چل بلہیا چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انے۔۔۔ کوئی نہ ساڈی ذات پچھانے، کوئی نہ سانوں منے۔۔۔۔ مکے گیاں گل مکدی نہیں ۔۔۔۔۔ بھانویں سو سو جمعے پڑھ آیے۔۔۔۔ گنگا گیاں گل مکدی نہیں ۔۔۔۔ بھانویں سو سو غوطے کھائیے۔۔۔ گیا گیاں گل مکدی نہیں ۔۔ بھانویں سو سو پنڈھ پڑھ آیے۔۔۔۔ بھلے شاہ گل تاہیوں مکدی ۔۔۔۔ جدوں "میں" نوں دلوں گنوایۓ ۔۔۔۔۔۔بلھا کی جاناں میں کون۔۔۔۔نہ میں مومن وچ مسیت آں۔۔۔۔نہ میں وچ کفر دی ریت آں۔۔۔قصور وہ شہر ہے جہاں بابا بلھے شاہ کا مزار ہے ۔کچھ دن پہلے ہم چار پانچ دوست قصور کے تنگ راستوں اور بازاروں سے ہوتے ہوئے جب شہر کے وسط میں موجود بابا بلھے شاہ کے مزار کے احاطے میں داخل ہوئے تو سحر زدہ کردینے والا ماحول تھا ۔ہر طرف سماں کی محفلیں جاری تھی ،موسیقیت سے مزین رقص کی محفلیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔وہاں پر موجود ہر انسان عشق کی مستی میں مست تھا ۔بلھے شاہ اس کائنات کی ایسی ہستی ہے جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے ،اس بات کا احساس وہاں جانے کے بعد مجھے پہلی مرتبہ ہورہا تھا ۔
مزار کے اندر اور باہر ہر انسان کے چہرے کو دیکھ کر ایسے لگا جیسے ہر کوئی سچائی ،محبت اور انسانیت کی تلاش اور شناخت کے لئے یہاں آیا ہوا ہے۔بابا بلھے شاہ کا اصل نام عبدللہ تھا ،لیکن جب وہ اپنی زات اور انا کو بھلا بیٹھے تو بلھے شاہ ہو گئے ۔بابا بلھے شاہ ملامتی صوفی سلسلے کی ایسی کڑی ہیں جنکا درس محبت ،عشق،امن اور آزادی تھا ۔اس لئے تو وہ ملامتی صوفی کہلائے ۔بلھے شاہ جیسی ہستیاں بے مثال ہوتی ہیں ،ایسی ہستیاں ہمیشہ کائنات میں رقص و سرود میں رہتی ہیں ،کبھی مرتی نہیں ،شاید اس لئے انہوں نے فرمایا تھا کہ بلھے شاہ اسی مرناں نئیں ،گور پیا کوئی ہور۔۔۔۔بابا بلھے شاہ نے عشق کی فلاسفی سے انسان کو انسانیت ،آزادی اور محبت سے روشناس کرایا ۔وہ ایسا کائناتی انسان تھا جس نے عشق کو ہی اوڑنا بچھونا بنا لیا تھا ،اپنی زات اور انا کو فنا کرتے ہوئے اس نے صرف انسانیت کا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔بابا بلھے شاہ 1680 عیسوی میں بہاولپور کے علاقے اوچ شریف میں پیدا ہوئے ۔معاشی حالات کچھ اچھے نہ تھے،لیکن بچپن ہی سے وہ درویش صفت انسان تھے ۔یہ درویشیت ساری زندگی ان کے ساتھ ہمکلام رہی ۔
بلھے شاہ کی اندر کی دنیا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ موسیقیت ،روحانیت اور انسانیت سے مزین تھے ،ہر وقت ان کی اندر کی دنیا میں رقص و سرود کی روشنی پھوٹتی رہتی تھی ۔اسی لئے وہ اپنے زمانے میں سب سے بڑے باغی اور انقلابی کہلائے ۔بلھا کچھ بڑا ہوا تو تعلیم و تدریس کی خاطر قصور میں آگیا ۔اس وقت سخت گیر اور انتہا پسند حکمران اورنگزیب عالمگیر کا دور دورہ تھا ۔وہ اورنگزیب عالمگیر جس نے تخت و تاج کی خاطر بھائیوں کو سازش سے مروا ڈالا اور باپ کو قید میں ڈال دیا تھا ۔اورنگزیب کا زمانہ ہو ،ادھر بلھا عشق کو دریافت کررہا ہو ،عشق کی نئی جہتوں کو تلاش کررہا ہو ،یہ دو مختلف باتیں ہیں ،اس لئے ٹکڑاو تو ہونا ہی تھا ۔بغاوت اور انقلاب نے برپا ہونا ہی تھا ،ایک طرف انا پرست ،متعصب حکمران کی حکومت اور دوسری طرف انا کا دشمن بلھا ۔یہ تھی وہ صورتحال ۔۔۔ایک طرف مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دور میں لڑائی جھگڑے عروج پر تھے اور دوسری طرف ایسا انسان جو اپنی زات کی نفی کر چکا تھا ،کائنات کے سارے رنگ اس کی زندگی میں جھلک رہے تھے ۔بلھا اورنگزیب عالم گیر کے دور کا چشم دید گواہ تھا ،اس لئے مفتی اور ملاں اس کے خلاف فتوے دے رہے تھے ،اسے کافر کہہ رہے تھے ۔ہر طرف افراتفری تھے ،مغل سکھوں کا قتل عام کررہے تھے اور سکھ مغلوں کو مار رہے تھے ۔بلھے شاہ نے صوفیانہ شاعری کے زریعے اوررنگزیب عالمگیر کی حکمرانی کو چیلنج کردیا ۔ادھر سے مفتیوں نے فتوے دیئے کہ اس کی شاعری کافرانہ ہے ،اس لئے اسے ملک بدر کیا جائے ۔فتوے بھی جاری تھے اور بلھے شاہ کا انسانیت سے بھرپور کلام بھی اپنے جوبن پر تھا ۔اب بابا بلھے شاہ قصور کو خیر باد کہہ کر لاہور آگئے ۔عوام کو عشق ،آزادی ،امن ،انسانیت اور محبت کا درس دینا شروع کردیا ۔
ریاست کے حکمرانوں اور ٹھیکیداروں کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردی ۔اب ایک طرف اس دور کے انتہا پسند تھے اور دوسری طرف انسانیت سے مزین تصوف کا راستہ تھا ۔جس سے حکمران اور انتہا پسند خوف زدہ تھے ۔بابا بلھے شاہ نے لاہور کے بعد گوالیار کا رخ کیا ،وہاں انہوں نے رقص ،سنگیت اور راگ رنگ کی تربیت حاصل کی ،اس سے اپنے مرشد کو منایا ۔جیسے وہ کہتے ہیں کنجری بنیا میری عزت نہ گھٹدی ،مینوں نچ کے یار مناون دے ۔اصل میں بلھے شاہ کے اس کلام کے یہ معانی ہیں کہ کوئی کمتر نہیں ہوتا ،کیونکہ طوائف کو ،ناچنے گانے والوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے ،انہیں مراسی کہا جاتا ہے،ان سے نفرت کی جاتی ہے تو بابا بلھے شاہ ان سب کی آواز بن گئے اور کہا کوئی انسان بڑا چھوٹا ،اعلی و ادنی نہیں ہوتا ،انسان سب برابر ہوتے ہیں ،اسی وجہ سے طاقتور ریاست اور اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف تھی ۔اس وقت کے مفتیان نے فتوی دیا یہ بندہ گستاخانہ اور کافرانہ شعر کہتا ہے ،اس لئے اسے سخت سزا دی جائے ،اس لئے بلھے شاہ پر مصیبتوں کے پہا ڑ ٹوٹ پڑے ۔اب ایک بندہ شہر شہر گھوم رہا ہے ،رقص کررہا ہے ،سنگیت کا عاشق ہے ،انسانیت پرست ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں رانجھا رانجھا کردی آپے ہی رانجھا ہوئی ،ایسے شخص کو کیسے ریاست اور اس کے طاقتور حلقے آزادی اور بے باکی سے زندہ رہنے دے سکتے تھے ۔وہ جو اپنے آپ کو پہچان چکا تھا ،جس نے خود پر یقین کر لیا تھا ،جس نے اپنا انفرادی سچ پا لیا تھا اور اب وہ یہ سچ شئیر کررہا تھا ،یہ سچ اب ریاست کے ٹھیکیداروں کے اقتدار کے لئے خطرناک تھا ،اس لئے سب کے سب طاقتور بابا بلھے شاہ کے دشمن بن چکے تھے ۔اس وقت لوگوں کی سمجھ میں آرہا تھا کہ ایک درویش ایسا ہے جو مختلف بات کررہا ہے ،جو کہہ رہا ہے پڑھ پڑھ عالم فاضل بنیو ،کدے اپنے آپ نوں پڑھیا ای نئیں ۔وہ لوگوں کو کہہ رہا تھا لوگو اپنے آپ کو جانو ،وہ مفتیوں کے خلاف بات کرہا تھا ،ان کے اصولوں اور ضابطوں پر سوال اٹھا رہا تھا ۔عشق اس کی طاقت تھی ،اسے مارنا مشکل تھا ،اس لئے وہ ان کا مقابلہ کرتا گیا ۔بلھا جب انتقال کر گیا تو ایک اور فتوی جاری کیا گیا کہ اس کا جنازہ پڑھنا ناجائز ہے ،کہا گیا اس بندے کو قصور میں دفنایا بھی نہیں جاسکتا ،کہا گیا اسے شہر سے کہیں دور دفنایا جائے ۔
ایک ملامتی ،انقلابی اور باغی صوفی کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا ،اس لئے قصور شہر سے دور بلھے شاہ کو دفنایا گیا ۔انسانیت کا درس دینے والے صوفی درویشوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے ،لیکن بلھے شاہ آج بھی زندہ ہے ،رقص کی کیفیت میں ہے ،بلکل ایسے ہی جیسے یہ کائنات رقص و سرود میں ہے۔تنگ نظری اور تعصب اس وقت بھی موجود تھا ، اس وقت بھی بلھا موجود تھا ،تنگ نظری ،تعصب اور انتہا پسندی آج بھی موجود ہے اور بلھا آج بھی عشق و رقص کی کیفیت میں ہے اور ٹھیکیدار آج بھی خوف زدہ ہیں کہ کہیں بلھے کا پیغام لوگوں تک پہنچ نہ جائے ۔اس وقت بھی حکمرانوں اور قاضیوں کا گٹھ جوڑ تھا اور آج بھی وہی صورتحال ہے ۔اسے شہر کے باہر دفن کردیا گیا ،لیکن شہر پھیلتا پھیلتا بلھے تک پہنچ گیا ،اور آج بلھے شاہ شہر کے وسط میں رقص میں ہے ۔بلھا کبھی کہیں گیا ہی نہیں ،وہ جسمانی طور پر نہیں ،لیکن اس کا کلام آج بھی موجود ہے ،انسانیت ،آزادی اور عشق کا سفر آج بھی جاری ہے ،تعصب ،نفرت اور انتہا پسندی صدیوں سال پہلے بھی خوف میں تھے ،آج بھی خوف میں ہیں۔
بلھا کل بھی آزاد ،درویش تھا اور آج بھی وہ کہہ رہا ہے کی جاناں میں کون؟جب تک یہ انسانیت موجود ہے بلھے کی آواز ،رقص اور روحانی موسیقیت گونجتی رہے گی ۔۔۔۔۔ پھڑ نقطہ، چھوڑ حِساباں نوں۔۔۔ چھڈ دوزخ، گور عذاباں نوں۔۔۔۔ کر بند، کُفر دیاں باباں نوں۔۔۔۔ کر صاف دِلے دیاں خواباں نوں۔۔۔ گل ایسے گھر وِچ ڈُھکدی اے۔۔۔۔ اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے۔۔۔۔۔ کدی سچّی بات وی لُکدی اے۔۔۔۔۔ اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے۔۔۔ نہ کر بندیامیری میری۔۔۔۔۔ نہ تیری نہ میری۔۔۔۔۔۔ چاردناں دا میلہ دُنیا۔۔۔۔۔۔ فیرمٹی دی ڈھیری۔۔۔۔۔ مندر ڈھادےمسجد ڈھادے۔۔۔۔۔ ڈھادےجو کجھ ڈھیندہ۔۔۔۔۔ اک بندہ دا دل نہ ڈھاویں۔۔۔۔۔ رب دلاں وچ ریندہ ۔۔۔۔۔بابا بلھے شاہ کا ایک خوبصورت کلام پیش خدمت ہے ۔ عابدہ پروین نے اِس کلام کو یوں گایا ہے کہ حق ادا کر دیا ہے ۔۔۔۔بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں۔۔۔۔۔۔۔من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلّا رائیاں۔۔۔۔۔۔آل نبی اولادِ علی نوں، توں کیوں لیکاں لائیاں۔۔۔۔۔بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں۔۔۔۔۔چیہڑا سانوں سیّد سدّے، دوزخ ملن سزائیاں۔۔۔۔جو کوئی سانوں ’’ رائیں ‘‘ آکھے، بہشتیں پینگھاں پائیاں۔۔۔۔۔بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں۔۔۔۔۔آخر میں بابا بلھے شاہ کا وہ کلام سنا دیتا ہوں جو مجھے بہت پسند ہے ۔۔۔۔ سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی۔۔۔۔۔ لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟۔۔۔۔۔ تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا۔۔۔۔۔ لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے۔۔۔۔۔۔ چلِے کیتے پر رب نہ ملیا۔۔۔۔ لینا کی چِلیاں وِچ وَڑھ کے۔
بابا بلھے شاہ کی کتب آپ پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں