عيشي بلادی
” پنجیری یاد سے ساتھ لے لیجئو” افتی حسب معمول مذاق کے موڈ میں تھا۔
” وہ کیوں؟” میں کچھ سمجھ نہیں پایا تھا۔
” ابے دوبئی بغیر پنجیری کے جائے گا تو تجھے لیں گے نہیں ” افتی ہنس رہا تھا۔
” ابے کھل کر کیوں نہیں بکتا” میں بدستور الجھا ہوا تھا۔
” کیوں ؟ تو نے وہ ڈرامہ نہیں دیکھا ‘ دوبئی چلو’ ۔ بڑا سا فوٹو بھی بنوائیو، ٹائی لگاکے” افتخار کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
میں الخُبر میں اپنے یار افتخار کی ٹریول ایجنسی میں بیٹھا کراچی کے لئے ٹکٹ بنوا رہا تھا۔ اس بار واپسی براستہ دوبئی رکھی تھی۔ میرے پاس دوبئی کی ملازمت کا معاہدہ تھا۔ ارادہ تھا کہ دوبئی اتر کر دیکھوں گا، ملازمت اور شہر پسند آئے تو وہیں رک جاؤں گا ورنہ داہران واپس آجاؤں گا جہاں میرے پاس مناسب نوکری تھی۔
داہران سعودی عرب سے پہلے میں بحرین میں تھا۔ یہاں پڑھے لکھے پاکستانی زیادہ تھے اور مزدور پیشہ کم۔ بحرین میں زیادہ تر بنکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پاکستانی ملازم تھے۔ سعودی عرب میں ملا جلا حال تھا۔ یہاں مزدور پیشہ پاکستانی بھی بڑی تعداد میں تھے اور ہنرمند اور اعلی تعلیمیافتہ بھی خاصی تعداد میں تھے۔ دوبئی ان دنوں نیا نیا ابھر رہا تھا لیکن زیادہ تر مزدور طبقہ دوبئی کا رخ کررہا تھا۔ رہی سہی کسر پی ٹی وی کے ڈرامے ” دوبئی چلو” نے پوری کردی تھی اور دوبئی جانے والے اکثر تمسخر کا نشانہ بنتے۔
مجھے دوبئی کا بارے میں زیادہ نہیں علم تھا۔ افتخار کی باتوں سے میں اور الجھ گیا۔ سوچا کہ جاکر دیکھ لوں ، اگر پسند آیا تو وہیں رک جاؤں گا ورںہ داہران واپس۔ ٹکٹ بھی ویسا ہی بنوایا تھا۔ داہران۔کراچی۔دوبئی۔داہران۔
اسی گو مگو کی حالت میں جولائی کی ایک گرم دوپہر کو میں دوبئی کے ہوائی آڈے پر اترا۔ یہ 1983 کی بات ہے۔ میری امریکن کمپنی کا ہندوستاںی ایڈمن مینیجر ہریش کپور میرا منتظر تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر میرا سامان لیا اور ڈکی میں رکھ کر ہم شہر کے لئے روانہ ہوئے۔ ہریش پنجابی تھا اور کچھ دیر بعد ہم انگریزی کو ایک طرف رکھ کر ہندوستانی میں باتیں کررہے تھے۔ میری نظر راستے کی عمارتوں پر تھی جہاں کچھ ایسا خاص نہیں تھا کہ متوجہ ہوا جاتا۔ البتہ ایک جگہ سنیما اور اس پر لگے ہندی فلم کے پوسٹر نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا اور یہ میرا دوبئی کے متعلق پہلا مثبت تاثر تھا۔ سعودی عرب میں سنیما نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور مجھ جیسے فلموں کے شوقین نے ساڑھے پانچ سال بعد پردیس میں سنیما کی عمارت دیکھی۔ دوبئی رہنے کے متعلق میری رائے کو پہلا ووٹ مل گیا تھا۔
اور آج ساڑھے پینتیس سال کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ اگر میں دوبئی نہ آتا تو کہاں ہوتا اور کیسا ہوتا ؟ ۔
میرا تعلق ایک نچلے درمیانے طبقے کے گھرانے سے ہے۔ والد صاحب ملازمت پیشہ تھے اور ہم پانچ بہن بھائی سمیت یہ سات لوگوں کا کنبہ تھا اور والد صاحب کی محدود آمدنی میں بمشکل سفید پوشی کا بھرم قائم تھا۔ میں گھر سے باہر نکلا تو گھر والوں لے لئے زندگی آسان ہوتی گئی۔ مالک کا کرم تب سے اب تک شامل حال ہے۔ سعودی عرب میں تھا تو میری بڑی ہمشیرہ کی شادی ہوگئی۔ پہلا فرض ادا ہوا۔
لیکن یہ دوبئی تھا جس نے میرے لئے گھر آنگن کی طرح دونوں بازو کھول کر پناہ دی۔ یہاں آئے ہوئے چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ میں نے اپنے گھر والوں کو ایک بہتر علاقے میں گھر لے دیا۔ اس کے اگلے ماہ بعد ہی میرا بھی گھر بس گیا یعنی شادی کے بندھن میں بندھ گیا۔ پھر یہیں سے میں نے اپنی دوبہنوں اور ایک بھائی کی شادی کی۔
اسی دوبئی کی ملازمت کے دوران رب کریم نے مجھے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ بچوں نے بہترین اسکول میں تعلیم پائی ۔ بیٹیوں نے ایم بی اے اور بیٹے نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں اور اب الحمدللّٰہ میں ایک نواسی اور دو نواسوں کا نانا ہوں۔ بیٹا بھی اب الحمدللّٰہ شادی شدہ ہے۔ اور اب پینتیس سال ایک ہی ادارے میں کام کرنے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہوگیا ہوں۔
اور اس دوبئی میں مجھے کبھی کسی قسم کی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ گو کہ زندگی اپنے اتار چڑھاؤ کا مستقل حساب کتاب رکھتی ہے۔ جو کچھ دکھ، سکھ، خوشی، غمی، محنت و مشقت زندگی کا حصہ ہوتی ہے وہ مل کر رہتی ے۔ ینتیس سال کا سفر کوئی ایسا پھولوں کی سیج بھی نہیں تھا لیکن مالک کا کرم ہے کہ زندگی کا ایک بڑا سفر عزت وآبرو کے ساتھ طے ہوگیا۔
اور یہ دوبئی کا کمال ہے کہ یہاں کوئی بھی خود کو پردیس میں محسوس نہیں کرتا۔ نہ صرف زبان کا کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ کھانے پینے، ملنے جلنے لباس اور ثقافت میں ایسی کوئی چیز نہیں جو یہاں آپ کو اپنے گھر سے یعنی اپنے ملک سے مختلف ملے۔ ہر طرح کی مذہبی آزادی ہے ، یہ نہیں کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور دوسروں کی نظریں آپ کے ہاتھ اٹھانے، باآواز بلند آمین کہنے پر ہیں کہ کہیں آپ اہل حدیث ، وہابی یا شیعہ تو نہیں ؟. آپ چاہے ہاتھ سینے پر باندھیں، یا ناف پر یا بالکل نہ باندھیں کسی کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔
ہر طرح کی تفریح جس کا اپنے ملک میں تصور کیا جاسکتا ہے یہاں آپ کو ملے گی۔ یہاں میں نے زندگی کے بہترین مشاعرے سنے، بہترین موسیقی کے پروگرام دیکھے، کھیلوں کے یادگار مقابلے دیکھے بلکہ خوبصورت پارک، ساحل سمندر، شاپنگ مال اور طرح طرح کی بے شمار تفریحات اور مشغلے آپ کو کبھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہونے دیتے۔
لیکن یہ بلند وبالا عمارات، خوبصورت مالز، اعلی تعلیمی اداروں اور بہترین ہسپتالوں والا شہر ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ جب میں یہاں آیا تھا یہ اپنے کھارادر اور جونا مارکیٹ جیسا علاقہ تھا۔ ایک آدھ خوبصورت عمارت البتہ موجود تھی لیکن کراچی اس کے مقابلے میں بہت ماڈرن شہر ہوا کرتا تھا اور ہم اپنے ان دوستوں کا جو پہلے سے یہاں موجود تھے، مذاق اڑایا کرتے کہ تمہیں کیا خبر کے بڑے شہر کیسے ہوتے ہیں۔
یہ دوبئی آج ایک طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ ہم دیسیوں کو تو چھوڑیں، امریکہ اور یورپ سے آنے والے بھی یہاں اپنی پگڑیاں سنبھال کر حیرت سے اس شہر کو دیکھتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے مقبول سیاحتی مرکز دوبئی ہے۔ اور یہ کمال ہے دوبئی کے شیخ راشد بن المکتوم کی فراست، دوربینی اور دور اندیشی کا جنہوں نے بہت پہلے جبل علی میں ایکسپورٹ فری زون کی بناء ڈالی اور آج دنیا کی ہر بڑی اور قابل ذکر کمپنی کا دفتر جبل علی یا دوبئی میں ہے۔
دوبئی سے جبل علی جانے کا رستہ کبھی ایک دو رویہ سڑک ہوا کرتی تھی اور ایک بار دوبئی کی حدود یعنی ٹریڈ سنٹر سے نکلنے کے بعد جبل علی تک کوئی عمارت نظر نہیں آتی تھی۔ آج دوبئی سے جبل علی جانے کے لئے چار مختلف راستے ہیں اور پر سڑک چھ چھ سات سات لین کی ہے، اس کے باوجود ٹریفک کا ازدحام رہتا ہے۔ ہر سڑک کے کنارے بلند و بالا عمارتیں یا جدید ترین رہائشی علاقے ( Communities) دنیا کے ترقی یافتہ ترین شہروں کو شرماتی ہیں۔
لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ یہ دوبئی کے حکمرانوں خصوصا موجودہ حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی فہم وفراست تھی کہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو اس طرف راغب کیا اور یہاں انہوں نے سرمایہ کاری کے عوض اس شہر کو جدید ترین انفرااسٹرکچر دیا اور اسے دنیا کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں لاکھڑا کیا۔۔ اصل چیز ہے یہاں کی گورنینس اور امن وامان جو پاکستان جیسے ملکوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
بڑی عجیب سی بات ہے کہ کبھی دوبئی اور متحدہ عرب امارات کے تمام سرکاری ادارے اور شعبے ہم پاکستانیوں کی مرہون منت تھے۔ یہاں کے دفاعی ادارے، پولیس، بنک، انشورنس ، مواصلاتی ادارے، بجلی گھر سب پاکستانی ہنرمندوں نے قائم کئے اور آج ہم پاکستانی اپنے یہاں کی اچھی چیزوں کی مثال ” دو بئی جیسا” کہہ کر دیتے ہیں۔ عرب امارات اور خصوصا دوبئی کا اصل کمال ہے ان کا ہر وقت سیکھتے رہنا۔ جن سرکاری کاموں کے لئے پہلا پورا دن بلکہ کئی دن لگتے تھے اب وہ منٹوں میں ہوجاتے ہیں۔ امیگریشن، کسٹمز، پولیس غرض کسی بھی ادارے میں کام ہو، وہاں جانا اب ایک خوشگوار تجربہ بن گیا ہے۔
حکومت نے دو وزارتیں Ministry of Happiness اور Ministry of Tolerance قائم کی ہیں۔ ہر سرکاری دفتر کے ساتھ ایک Happiness Centre ہوتا ہے۔ یہ جدید ترین خوبصورت اور پر آسائش دفاتر ہیں جہاں نہایت ہی آرام دہ فرنیچر سائلین کا استقبال کرتا ہے۔ جگہ جگہ قہوہ اور اعلی نسل کے خوش ذائقہ کھجور رکھے ہوئے ہیں، مشین سے متعلقہ کام کے لئے ٹوکن لے کر آپ آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر قہوہ اور کھجوروں سے لطف اندوز ہوں ۔ کسی قطار وغیرہ کی یا کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں۔ سامنے اسکرین پر آپ کا ٹو کن نمبر بتائے گا کہ کون سے کاؤنٹر پر آپ کو جانا ہے جہاں بے حد خوش اخلاق اور زیادہ تر خواتین اہلکار آپ کی مدد کے لئے موجود ہونگے۔ آپ کا کام ہو جانے کے بعد وہ آپ سے درخواست کرینگے کہ ساتھ رکھی ہوئی ڈیوائس پر ان کی کارکردگی کے متعلق نمبر دیں۔ ان کی ترقی اور تبادلے ان تبصروں کی بناء پر ہوتے ہیں اور کارکنان کی کوشش ہوتی ہے کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سائلین کی اچھی طرح سے خدمت کریں۔ ان کے سر پر کسی افسر کو کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں۔
سارے سرکاری دفتر عین وقت پر کھلتے ہیں کہ دوبئی کے حاکم شیخ محمد کسی بھی وقت کسی بھی ادارے میں اکیلے کار چلاتے ہوئے پہنچ سکتے ہیں۔
اور ان دفتروں میں صرف تصدیق۔ یا اجراء کا کام ہوتا ہے۔ شہر میں جا بجا تسجیل، تسہیل، تعمیل، تعجیل اور آمر نام کے ٹائپنگ سنٹر اور دفاتر ہیں جو اولین سرکاری کام یعنی کاغذات پر کرنا، ضروری کاغذات نتھی کرنا اور دیگر کام کردیتے ہیں۔ ان دفاتر میں بھی وہی منظر ہوتا ہے، قہوہ اور کھجوروں والا۔
دوبئی یا امارات میں آپ کو کوئی پولیس چوکی نظر نہیں آئے گی ، کہیں پولیس والے پہرہ دیتے نہیں ملیں گے لیکن یہاں جرائم کا نام ونشان نہیں۔ ایک آدھ کوئی واقعہ ہو بھی جائے تو مجرم قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا اور پوری سزا پاتا ہے۔ البتہ حادثے کی صورت میں ٹریفک پولیس ضرور نظر آیئے گی۔ کسی بھی شاہراہ پر آپ کی گاڑی خراب ہوجائے تو پولیس کی کار فورا وہاں پہنچ جائے گی کہ ٹریفک میں خلل نہ ہو۔
امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت آور پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں کی شاخیں آپ کو یہاں ملیں گی۔ اسی طرح بہترین ہسپتال اور طبی ادارے اب اس دوبئی میں ہیں جس کے شیوخ کبھی علاج کے لئے بمبئی، کراچی یا لندن جایا کرتے تھے۔ اب پاکستان جیسے ملکوں کے حکمراں علاج یا پناہ کے لئے دوبئی کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں کے بہترین ہسپتال زیادہ تر ہندوستانیوں نے قائم کئے ہیں اس کے علاوہ، امریکی، کینیڈین، جرمن ہسپتال بھی جدید ترین طبی سہولتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ہم پاکستانیوں کا ہاتھ اس معاملے میں تھوڑا تنگ ہے، البتہ نائی ، درزی اور گوشت کی دکانیں زیادہ تر ہم پاکستانیوں کی ہیں۔
کبھی دوبئی کے ال ملا پلازہ سے نکلنے کے بعد شارجہ کی الواحدہ اسٹریٹ کے درمیان کوئی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ اب درمیان میں کوئی جگہ خالی نہیں۔ درمیان میں النہدہ انٹرچینج دوبئی اور شارجہ کی سرحدوں کو واضح کرتا ہے۔
شارجہ ، متحدہ عرب امارات کا ثقافتی دارالحکومت ہے۔ دوبئی اپنی قدامت کھوکر ایک جدید ترین شہر بن گیا ہے۔ ابوظہبی متحدہ عرب امارات کا دارالحکومت اور امیر ترین امارت ہے جو چھوٹی اماراتوں کے لئے برادر بزرگ کا درجہ رکھتا ہے۔ مرحوم شیخ زائد تمام عرب امارات کے لئے باپ کی حیثیت کے حامل ہیں۔ بابا زائد کے لئے ہر جمعہ کے خطبے میں بلندئی درجات اور مغفرت کے لئے دعا کی جاتی ہے اور باآواز بلند آمین کہنے والوں میں ہم غیر وطنیوں کی آواز بھی شامل ہوتی ہے۔
شارجہ قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ برطانوی دور میں شارجہ کی اہمیت دوبئی سے زیادہ تھی کہ رائل ایر فورس کا مستقر یہیں تھا۔ شارجہ آج بھی کرکٹ اور بین الاقوامی کتابوں کی نمائش کی وجہ سے خبروں میں رہتا ہے۔
کرکٹ کبھی شارجہ تک محدود تھی، آج دوبئی کا کرکٹ اسٹیڈیم مجھ جیسے کے لئے واقعی طلسم ہوشربا ہے۔ اور اب تو ابوظہبی میں بھی بین الاقوامی کرکٹ ہورہی ہے۔ پاکستان کرکٹ کا تو اصل گھر اب عرب امارات ہی ہے۔
میں لاکھ کوشش کروں کہ آپ کو دوبئی کی تصویر دکھاؤں لیکن ناکام رہوں گا۔ یہ صرف دیکھنے سے ہی اندازہ ہوگا کہ دوبئی کیا ہے۔ جس نے آج سے پچیس سال قبل کا دوبئی دیکھا ہو وہ کبھی یقین نہیں کرسکتا کہ کوئی شہر اتنے کم عرصے میں ایسی ناقابل یقین ترقی کرسکتا ہے۔
کراچی کے بغل میں یہ طلسم ہوشربا آپ کا منتظر ہے۔ یہ دوبئی کے محکمہ سیاحت کا اشتہار نہیں بلکہ مجھ جیسے مزدور پیشہ کا اظہار تشکر ہے جس نے مجھے عزت وآبرو کی زندگی گذارنے کا موقع دیا۔
شکریہ دوبئی۔ شکریہ متحدہ عرب امارات۔
***
تحریر شکور پٹھان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...