بورجن ڈش اورجنشاگاڈری ( Dashdorjiin Natsagdorj) (١٧ نومبر ١٩٠٦- جون ١٩٣٧)
منگولیا کے اھم شاعر اور ڈرامہ نگار ::
ان کو جدید منگولین ادب کا بیناد گزار کہا جاتا ھے۔ نظریاتی طور پر وہ منگولیا کے“کلاسیک سوشلسٹ“ کہلاتے ہیں۔ بورجن منگولیا کے صوبے “ٹوایمنگ“ کی ایک جھیل “لن“ کے کنارے ایک غریب خاندان میں پیدا ھوئے۔ ان کے گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔ گھر پر ایک استاد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گیارہ (١١) سال کئ عمر میں فوج میں بحثیت “ مصنف“ بھرتی ھوئے۔ لینین گراڈ (روس) کی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کی۔ ١٩٢٩ سے ١٩٢٩ تک فرانس اور جرمنی میں قیام کیا اور منگولین ادیبوں کی یونین تشکیل دی اور اس کے پہلے صدر منتخب ھوئے۔ ١٩١٧ کے روسی انقلاب نے منگکلیں ادب پر گہرے اثرات ثبت کئے۔ برجن کا تعلق ١٩١٧ سے شروع ھوکر ١٩٨٩ تک ھونے والی “ سوشلسٹ حقیقت پسندی“ سے ھے۔ ١٩٣٠ میں کمیونسٹ نظریات کے سبب وہ حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے۔ ١٩٣٢ میں گرفتار ھوئے اور اسی سال جیل سے رہا ھوئے۔ اسی سال انھوں نے شادی کی۔ صرف اکتیس (٣١) سال کے عمر میں انتقال ھوا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیوی بچون نے منگولیا کو خیر باد کہ دیا۔
ان کی نظموں مین حب الوطنی،قرم پرستی، رومانویت، انقلابی اور تعلیمی نوعیتوں کے تصورات نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ جس میں منگولیا کے کی خوب صورتی کا رومانس اور جمال کا احساس ملتا ھے۔ ان کی علمی نظموں میں۔۔،:ستارا“۔۔ “دیوار پر مصوری“۔۔ ہیں۔ ان کی المیہ عشقیہ کہانی کو “ تین اداس پہاروں“ کے نام سے نظمیہ روپ میں پیش کیا گیا بعد میں اسے ڈرامے کی صورت میں بھی پیش کیا گیا۔ ١٩٣٠ میں ان کی ایک کہانی “سیاہ پتھر“ میں روح اور
محبت کے فلسفے کو گہرائی سے پیش کیا گیا ھے۔ اس کہانی میں انھوں نے اپنی شادی کی ناکامی کا خدشے کا اظہار کیا تھا۔ ان کی دیگر نظمیں ۔۔ “ مادر وطن“۔۔ “شاعری کی تاریخ“،۔۔ کو انقلابی لہجے کی نظمیں قرار دیا جاتا بورجن نے مضامین بھی لکھے ہیں۔ جن کا عنوانات ۔۔۔“خزاں، بہار، چار موسم، پرانے وقتوں کا لڑکا،نیا سال، اور سیاہ آنسو“۔۔ ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...