(Last Updated On: )
’’دشت، بارش اور رات‘‘ ایک سفر کی کہانی ہے۔ یہ کوئٹہ سے تفتان تک کا سفر ہے۔اس میں پاکستان کے ان حالات کو موضوع بنایا گیا ہے کہ جس میں تفرقہ بازی کو ہوا دی گئی ہے۔ ایرانی حکومت کی دعوت پر ایک وفد بلوچستان کے زمینی رستے کو استعمال کرتے ہوئے ایرانی سرحد تک پہنچا تھا۔ یہ افسانہ راہ میں پیش آنے والے وقوعات اور دکھائی دینے والے منظروں کی انسانی نقطۂ نظر سے عکاسی پر مشتمل ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان کے سب سے زیادہ حساس حصے بلوچستان کے معاملات کی نشاندہی ہوئی ہے۔ وہاں کے کلچر اور عوام کی روز مرہ عادات کا سراغ بھی ملا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں کوئٹہ سے تفتان تک کا سفر ہم نے بھی کیا تھا۔ ہم اس راستے کے ذریعے ایران گئے تھے اور وہاں سے استنبول تک کا سفر کیا تھا۔ لیکن اس وقت کے معاملات اور تھے یہ علاقہ کافی پر امن تھا۔ عطیہ سیّد کا یہ افسانہ بھی اس زمانے کی یادگار ہے جب بلوچستان کے حالات زیادہ دگرگوں نہیں تھے۔ نائن الیون کا واقعہ پردہ اخفا میں تھا۔ بہر حال یہ سفر نامہ نما افسانہ اس کتاب کے دیگر افسانوں سے مل کر اس عہد کی کہانی سناتا ہے کہ جس میں بنجر ویرانوں کی نمو ہے۔ مسلسل بارش کا سماں ہے لیکن ہریالی اور زرخیزی کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ مقدر کی تاریک رات میں تنہائی اور بیگانگی کے ٹوٹے ستارے کبھی کبھار اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑ جاتے ہیں۔ تمام تر فکری موشگافیوں کا حاصل لا حاصلی کی ریت ہے کہ ہر پل کبھی یہاں کبھی وہاں ٹیلے بناتی چلی جا رہی ہے۔ عالمی میگا سٹی کی تمام تر رونقوں کے باوجود فردیت اور خود غرضی کے بھوت سایوں کی صورت انسانوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ سماجی دباؤ کی پچھل پائیاں گردش ایّام کو دہشت بھرے انداز سے پیچھے کی جانب لے جانے کا کام کر رہی ہیں۔ زندگی کے در پر خرقہ پوش و پا بہ گِل ایستادہ انسانیت فریاد کناں ہے۔ ان مادی، نفسیاتی اور فکری کو ایف کا جمالیاتی خوش نمایوں کے سنگ اظہار عطیہ سیّد کے افسانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ ان افسانوں میں جس نوع کی اُمید پرستی ہے وہ انھیں خوشگوار بنانے میں ممد ہے۔ بیلا روما، شہزادہ اور نیک بخت، دو چڑیاں، ذکر اس پری وش کا،واپسی، پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو، طلسم دلربا، خاموشی، تتلی، سبز اندھیرا، ڈان کا رلوس، دہلیز، بلقیان کا بت اور ڈھلوان ان سب افسانوں میں گلو بلائزیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی صورتِ حال پر افسانہ نگار کے ایسے تصورات کی عکاسی ہوئی ہے جن میں انسان اپنے بے معنی وجود کو انفرادی اور اجتماعی آزادی کی روشنی میں معنی دینے کے عمل سے گزر رہا ہے۔
انسان اور آدمی اور ستارہ یا بادبان محمد حسن عسکری کی مخرب الا خلاق لاشعور سازی کے نتیجے میں مولانا الطاف حسین حالی جیسے شریف النفس نظم گو، نقاد اور مصلح کو مفلر اور رومال پر ٹرخا کر جرأت جیسے ریختی گو کی مزیدار شاعری کو قارئین کی جذبات خیزی کے لیے استعمال کیا اور پھر اپنی کہی ہوئی تمام جدید باتوں کو ’’جدیدیت: مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ لکھ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ یوں طلسم ہو شربا کا انتخاب بھی بے معنی ہوتا نظر آیا۔ انتظار حسین جانتے کہ یہ یوٹرن ہو گا اس لیے انھوں نے کمال چابک دستی سے اپنے آپ کو جاتک کہانیوں کے رکھ رکھاؤ کے دائرے میں رکھا۔ آخر بدھی بھی کوئی چیز ہے۔انتظار حسین میں اس کی کمی نہیں ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں جہاں وصل کے نقشے بھی پیش کیے ہیں لگتا ہے ان کا عنوان بھی ’’ہجر‘‘ہے۔ تو صاحبو مشرقیت اور کسے کہتے ہیں؟ کیا ضروری ہے کہ ادب میں ایسے قصّے لکھے جائیں کہ بچوں اور نو عمروں کو پڑھاتے ہوئے جن پر سیاہی پھیرنی پڑے۔ اپنے مسعود اشعر بھی افسانے کے میدان میں پورے رکھ رکھاؤ سے اترے ہیں۔ شعور سازی پر جب لا شعور سازی کو فوقیت دے دی جائے گی تو سیاسی، سماجی اور معاشی حوالوں سے ہونے والے مظالم سے لامحالہ توجہ ہٹتی چلی جائے گی۔
فکری افسانے میں تہذیبی رکھ رکھاؤ کا خیال یوں رکھا جاتا ہے کہ بے لگام اظہار کا امکان معدوم ہو جاتا ہے۔ فرائیڈ کی جسمانی نفسیات کو درست تسلیم کرتے ہوئے جب لاشعوری خیالات کی حقانیت کو بڑے پیمانے پر تسلیم کر لیا گیا تو ادبی نقادوں نے شاعروں اور ادیبوں کے زیریں سطحی خیالات کو بنیادی قرار دیا اور شعور کے اس دائرے سے کنارہ کشی میں عافیت محسوس کی کہ جس کے نتیجے میں سماجی،سیاسی،معاشی اور آفاقی شعور کے در وا ہوتے ہیں۔ یوں واجدہ تبسم، عصمت چغتائی،راجندر سنگھ بیدی،سعادت حسن منٹو کے بعض افسانوں کی سطح تشریحیں بیچی گئیں۔ یوں موپساں، آسکروائلڈ، ڈی ایچ لارنس، این سیلیسٹن اور ایریکا جونگ کی پذیرائی کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔ اپنے ڈاکٹر وحید قریشی نے بھی سحر البیان اور باغ و بہار کو فرائیڈ اور یونگ کے نظریات کی روشنی میں پرکھااور اس تہذیبی رکھ رکھاؤ کو بلائے طاق رکھ دیا جس کے وہ شعوری طور پر داعی تھے۔ شعر و ادب کو شعور کی بجائے تحت الشعور،لاشعور اور اجتماعی لاشعور سے متعلق قرار دے کر خالق کی ذمہ داری کے تصور کو بھلا دیا گیا۔ بھلا ہو وجودیت والوں کا کہ انھوں نے شعر و ادب کو جسمانی نفسیاتی کوایف سے باہر نکالااور انسان کو شعوری کائنات کو اپنا مطمح نظر ٹھہرایا۔ ویسے تو عطیہ سیّد نے سائنسی شعور کی بنیادپر استوار منطقی اثباتیت کے فلسفے کو بھی کھنگالا ہے لیکن زندگی اور اس کے انسانی کوایف سے ان کی نسبت نے انھیں اپنے کلچرل دائرے سے وابستہ رہنے ہی کا عندیہ دیا۔
عطیہ سیّد نے اپنے والد آجی یعنی سیّد عبداللہ کی زندگی میں موجود تمام انسانی شرافتوں کا اپنا کر ایسے افسانے لکھنے کا اہتمام کیا کہ جو زندگی کے نازک سے نازک تحت الثرائی مقامات سے انتہائی محتاط انداز سے گزرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
بھلا کوئی فہمیدہ ریاض سے پوچھے کہ ان کی شاعری میں زنگی کیا کردار ادا کرتا رہا ہے اور یوں اپنی جذباتی جسمانی زندگی کی کہانیاں سنا کر قارئین کو کس جہنم میں لے جانے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے پروین شاکر نے بھی پر پرزے نکالے تھے اور کئی بظاہر مرد دشمن عورت پر ستوں نے اپنی فیمینائی لاشعوری یبوستوں کو اپنے ادب کا حصہ بنا کر ورجینیا وولف، فروغ فرخ زاد بننے کی نا کام کوششیں کیں اور باغ و بہار کے نسوانی کرداروں پر فخر یہ مقالے لکھے۔
افتخار جالب نے عطیہ سیّد کے افسانے ’’آنسو کا نمک‘‘ کے حوالے سے اس میں ان کے اسلوب کے پانچ پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے:
۱۔ اس میں موجود امیجری کی جدلیاتی کیفیت
۲۔ اس کی بنیاد دو بیانیوں پر ہے۔ خارجی اور داخلی
۳۔ تہذیبی رکھ رکھاؤ میں بہت کچھ مخفی رہ جاتا ہے
۴۔ اسطوری حوالہ بہت مستحکم ہے
۵۔ کنایوں اور رمزوں کا استعمال
’’آنسو کا نمک‘‘ عطیہ سیّد کی ایک انتہائی اہم کہانی ہے۔ اولاً اس لیے کہ اس کی امیجری کا بہاؤ اپنی سطح کے معانی کے مخالف بھی چلتا ہے اور مواقف بھی۔ اس وجہ سے کہانی مستقلاً ایک کشاکش اور کچھاؤ کی صورتِ حال کو سمیٹے رہتی ہے۔ اس کا بیانیہ اپنے اندر ایک نئی جہت رکھتا ہے: امیجری کی ریف : ایک تلازمہ امیجری کے سہارے آگے چلتا ہے، پھر پلٹ آتا ہے اور اپنے ہی معانی کی تردید کر کے نئے معانی کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ نئے معانی کچھ دیر ساتھ چلتے ہیں، پھر نئی امیجری انھیں ایک تنا قض سے آشنا کرتی ہے اور پھر واپس ہوتی ہے۔ معانی کی تیسری جہت کے طور پر! یوں سطح کے معانی گڈ مڈ ہونے لگتے ہیں اور امیجری اپنے رقصِ دیوانگی سے معانی کی ہر سطح کو تلپٹ کر دیتی ہے، امیجری کے ذریعے معانی کا اکثرتِ معانی سے خارج از معنی ہو جانا پوسٹ ماڈرن لٹریچر کی بنیادی جہت کو سامنے لاتا ہے۔
دوم یہ کہ ’’آنسو کا نمک‘‘ دوبیانیوں پر مشتمل ہے۔ پہلا بیانیہ اپنی تمام تر تفصیلات کے باوصف کہانی کی اندرونی منطق گرد و پیش میں ہے۔ پہلا بیانیہ اپنی تمام تر تفصیلات کے باوصف کہانی کی اندرونی منطق کو پورا نہیں کرتا۔ کہانی کی اندرونی منطق کی تکمیل کے لیے دوسرے بیانیہ کا سہارا لیا گیا ہے۔ شور کوٹ والا بیانیہ کہانی کا ایک سطح پر مکمل خلاصہ ہے، لیکن اپنے طور اپنے اندر منطق بہ تمام و کمال نہیںرکھتا۔ ہر دو بیانیے مل کر ہی کہانی کی اندرونی منطق کی مطابقت میں اسے پایۂ تکمیل کو پہنچاتے ہیں۔
سوم یہ کہ وصل وائی کیرئیس ہے جس کے غیر حقیقی ہونے کی سب سے بڑی دلیل کہانی کی امیجری ہے جسے جنسی اور تہذیبی سطح پر رکھ کر دیکھا جائے تو وائی کیرئیس وصل بجائے حقیقی وصل کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ اس امیجری کو این سیکسٹن اور ایریکا جونگ کی نظموں کے تناظر میں رکھا کر دیکھا جائے تو معانی کے تمام قرینے منقلب ہو جاتے ہیں۔ ’’اور آنسو کا نمک‘‘ ایک بالکل مختلف بیانیے کا روپ دھار لیتا ہے۔ چہارم یہ کہ زیرِ سطح اسلوب اساطیری ہے۔ دیو مالائی اسلوب کا کا اصل اصول یہ ہے کہ اس میں زمان و مکان نہیں ہوتے۔ زبان از خود اپنی ساخت میں زمانی ہے۔ امیجری کا باہم در آو یختہ ہونا اور اس کی ریفلیکسوٹی زبان کو ہی نہیں، مکان کو بھی منہا کر دیتی ہے۔ اس افسانے کی ساخت بظاہر حقیقت پسندا نہ دکھائی دیتی ہے، لیکن ان امور کے پیش نظر یہاں زمان و مکان نہیں، کوئی مقررہ ترتیب نہیں۔ امیجری کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ ٹکڑوں کے اتصال سے ایک مختلف وحدت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے کہانی کا مرکزِ ثقل پلاٹ کی وحدتِ تاثر نہیں۔ اس کی ساخت خواب ایسی ہے، دیو مالا ایسی ہے: اس کے مختلف حصوں کی کنڈنسیشن سے نئی ترکیبات متن کو متعین کرتے ہوئے ہر دم تغیر پذیر معانی سے آشنائی ہوتی ہے۔ پنجم یہ کہ نیلا رنگ ایک مخصوص کنایہ رکھتا ہے۔ اس کی مثبت اور منفی پرتیں ہیں۔ مثبت پہلو میں یہ تخلیق و سر شاری کا رنگ ہے۔
اُسے کھانے کے دوران نجانے کیوں اگاتا کرسٹی کا ’’ماؤس تریپ‘‘ یاد آ رہا تھا۔ (غور کیجیے ماوس ٹریپ کا متن اس کہانی کے متن میں در آیا ہے۔ ایک پوسٹ ماڈرن خصوصیت)۔
’’اُسے اُمڈتے ہوئے ان سیاہ بادلوں کی خبر تک نہ تھی جو بڑی خاموشی لیکن بڑی سرعت سے اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یہ سیاہ بادل کائنات کی خارجی قوتوں کی صورت میں نہیں تھے بلکہ اس کے والد بدن میں ہائی بلڈ پریشر کے کھولتے ہوئے سیلاب اور کلوکوز کی تیزی سے گھٹتی ہوئی مقدار کی شکل میں تھے‘‘ (خزاں میں کونپل)۔
معاصر عالمی فکشن میں نریشن یا بیانیے کے کثیر الجہتی جلوے رنگا رنگ تکنیکوں سے مزین قارئین کے لیے جنت شعور اور فردوسِ خیال کے دروا کر چکے ہیں۔’ دوستو وسکی‘ اور ’کافکا ‘کے تتبع میں ’البرٹ کا میو‘ اور ’سارتر‘ کے فکر انگیز بیانیے اگر مسحور کن ہیں تو اس میں اسالیبی دلکشی کا بھر پور عمل دخل ہے۔ ممتاز شیریں نے عمدہ اُردو افسانوی بیانیوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا:
’’اُردو کے اچھے افسانوں سے یونہی چند افسانے چُن لیجیے، ’’آنندی‘‘، ’’حرا مجادی‘‘،’’ ہماری گلی‘‘، ’’بالکونی‘‘، ’’شکوہ شکایت‘‘۔ یہ کس تکنیک میں لکھے گئے ہیں؟ بیانیہ۔ ٹھیک! ان میں مکالمے سے زیادہ کام نہیں لیا گیا۔ ان کے کردار افسانے کے دوران میں زیادہ کام بھی نہیں کرتے یعنی کہ اس طرح نہیں کہ ان کے عمل اور گفتگو ہی سے ان کے کیریکٹر کا خاکہ کھنچ جائے یا خود بخود داستان رقم ہوتی چلی جائے۔ بلکہ ان میں داستان بیان کی گئی ہے خود مصنف کی زبانی یا مصنف کسی کردار کو بیان کرنے کے لیے آگے کر دیتا ہے۔ ان سب افسانوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ’’بیانیہ‘‘ میں لکھے گئے ہیں تکنیک کی صرف موٹی تقسیم ہو گی کیوں کہ ان میں ہر ایک افسانہ اپنی ایک علیحدہ تکنیک میں ڈھلا ہوا ہے۔ اس لیے تکنیک کے تنوع کی مثال پیش کرتے ہوئے ان افسانوں کے نام گنائے جا سکتے ہیں۔‘‘
عطیہ سیّد کے افسانوں کے فکری بیانیوں کو ہم کسی بھی صورت مذکورہ افسانوں کے بیانیوں سے کمتر قرار نہیں دے سکتے۔ ان کے افسانوی مجموعہ ’’شہر ہول میں ’’ہوٹل سلازار‘‘، ’’خزاں میں کونپل‘‘، ’’بنت اسرائیل‘‘، ’’پری زاد‘‘، ’’شہرِہول‘‘، ’’آنسو کا نمک‘‘، ’’اپیل اور وہ‘‘، ’’چھے بجے کی خبر‘‘ کے عنوان سے چھپنے والے افسانے جہاں ملکی و غیر ملکی خارجی منظر ناموں کے پر تاثیر اظہارئیے ہیں وہاں اپنی زیریں سطحوں کے تناظر میں کرداروں اور احوالیوں کی جھلملاتی داخلی کائنات کو بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ فکری ذہن کے تابع بیانیوں میں ’’سرد لبراں‘‘ کو ’’حدیث دیگراں‘‘ میں کہنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور یوں خوش سلیقگی کی راہیں بھی ہموار ہوتی نظر آتی ہیں۔
عطیہ سیّد کی کہانیوں میں ان کے مشاہدے، فکری مطالعے اور لسانیاتی عبور نئے نئے اظہاری کل بناتے ہیں۔ یہ کل بیانیاتی تکنیکوں پر ان کی گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
’’دشت، بارش اور رات‘‘ کے آخر میں ’’ایک عام معمولی آدمی‘‘ اور’’ آجی‘‘کے عنوانوں سے جو دو افسانے شامل کیے گئے ہیں وہ افسانہ نگار کی سوانح سے گہری نسبت رکھتے ہیں۔ اولذکر افسانہ افسانہ نگار کے بھائی سیّد سجاد کی افسوسناک ناگہانی موت کے حوالے سے ہے اور ثانی الذکران کے والد ڈاکٹر سیّد عبداللہ اور ان کے خاندانی احوال سے تعلق رکھتا ہے۔ افراتفری اور رواروی کے اس دور میں اعلیٰ قدروں کے حامل اور پر چارک انسانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے ’’ایک عام معمولی آدمی‘‘ اس پر شدید ردِّ عمل کا مظہر ہے۔ ’’آجی‘‘ ایک درویش صفت انسان کی علمی اور ذاتی انسانی نشو و نما کا حکایت گو ہے۔ اس میں خاندانی امارت کا ذکر کرنے کی بجائے افسانہ نگار نے علمی،ادبی اور انسانی حوالوں کو بنیاد بنا کر اپنے خاندان کو شعر و ادب سے دلچسپی کا ظاہر کیا ہے۔ ان افسانوں کے مطالعوں سے قارئین سرمایہ پرستی کی بجائے صوفیانہ انسانی روّیوں کی جانب رجوع کریں گے۔ ہرمن ہیس کے ناول کے ایک باب کا ترجمہ ’’سدھارتھ اور گوتم‘‘ کے عنوان سے اس افسانوی مجموعے میں شامل ہے۔ اس کی اس مجموعے میں شمولیت خالی از علت نہیں ہے۔ انسان دوستی اور کائنات شناسی کے جو روّیے بُد مت میں موجود ہیں وہ ہندوستان، پاکستان اور صنعتی سامراجی ممالک کی طبقاتی، نسلی اور ذات پات پر مبنی معاشرت کے وارے میں نہیں آتے۔
یہاں سے بیانیہ ایک باطنی نہج اختیار کر لیتا ہے: گویا یہاں سطح کا بیانہ اپنی واقعیت کھو کر اندرونی کیفیات کا روپ دھار لیتا ہے۔ عطیہ سیّد کی کہانیوں میں، یوں ابتدائیہ بسا اوقات پیراڈیمٹک ہوتا ہے اور لینگوئج پرائیویٹ سطح پر استعمال ہوتی ہے خود عطیہ سیّد اس امر سے آگاہ ہے:(کیا یہاں زبان کا پرائیویٹ استعمال نہیں ہو رہا؟ ہو رہا ہے دیکھیے)
’’سوائے اس کے یہاں بہکانے والا کوئی سانپ۔۔۔۔ ابلیس کا کوئی رُوپ نہیں۔
سامنے راج بیاس کے قلعے کے کھنڈر نظر آ رہے تھے۔ یہاں کائناتی اشارہ بروئے کار لایا گیا ہے۔ راج بیاس کے تالاب کے بارے میں روایت ہے کہ متراکا آنسو ہے جو اس وقت اس کی آنکھوں سے گرا تھا، جب اس کی بیوی مری تھی۔ ایک آنسو؟ ہاں، صرف ایک آنسو! اور وہ پھیل کر اتنا بڑا تالاب بن گیا۔ ایک دیوتا جب روتا ہے، تو پوری کائنات اس کے آنسوؤں میں ڈوب سکتی ہے مگر جب انسان آبدیدہ ہوتا ہے تو آنسو محض اس کے رخساروں سے پھیل کر زمین پر گر پڑتے ہیں اور مٹی میں جذب ہو جاتے ہیں اور کائنات میں کوئی ہلچل نہیں مچتی۔‘‘
اب کرشن مہاراج کے درشن بھی کر لیجیے۔
’’مختلف دیو مالاؤں سے ملتی جلتی معنویت سے مملو اساطیر کو یکے بعد دیگرے فوکس میں لانا یونگ کے امتیازی بیانیہ کی یاد دلاتا ہے۔ اس سے نہ صرف کئی تہذیبوں کی باطنی یگانگت ظاہر ہوتی ہے بلکہ ایک ٹھوس معنی کے ارتکاز کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے یہی نہیں،ہر دو راویوں نے اجاڑاور بنجر پن کا ایک پرائی مارڈیل منظر نامہ تخلیق کیا ہے۔ اس منظر نامہ کی تخلیق میں عطیہ سیٰد نے امیجری کا ایک ایسا بہاؤ استعمال کیا ہے، جس میں مماثل و متحارب عناصر پھیلتے چلے جاتے ہیں تا آنکہ بیانیہ کے عناصر ایروئے سائز ہونے لگتے ہیں۔ موجودہ دور میں رواں دواں بیانیہ کی جگہ ایک ٹیڑھے اور ریفلیکسو بیانیہ نے لے لی ہے۔ یہ ریفلیکسوٹی معانی کو یک رُخا اور سادہ نہیں رہنے دیتی بلکہ انھیں لاینحل بنا دیتی ہے۔ اس کہانی میں بالآخر وصل ایسی طمانیت کا لمحہ بھی آتا ہے ’’برآمدے میں بیٹھے، فہیم کو خط کو پڑھتے، لان کے نکھرے سبز مخملیں قالین جیسے گھاس اور دیسی گلاب کی جھاریوں پر دُھوپ کے جوبن کو تکتے ہوئے اُسے احساس ہوا کہ اگر فردوسِ بریں ہے، تو یہیں ہے۔‘‘
یو مالائی طرزِ فکر میں فردوسِ بریں خالی سکون اور امن و آتشی کا گہوارہ نہیں، رزم گاہ خیرو شیطان ہے۔ کوئی خالص نیکی، وصل اور لذتِ مطلق نہیں۔ اس دنیا میں خرابی خیر کے اندر رچی ہوئی ہے۔ پرائی مارڈیل امیجری کا استعمال اس کی اور فہیم کی حکایتِ جسم کو ایک مابعد الطبیعیاتی سوال تک لے جاتی ہے۔
’’ایسی دنیا کہاں سے لائیں جو خالصتاً خیر ہو، وصل ہو، سرشاری ہو!‘‘یہ پہلو ’’آنسو کا نمک‘‘ اور’’ایبل اوروہ‘‘میں نمایاں ہے۔
’’سب سے آخر میں پاکستانی لڑکی نمودار ہوئی۔ اس نے پھیکے رنگ کی بیل باٹم کے بجائے نیلے رنگ کی ریشمی شلوار پہن رکھی تھی۔ چٹیا کے بجائے اپنے بالوں کو جوڑے کی شکل میں سمیٹا ہوا تھا۔ جوڑے میں ایک گلابی کلی سجی تھی۔ آنکھیں کسی اندرونی جذبے سے چمک رہی تھیں۔ ’’نیلا رنگ موت کا استعارہ بھی ہے:‘‘ اندر ایک بوڑھی سکڑی ہوئی ممی تھی جو منوں برف کی تہہ میں دب کر منجمد ہو چکی تھی۔ اس کا رنگ زہریلا نیلا تھا اور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔‘‘ (شہر ہول)
نیلے رنگ کا یہ استعمال سیاہ، سرخ اور مٹیالے رنگوں کی جکسٹا پوزیشن میں عطیہ سیّد کے یہاں ایک شخصی و ذاتی معنویت کا رُوپ دھار لیتا ہے۔
عطیہ سیّد کی کئی کہانیوں کی ساخت خاص انداز کی ہے۔ پہلے مرکزی واقعہ یا کردار آتا ہے جو بتدریج آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر چند ثانوی کردار یا واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں ان کا ابتدائی تعارف کہانی کی شکل و صورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ان ثانوی کرداروں یا واقعات کی بدولت مرکزی واقعہ یا کردار میں پھیلاؤ اور وسعت پیدا ہوتی ہے اور افسانہ آگے بڑھنے لگتا ہے۔ یوں کبھی مرکزی کردار اور کبھی ضمنی واقعات فوکس میں آتے رہتے ہیں۔ یہ ثانوی وقوع کہانی کے مرکزی کردار کو توسیع دیتے ہیں۔ یوں کسی ثانوی کردار اور ضمنی واقعات کہانی کے مرکزی بیانیہ کے جلو میں چلنے لگتے ہیں حتیٰ کہ کہانی اپنی تکمیل کو پہنچ جاتی ہے۔
’’چھ بجے کی خبر‘‘کا مرکزی کردار پچاس سالہ سسٹرٹریزا ہے جس کے ہونٹ راہبانہ سرد مہری سے بھنچے ہوئے نہیں بلکہ ہر وقت مسکرانے کو تیار رہتے ہیں۔ وہ نادار حبشیوں اور مفلوک تارکینِ وطن کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ سسٹرٹریزا سڑک کے جس فٹ پاتھ پر چل رہی ہے، اس پر چند قدم کے فاصلے پر جواں سال لُچے لفنگوں کا ایک گروہ موجود ہے۔ اس مرحلے پر تین ثانوی کردار ظاہو ہوتے ہیں۔’ریڈ ایڈین فرسٹ مون‘ دوسراحبشی ٹام ہسلر اور تیسرا اسلوڈور کا مہاجر ڈان کارلوس! ان تینوں کرداروں کو عطیہ سیّد نے ایک ایک پیرایہ گراف میں متعارف کرایا ہے۔ یہ تینوں کردار امریکن زندگی کے مرکزی دھارے سے الگ ہیں۔ سٹرٹریزا جب ان تینوں کے پاس سے گزرتی ہے تو اس کے وجود کو یوں جھٹکا لگتا ہے جسے وہ انجانے میں کسی برقی مقناطیسی حصار سے ٹکرا گئی ہو۔ وہ حیرت سے ان لڑکوں کی جانب دیکھتی ہے اور اس سوچ میں غلطاں رہتی ہے کہ اسے جھٹکا کیوں لگا۔ ابھی سسٹرٹریزا اسی خیال میں گم تھی کہ اسے مسز فاؤلر کی شکل نظر آئی۔ چند جملوں کے بعد مسز براؤنسکی کا گھر اس منظر نامہ میں ظاہر ہوتا ہے ان چھوٹے چھوٹے واقعات اور ان سے ملحقہ کرداروں کے بعدمرکزی بیانیہ پھر شروع ہوتا ہے۔
’’ چرچ کی چندے کے صندوقچی میں جمع شدہ رقم کا حساب،اچانک مرکزی دروازے کے پٹ زور دار دھماکے کے ساتھ کھل جاتے ہیں۔ فرسٹ مون، ٹام ہسلر اور ڈان کارلوس اندر داخل ہوتے ہیں۔ اس پر سسٹرٹریزا کہتی ہے کہ آؤ ، میرے بچو، اپنے گناہوں کا اعتراف کر لو۔ سسٹرٹریزا کو جواب ملتا ہے ہم اعتراف کروانے کے لیے آئے ہیں۔ فرسٹ مون، ٹام ہسلر اور ڈان کارلوس اپنے اپنے ذاتی تناظر کے حوالے سے سسٹرٹریزا پر فردِ جرم عائد کرتے ہیں۔ بحث و تمحیص کے بعد کہانی مکمل ہوتی ہے: آج صبح ہارلم کے گرد و نواح میں واقع ایک قدیم چرچ کی منتظمہ راہبہ سسٹرٹریزا مردہ پائی گئی۔ قتل کے محرکات واضح نہیں کیوں کہ چندے کی رقم سے بھری صندوقچی جوں کی توں محفوظ ملی۔ کہانی بتانے کی عینک دوستوئیفسکی نے وسیع پیمانے پر اپنے ناولوں میں استعمال کی ہے۔ عطیہ سیّد نے اپنی ہنر مندی سے اس تکنیک کا مِنی ایچر اپنے افسانوں کے در و بست میں سمیٹا ہے۔
عطیہ سیّد کی بیشتر کہانیوں کا مواد امریکن بود و باش سے حاصل کیا گیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ عطیہ سیّد نے یہ استعداد کیوں کر بہم پہنچائی۔ ان کہانیوں میں امریکن زندگی کی گہری واقفیت رچی بسی ہوئی ہے۔ ان کہانیوں میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، اگرچہ وہ امریکن طرز زیست سے ہی متعلق ہیں، لیکن انھیں اس پیرائے میں اٹھایا گیا ہے کہ وہ بھر پور معنویت کے حامل ہو گئے ہیں۔
’’ہوٹل سلا زار‘‘، ’’بنتِ اسرائیل‘‘، ’’پریزدا‘‘، ’’شہرِ ہول‘‘،ایسی کہانیوں میں جنھیں امریکی معاشرے کی گہری بصیرت کے بغیر نہیں لکھا جا سکتا۔ ان کہانیوں کا ایک پہلو ان کا معنویت پر اصرار ہے۔ یہاں امیجری کا بہاؤ ایسا نہیں کہ معنویت کا یوں اخراج ہو سکے جیسے ’’ آنسو کا نمک‘‘ میں ہوا۔ بلکہ اکثر سوالات فلسفۂ وجودیت کے زیر اثر اٹھائے گئے ہیں۔’ پیٹر ہینڈ کے‘ نے جرمنی سے امریکہ کا دورہ کیا اور ’’شارٹ لیٹر‘‘، لونگ فیئر ویل۔‘‘ کے نام سے ایک ناول تحریر کیا۔ اگرچہ مغربی کلچر کی بہت سی خصوصیات مشترک ہیں، لیکن’ پیٹر ہینڈ کے‘ موضوعات پاپولر فکشن کی ذیل میں آتے ہیں، کوئی باطنی واردات کا کرشمہ نہیں دکھاتے۔ عطیہ سیّد نے ’’شہر ہول‘‘ میں لکھا:۔’’ زیست کا اصل اصول کرب ہے۔‘‘ ایک طرح سے یہ جملہ ایک مینی فسٹو کادرجہ رکھتا ہے۔ ’’شہر ہول‘‘ امریکی زندگی کا استعارہ ہے اور کئی چھوٹے چھوٹے، آپس میں گندھے ہوئے واقعات سے اس استعارے کی تہیںاُبھاری گئی ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ امریکن زندگی کا مرکزی نقطہ کرب ہے، دکھ ہے، اذیت ہے، بے حسی ہے،محرومی ہے! ’’شہر ہول‘‘ کو پھیلایا جاتا تو یہ ایک ناول بن سکتا تھا۔ اپنی موجودہ صورت میں اس میں کئی واقعات ہیں جو مل کر کہانی کی بنت میں حصہ لیتے ہیں۔ دولت کی چکا چوند، افراط و بہتات اور سرمائے کے ارتکاز کے ساتھ ناداری، غربت اور محرومی کو ادل بدل کر بہت مہارت سے سامنے لایا گیا ہے۔ یہی دیکھیے کہ بس سٹاپ پر کھڑی نو خیز لڑکیاں بار بار کسی کتاب کو بے احترام سے کھولتیں، پڑھتیں اور بند کر کے پھر اپنے بٹووں میں محفوظ کر دیتیں۔ جس عقیدت و احترام سے وہ یہ تکرار کر رہی تھیں اس سے یہ شک گزرتا تھا کہ شاید بائیبل یا کوئی اور آسمانی کتاب ہے دراصل یہ ان کی اکاؤنٹ بکس تھیں جنھیں وہ مذہبی عقیدت و احترام سے سنبھالے ہوئے تھیں۔ یہاں مغائرت کی حد ہو گئی ہے۔ انسان کی روحانیت کس طر ح پر استعمال ہو رہی ہے۔ جہاں سرمائے کا ارتکاز اس حد تک ہو، انسان کی ہر قدر بدہیئت ہو جاتی ہے۔ کھربوں پتی صنعت کار ڈی کولٹ اس سرمائے کے نظام کا مہاپروہت ہے۔وہ ایک بادلوں کو چھوتی ہوئی انتہائی بلند و بالا عمارت کے اوپر کے خالص طلائی منزل میں رہائش پذیر تھا۔ دس برس پہلے وہ ایک ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر اوپر کی منزل پر اترا تھا، پھر اس کی صورت کسی نے نہیں دیکھی۔؛ وہ سب کام فون اور کمپیوٹر کے ذریعے کرتا،کھانا ایک سروس ٹرالی کے ذریعے نچلی منزل میں واقع باورچی خانے سے اوپر اس کے کمرے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی کے ذریعے پہنچ جاتا۔ اس کی پانچوں شادیاں نا کام ہوئیں۔ اس کے دو بچے ہیں جن سے گذشتہ پندرہ برسوں سے کوئی ملاقات نہیں۔بچے اسے اپنی آزادی میں حائل تصور کرتے ہیں۔یہ مغائرت، اجنبیت اور لا تعلقی ڈی ڈی کولٹ اور اس کی اولاد کا ہی مقدر نہیں، ہر اس شخص کا نصیبہ ہے جو اس نظام کے زیر اثر زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ قلعہ بند، ڈی ڈی کولٹ عطیہ سیّد کے ہاں ایک اور علامت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے: ’’بسیط سمندر میں گھرا ہوا چھوٹا سا قطعۂ ارض۔‘‘ جزیرہ کے اندر کسی حرکت کی خبر نہیں لیکن چاروں طرف سمندر کی موجوں میں مدو جزر بلکہ طوفان تک کی صلاحیت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز کے چوگرد اتھل پتھل اور کشاکش کی گہما گہمی ہے۔ اتنی با معنی رسائی کے بعد کہانی یہ فروعی سوالات اٹھاتی ہے: جان کنی کے ان اختتامی لمحات میں کولٹ کیا سوچتا ہو گا؟ وہ اس وقت بھی دربستگی پر مطمئن تھا یا پچھتاوے کی پچھل پائی نے اسے گھیرا تھا؟ وہ کون سا روگ تھا، کون سی زخم خوردگی تھی جس نے اس طاقتور شخص کو قلعہ بند کر دیا تھا۔ یا پھر اپنی قوت کا گھمنڈ، اپنی انا اور اپنی انفرادیت کا غرور تھا جس نے اسے ایک ایسا آشیانہ بنانے پر مجبور کر دیا تھا۔ جو عقابوں کے گھونسلے کی طرح اونچی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان بجلیوں اور طوفانی ہواؤں کی زد میں تھا لیکن اس کی تنہائی طویل اور بے کسی مسلّم تھی۔ یہ تمام سوالات انسانوں کی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانی زندگی کو اس حد تاراج کرتاہے کہ سوال پیدا ہی نہیں ہو پاتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی وہ داخلی بصیرت موجود ہے جس نے پہلے ڈی ڈی کولٹ کو ایک جزیرے کے طور پر دیکھا تھا، دوسری مرتبہ اسے اپنے ہمدردانہ سوالات کے بالکل برعکس سنگلاخ چٹانوں پر گھونسلے کی صورت میں واضح کیا ہے جو بجلیوں اور طوفانی ہواؤں کی زد میں تھا۔ جو ایک طرح کا جزیرہ ہے جو لہروں کے تھپیڑوں کی مار پر ہے۔ یہی تاریخی جدل ہے جسے عطیہ سیّد وجودی تنہائی اور کرب کے بنیادی سوالوں کے ذریعے سے نہیں دیکھنا چاہتیں، لیکن ان کی پرسپن اُسے جتلا کر رہتی ہے۔ ورجنیا ولف کا ’’لائٹ ہاؤس‘‘ بھی سنگلاخ چٹانوں کی اجاڑ تنہائی میں کھڑا ہے۔ اسلوب اوربنیادی موضوع میں ورجینا زلف کا ناول ’’ٹو دی لائٹ ہاؤس‘‘ بہت مختلف ہے لیکن ان کے اندر پرسپش اور حسیّت میں کافی مشابہت ہے۔‘‘ زندگی کٹھن ہے۔‘‘ ورجنینا ولف نے لکھا ہے یہی سوال عطیہ سیّد نے بھی اٹھایا ہے۔ مسز ریمیزے کا کردار ایسا ہے کہ اُس میں شفقت اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔وہ ایسی شخصیت ہے جو اِن ہی سوالوں سے دست و گریباں ہے، جو ’’شہرِ ہول‘‘ میں ڈی ڈی کولٹ کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ ورجینا کے یہاں محبت اور شفقت کا محور، مجبور، بیکس لاچار اور نادار ہیں، کوئی ڈی ڈی کولٹ نہیں!
’’شہرِ ہول‘‘ ہی سے: ’’براڈ وے جہاں تمناؤں کی تکمیل خوابوں کی تجسیم سے ہوئی ہے۔ مگر خوابوں کی اس صنعت گاہ میں رات کے اس پہر سڑک کے کنار ایستادہ بلند و بالا عمارتیں ہیبت کا سیاہ لباس اوڑھے کھڑی تھیں بجلیوں کی چکا چوند اور نیؤن سائنز کی جلتی بجھتی روشنیوں کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر ہی تھی لیکن اداسی کی ایک عجیب باس براڈ وے کے کوچوں سے اُٹھ رہی تھی۔ ’’یہ بیانیہ ڈی ڈی کولٹ کی رہائش گاہ کی ہی نہیں۔ ورجینا ولف کے ’’لائٹ ہاوس‘‘ کی بھی یاد دلاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جیمز ریمزے کو لائٹ ہاؤس کا خیال ہی غیر معمولی خوشی سے روشناس کرتا تھا، اداسی کی باس سے نہیں۔ شہرِ ہول کی تعمیر میں نا آسوددگی، زخم خوردگی، ظاہر پرستی، بے کسی کے عناصر کا اژدھام ہے ڈیبی اور ڈورین کی سینک بار کا پیغام ہے۔ ہم بہت ٹوٹ چکے ہیں اس لیے پم سے مزید کسی رسمی تجارتی پیشہ ورانہ خوش اخلاقی کی توقع نہ رکھی جائے۔ مشہور بیٹل جان لینن کا آئینہ خانہ علامیہ ہے نمائش، لایعنیت اور مجہولیت کا! مسز فان کریمر کی موت افراط کے ماحول میں گھناؤنا حملہ ہے۔ یہ تمام مختلف واقعات شہرِ ہول کی تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔ دیر از سم تھنگ راٹن ان دِس سٹیٹ! یہ فیصلہ ایک صداقت کا اعلان ہے جسے انتہائی خوبصورتی اور مہارت سے عطیہ سیّد نے تشکیل دیا ہے۔
ورجنیا ولف نے ’’ٹو دی لائٹ ہاؤس‘‘ میں کئی موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ مردوزن کے تعلقات کا گہرا مطالعہ، وقت کا بتدریج تاراج کرنا (عبداللہ حسین)، موت و حیات، فطرت کے مظاہر کے توسط سے ان موضوعات کی ترسیل ورجنیا ولف کے ہاں بغایت اہم ہے۔وقت، حیات اور موت کی تکون عطیہ سیّد کی کہانی’’خزاں میں کونپل‘‘میں بھی موجود ہے پہلے تو وقت کی پیش آگاہی ہے:’’ گھڑی کی ہر ٹک سے اس کا دِل دھڑک اٹھتا اور پسلیوں سے جا ٹکراتا۔ سنسنی سی اس کے جسم میں پھیل گئی‘‘ کچھ ہونے کو ہے؟ اس کے ذہن میں یہ آواز گونجی، ’’مگر کیا؟‘‘ ٹک۔ٹک۔ٹھک۔ٹھک جیسے اس کے اندر کوئی گھڑی بند تھی جس کے لمحے پھسلتے چلے جا رہے تھے۔ یہاں مجرّد وقت انسانی حواس کے تال میل سے زندہ ہوتا ہے۔ لیکن اس امیج کے اوپر ایک اور سلسلہ امیج استوار ہوتا ہے: ایک کمرہ ہے جہاں دیواروں کی چھوٹی بڑی گھڑیاں نصب ہیں۔ ٹک ٹک کرتی! سامنے کا وال کلاک پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ دیو زاد! اور وہ اس کے بطن میں بند ہے۔ جس کی قوی ہیکل سوئیاں تیزی سے حرکت کر ہی ہیں۔ وہ گھڑی کے اندر دوڑنا شروع کر دیتی ہے۔ لیکن آہنی تیز دھار سوئیاں اُسے آ لیتی ہیں اور چھلنی کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہیں۔ یہ کابوس، نائٹ میئر، دہشت ناک دغدغہ اسے خوابوں میں جھنجوڑتا ہے۔ یہاں سے وقت کا تجربہ والد کے فالج اور صورتِ حال سے وائی کیریس انداز میں ہونے لگتا ہے۔ وہ دنیا جو حیات و موت کے درمیان ہے، جہاں سیاہ اور سلیٹی رنگ ہر چیز پر محیط ہوتا ہے۔ ورجنیا ولف نے لگا تار بارشوں، نباتات کی اندھی یورش اور سمندری لہروں کی یلغار کے ذریعے وقت کی اُس بے رحمی کو دکھایا ہے جو انسان اور اس کی تہذیب و تعمیر کو تخت و تاراج کرتی ہے۔ یہی امیجری عطیہ سیّد کے یہاں بھی موجود ہے۔ بلکہ اس کی ایک فارمیولیشن: ’’وینس ڈوب رہا ہے،‘‘ اس نے سوچا: ’’نیستی اُسے نگلنے کو ہے۔‘‘ اس قسم کے فار میولیشن سیمون دی بوار کے یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ورجنیا ولف کی تحریر اپنے غالب بہاؤ میں حسیاتی ہی رہتی ہے۔ غفلت، بے ہوشی اور موت کے سایوں میں وینس ڈوب رہا ہے۔ ارفع انسانی تہذیب کا علامیہ وینس ڈوب رہا ہے۔ وہ ڈوب رہی ہے، مکمل تاریکی اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس کی اندر لگی ہوئی گھڑی کی ٹک ٹک کا متعین تسلسل ٹوٹ چکا تھا۔ اُسے یہ احساس ہو چلا تھا کہ وہ کسی گہرے کھڈ کی ڈھلوان پر چل رہی تھی۔ پانیوں کا شور، اڑتے بادلوں کی تحلیل، پتوں کی شاخوں سے جدائی، سب فنا کا خرام تھا۔ مماثلت اور تقابل کی موجودگی میں ورجینا ولف کا بیانیہ دیکھیے:
’’شمعیں گل ہونے کے بعد چاند ڈوب گیا، چھت پر ہلکی سی پھوار جلترنگ بجاتی ہوئی، شدید گہری تاریکی دُھواں دھار برسنے لگی، یوں دکھائی دیتا تھا کہ اس طوفانِ تیرگی سے کچھ محفوظ نہیں۔ تاریکی کی افرا ط دور دریچوں کی جھریوں سے نکلتی آ رہی تھی۔ تاریکی کھڑکیوں کے بلائنڈز سے چوری چھپے نکلتی ہوئی بیڈ رومز میں داخل ہو رہی تھی۔ تاریکی نگل رہی تھی۔ یہاں جگ اور بیسن کو، وہاں زرد اور سرک ڈیلیا کے گلدستے کو۔‘‘ اس نے بستر سے اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ سپیدہ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ یہ صبحِ ازل تھی۔ پرندہ اپنا ابدی گیت گا رہے تھے۔ ہر چیز شبنم سے دھلی دھلائی اور نکھری ہوئی تھی۔ کتنی حسین اور مختصر۔۔۔۔۔۔ اور کتنی عزیز۔ اس لمحہ اس کی روح کی سنگلاخ پہنائیوں سے ایک ننھی سی جنگجو کونپل نے سر اٹھایا جو پتھریلی زمین کے سینے سے پھوٹنے کو تھی، پھلنے کو تھی۔‘‘
’’خزاں میں کونپل‘‘کا اختتامیہ انسانی اُمیدوں کا لافانی افق ہے۔ اس کے ساتھ ’’ شہرِہول‘‘ کی یہ فارمیولیشن بھی ہے کہ دُکھ ازلی و ابدی ہے۔ انہی انتہاؤں کے درمیان، عطیہ سیّد کا رزارِ حق و باطل میں مبازرت طلب ہے: میری تمام تر نیک تمناؤں عطیہ کے ساتھ ہیں