ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ یہ جملہ بچپن سے سنتے آرہے ہیں اور اسے اکثر و بیشتر دہرایا جاتا رہا ہے۔ ستمبر 1976 سے اگست 1977 کا سال بھی ایک ایسا ہی دور تھا- میں اسلام آباد میں بینک میں اپنے فرایض انجام دے رہا تھا۔ کراچی سے عزیز دوست ( پروفیسر) ضیاالرحمٰن ضیا کے اصرار پر ماہ نامہ نقاش کے نمائندہ اسلام آباد کی اضافی ذمہ داری سنبھالی۔ ضیاالرحمٰن اس وقت کراچی سے شائع ہونے والے اس رسالے کے نائب مدیر جب کہ معروف شاعر، افسانہ نگار اور ماہر تعلیم پروفیسر یونس شرر اس کے مدیر تھے۔
اسلام آباد اس وقت تک بہت چھوٹا سا شہر تھا اور بینک میں تقریباً ہر روز کسی نہ کسی بڑی سیاسی یا حکومتی شخصیت سے ملاقات کا اتفاق ہوجاتا تھا۔ یوں بہت سی اندر کی باتیں ان غیر رسمی ملاقاتوں میں معلوم ہوجاتی تھیں۔
یہ وہی دور تھا جب مارچ 1977 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عام انتخابات ہوئے جن میں بھٹو صاحب سمیت ان کی پارٹی کے تقریباً بیس راہنما بلا مقابلہ کامیاب ہوئے۔ اسی طرح ان کے چاروں وزرائے اعلٰی بھی صوبائی اسمبلیوں کے لئے بغیر کسی مقابلے کےجیت گئے کہ ان کے سارے مخالفین کے کاغذات نامزدگی مختلف وجوہات پر مسترد کردیے گئے- پورے ملک میں سیاست کی ہلچل تھی۔ نو مخالف سیایسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کا قیام عمل میں آچکا تھا
سات مارچ 1977 کو انتخابات میں پیپلز پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی اور ستر فیصد سے زائد نشستیں جیتنے کا اعلان ہوا۔ حزب اختلاف ، پاکستان قومی اتحاد نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے بھر پور تحریک چلائی۔ حکومت نے کراچی، حیدرآباد اور لاہور میں مارشل لا نافذ کیا جسے سندھ اور لاہور ہائیکورٹ نے غیر آئینی قرار دیا۔ بے شمار سیاسی راہنماؤں کو گرفتا کیا گیا اور درجنوں اخبارات اور رسائل پر پابندی عائد کی گئی۔
پیپلز پارٹی کے اس وقت کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن نے تجویز دی کہ اسمبلیاں توڑدی جائیں اور حکومت مستعفی ہوجائے۔ صدر کو نئے انتخابات کروانے کا اختیار دیا جائے وغیرہ۔ ان کی تجاویز پارٹی نے مسترد کرتے ہوئے ان کا استعفٰی قبول کرلیا۔
اپوزیشن کا لانگ مارچ، پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے مابین طویل مذاکرات اور پھر مارشل لاء کا نفاذ۔ یہ سارے واقعات اسی دور میں پیش آئے اور روز گرما گرم خبریں ملتی رہیں جن کی رپورٹنگ میں کرتا رہا۔
یہ تھا میری (نیم) عملی صحافت کا ایک سال۔ ماہ نامہ نقاش کا یہ سرٹیفیکیٹ اسی دور کی نشانی ہے۔ بینک میں ذمہ داریاں بڑھتی گئیں یوں صحافت کو خیر باد کہنا پڑا۔
انہی دنوں بینک کے ایک ساتھی جو کراچی میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے کراچی کےاعلٰی عہدیدار بھی تھے اچانک اسلام آباد وارد ہوئے۔ وہاں سے انہوں نے اردو کے اس وقت کے سب سے بڑے اخبار میں اپنے ایک دوست کو جو اخبار کے نائب مدیروں میں سے ایک تھے فون کیا اور اگلے ہی روز کراچی کے اس اخبار میں یہ خبر لگی ہوئی تھی
" حکومت مخالف تحریک کے دوران مسلم لیگ ( فلاں گروپ)کے نائب صدر جناب فلاں فلاں کو گرفتار کرلیا گیا"
دودن بعد یہ خبر لگی کہ "جناب فلاں فلاں کو بغیر مقدمہ چلائے اٹک جیل منتقل کردیا گیا"۔ جبکہ موصوف میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھے چائے پی رہے تھے اور سگریٹ کے کش لگا رہے تھے۔
ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جب سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو جناب نے کراچی واپس جانے کی ٹھانی اور اپنے دوست کے ذریعہ اخبار میں پہلے اٹک جیل سے اپنی رہائی کی خبر لگوائی پھر اگلے روز یہ خبر کہ وہ رہا ہونے کے بعد کل عوام ایکسپریس سے کراچی پہنچیں گے۔ کارکنوں سے شاندار استقبال کی درخواست۔
پھر دو دن بعد میں نے اس اخبار میں ان کی تصویر دیکھی جس میں وہ " اٹک جیل سے رہائی کے بعد” پھولوں کے ہاروں سےلدے پھندے کارکنوں کے کاندھوں پر سوار کینٹ اسٹیشن کراچی سے باہر آرہے تھے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...