرتے ہیں چاہے برائی کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ۔یہ داستانیںہمارے اردو ادب کی لئے بہت قیمتی سرمایا ہیںکیونکہ یہ ایک پوری تہذیب، رسم و رواج کی مرقع کشی کرتی ہیں۔اردو ادب میں لکھی گئی مقبول ترین داستانیں عربی،فارسی،سنسکرت اور دیگر دوسری زبانوں کے زیرِ اثر ہم تک پہنچی جنھیں ہمارے اردو مصنفین نے گنگا جمنی تہذیب میں رچا بسا کر پیش کیا۔
داستان کے عروج کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلے دور میںملاّ وجہیؔ کی ـ’’سب رس‘‘ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔’’سب رس‘‘ پہلی نثری داستان کی حثیت رکھتی ہے جو محمد یحییٰ کے فارسی قصّہ ’’حسن و دل‘‘ سے مشتق ہے۔اس کو وجہیؔ نے ۱۶۳۵ ء میں سلطان عبداﷲ قطب شاہ کی فرمائش پر تحریر کیا تھا۔یہ داستان تمثیل نگاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔اس کے بعد بہت سی داستانیں منظرِعام پر آئیں جس میں عیسوی خان کی ’’قصہّ مہر افروز و دلبر‘‘ مہر چند کھتری مہرؔ کی ’’نو آئینِ ہندی‘‘ کافی مشہور اور کامیاب ثابت ہوئیں۔اس دور میں سید حیدر بخش حیدری کی نثری داستان’’قصّہ مہر و ماہ‘‘ نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔داستان کے عروج کادوسرے دور کا انیسویں صدی کے آغاز سے سمجھا جاتا ہے اس دور میں میرامنؔ کی ’’باغ و بہار‘‘ اور مرزا رجب علی بیگ سرورؔ کی ’’فسانۂ عجائب‘‘ کاچرچہ عام تھا۔فوٹ ولیم کالج کا قائم ہونے کے بعد دوسری زبانوں کی مقبول ترین داستانیں ترجمہ ہوکر اردو زبان میں منتقل ہونے لگیں تھیں۔فورٹ ولیم کالج جس کی شروعات انگریزوں کو ہندوستانی رسم و رواج سے آشنا کرانے اور ہندوستانی زبان سیکھانے کے لئے ہوئی تھی اس سے وابستہ ادیبوں اور ترجمہ نگاروں نے اپنے ہنر کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے بہت ہی آسان اور سادہ اور دلکش انداز میں داستانوں،قصّے،کہانیوں کو پیش کیا جو بہت مقبول ہوئیں۔جس میں میر امنؔ کی ’’باغ و بہار‘‘،مظہر علی خاں ولاؔ کی ’’ہفت گلشن‘‘ کافی کامیاب ثابت ہوئیں۔اس کے علاوہ فورٹ ولیم کالج کے باہر لکھی گئیں داستانوں میں ’’قصّہ نل و دمن‘‘،’’رانی کیتکی‘‘،’’گلشنِ نو بہار‘‘،’’فسانۂ عجائب‘‘بھی قابل ذکر داستانیں ہیں۔نثری داستانوں کا تیسرا اور آخری دور’’بوستانِ خیال‘‘ ،’’الف لیلیٰ‘‘،’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔اس کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے نے داستان کو زوال کے طرف گامزن کردیا ۔انیسویں صدی کاآخری نصف دور آتے آتے بدلتے ہوئے معاشرے اور آب و ہوا کے درمیان داستان کا وجود قائم نہیں رہا اور ایک نئی نثری تخلیق یعنی ناول کا جنم ہوا جو مغربی ادب کے اثر سے ہمارے اردو ادب میںشامل ہوئی تھی لیکن اس کا خمیر داستان سے لیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ کہیں نہ کہیں اس میں داستان کی روح جلوہ نما تھی۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ وہ کیاوجوہات رہیں جن کی وجہ سے داستان جیسی ادبی صنفِ سخن جو ایک طویل مدّت سے اپنا اثر عوام و خواص پر قائم کئے ہوئے تھی زوال کا شکار ہو کر رہ گئی اور اس کی جگہ ناول نے اختیار کرلی ۔در اصل اس کے پیچھے وہ تمام اسباب کارفرما تھے جو بڑی تیزی سے دنیا ئے رنگ و بو میں تبدیلی کا باعث بن رہے تھے یعنی جس وقت ناول اپنا تخلیقی سفر طے کر رہا تھا وہ دور کرب و بے چینی کا تھا۔انسان کو نہ تو ذہنی سکون حاصل تھا نہ اتنی فرصت ہی تھی کہ وہ ایک لمبی مدّت تک بیٹھ کر سکون و تحمل کے ساتھ کسی لمبی کہانی یا طویل قصّہ کو پڑھ یا سن سکے ،روزمرہ کی ذہنی الجھنوں اور فکر ِروزگاراور سائنسی انکشافات نے معاشرے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ انسان اس قدر مصروف ہوگیا کہ اس کے پاس خود اپنے لئے بھی وقت نہ رہا۔
انیسویںصدی عیسویں میںجہاں دنیا بھر میں ایک انقلاب برپا تھا وہیں ہندوستان بھی اس سے مبرّا نہ تھا یہاں عوام غلامی کی زندگی جینے پر مجبور تھے اور انگریزوں کا اقتدار پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ نما تھا ان کی زبان ان کی تہذیب اور ان کا تمدّن ہندوستان کی سر زمیں پر پورے کرّو فر کے ساتھ اپنی اہمیت کا لوہا منوانے پر آمادہ تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی عوام بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انگریزی ادب نے یہا ں کے باشندوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ گویا کہ یہاں کے لوگوں کا ذہن انگریزی اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی طرف گامزن تھاجس کا اثر اردو زبان و ادب پر بھی نظر آیا۔لوگ ملازمت حاصل کرنے کے لئے انگریزی ادب کا مطالعہ کرنے لگے اور ان کے دل میںکہیں نہ کہیںیہ احساس گھر کرنے لگا کہ ہمارا ادب انگریزی ادب کے آگے کمتر ہے۔اسی دوران سائنسی فکر جیسے جیسے پروان چڑھ رہی تھی وہ ان باتوں کے خلاف آواز بلند کر رہی تھی جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا یا جو عقل کی کسوٹی پر کھری نہ اُترتی تھیں۔لہذاداستان میں آنے والے مافوق الفطرت عناصر ،اس کی طوالت ،قصّہ در قصّہ، اس کے الجھے ہوئے پلاٹ اور اس کے غیر عقلی کرداروں کو لوگوں نے دھیرے دھیرے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی جگہ ناول کے فطری خیالات،مختصر حالاتِ زندگی اور ان کرداروں نے لے لی جو جیتی جاگتی اور اسی دنیا کے معلوم ہوتے تھے جس دنیا سے قاری اور مصنف کا براہِ راست تعلق تھا۔ناول نے داستان کے مقابلے میں ہر طبقے کی حقیقی تصوّیر پیش کی اس میں سماج کے اعلیٰ طبقے،متوسط طبقے کے لوگ اور دبے کچلے لوگوںکا بھی ذکر تھا جو سماج کو آئینہ دکھانے کاکا م کرتا تھا جو ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرتا تھا۔جب کہ داستان بادشاہوں کے دربار سے وابستہ تھی بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور مغربی تہذیب کا دور شروع ہوا داستانوں کا زوال بھی ہونے لگا کیوںکہ نہ وہ اب تخت و تاج رہے تھے اور نہ وہ رسم و رواج اورنہ وہ حسن و عشق کی روایت ہی رہی تھی کہ انسان اپنے جذبات کا اظہار اس شان و شوکت کے ساتھ کرتا جس طرح قدیم زمانے میں کیا کرتا تھا۔بہرحال دورِحاضر میں ناول بھی زوال کی راہ پر گامزن ہے اور اس کی جگہ مختصر کہانی قصّوں نے لے لی ہے جس کو بہت کم مدّت میں اور ایک ہی نشست میںپڑھ کر قاری لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ افسانوں کا بدلاہوا روپ جس کو افسانچہ کہتے ہیں جو بہت مختصر ا ور چند سطروں پر مبنی ہوتاہے اس کا بھی وجود عمل میں آیا ہے۔ہماری اس دور کی میڈیا نے بھی کہیں نہ کہیں قصّہ کہانیوں کی بہت سی باتوں کو اپنے اندر شامل کر لیا ہے زورِقلم اور زورِخطابت کی بدولت ان کرداروں کو عملی جامہ پہنا دیا ہے جس کو ہم داستانوں،ناولوں،اور افسانوں میںدیکھتے یا پڑھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔
؎ زندہ ہر اک کہانی کا کردار ہوگیا
افسانہ جیسے آج کااخبار ہوگیا
الغرض داستان اپنے زوال کے باوجود اب بھی کسی نہ کسی روپ میںہم سے وابستہ ہے اور آنے والی نثری اصناف اس سے کل بھی فیض اُٹھاتی تھی اور آنے والے مستقبل میں بھی فیض حاصل کرتی رہیں گی کیوںکہ یہ ہمارا قدیمی سرمایا ہے۔
“