رومی سلطنت کئی لحاظ سے ایلزبتھ کی سلطنت سے جدید تھی۔ ان کے پاس کمپاس نہیں تھے، پنڈولم والی گھڑیاں نہیں تھیں، گن پاوٗڈر نہیں تھا، چھاپہ خانہ نہیں تھا۔ لیکن بہت سے غلام تھے۔ جو کتابیں لکھ کر کاپی کرتے تھے۔ کشتیاں چلانے کے لئے انہی غلاموں کی انسانی طاقت تھی۔ منجنیق کی شکل میں آرٹلری تھی۔ پانی اور سورج کی گھڑیاں تھیں۔ سڑکیں بہتر تھیں، سنٹرل ہیٹنگ تھی اور حمام تھے۔
شیکیپئیر کے لکھے ناول “جولیس سیزر” میں مکینیکل گھڑی بھی ہے اور قطب نما بھی۔ آج کا کوئی بھی ناول نگار کئی صدیوں پہلے واقعات لکھتے وقت یہ سوچنے کی غلطی نہیں کرے گا کہ ماضی آج جیسا تھا۔ شیکسپئیر جیسے ادیب، جو تاریخ سے بہت اچھی واقفیت رکھتے تھے، انہوں نے ایسی غلطی کیوں کی؟ وقت کے ساتھ ترقی لازم ہے۔ یہ آج کا عام تصور ہے۔ سولہویں صدی آج جیسی نہیں تھی۔ “دریافت” یا “ڈسکوری” کا لفظ زبان کا حصہ تک نہیں بنا تھا۔ دریافت کی دریافت ابھی ہونی تھی۔
تمام علم انسان کے پاس موجود ہے۔ بس خود کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ یونانی فلسفے کا یہ خیال مقبول تھا۔ ہم اگر دماغ لڑائیں اور منطق استعمال کریں تو دنیا کو سمجھ جائیں گے۔ اسی لئے دنیا کو جاننے کا طریقہ فلسلفہ ٹھہرا۔ دنیا تنزلی اور ترقی کے چکروں میں گھومتی ہے۔ نیا دریافت کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ اپنی لاعلمی سے لاعلمی مغربی یورپ کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ تھی۔
قدیم فلسفے کی ان زنجیروں نے مشرقِ وسطیٰ کو نہیں جکڑا تھا۔ اپنی لاعلمی کا احساس کرنے والا ایک بڑا دور اسلامی سنہرا عہد تھا۔ یہ خطہ اپنی رواداری، سوچ و فکر کی آزادی اور علم کی جستجو جیسی اقدار کی وجہ ترقی کی دوڑ میں آگے تھا۔ صدیوں تک علم کا سفر کرنے کے بعد سیاست کی کروٹوں نے اس کی ترقی روک دی تھی۔
دنیا میں آگے بڑھنا کسی کا حق نہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے حرکت شرط ہے۔ قدرت کے اس اصول کا عملی مظہر علم کی شمع کا مغرب کی طرف سفر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں یہ انقلاب یونیورسٹیوں اور درس گاہوں کے سکالر یا کمروں میں مباحث کرنے والے فلسفی نہیں لے کر آئے تھے۔ کچھ نیم خواندہ ملاحوں، لین دین کا حساب رکھنے والوں، مصوروں، قسطنطنیہ سے آنے والے شیشہ گروں اور منافع کی تلاش میں سرگرداں سنار کا اس میں سب سے بڑا ہاتھ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بطلیموس کے بنائے گئے نقشے میں یورپ، ایشیا اور افریقہ موجود تھے۔ ان سے آگے کیا ہے؟ یہ نامعلوم تھا۔ تجارتی راستے بند ہو جانے کے سبب برِصغیر تک پہنچنے کے لئے نئے راستے تلاش کرنا یورپ میں ترجیح تھی۔ یہاں پر سمندر میں کشتیاں دوڑانے والی ٹیکنالوجی اس مجبوری کی تحت ترقی کر رہی تھی۔ دنیا چپٹی نہیں۔ یہ علم تو سب کو تھا لیکن کیسی ہے، اس کے بارے میں کئی خیالات تھے۔ زیادہ مقبول خیال یہ تھا کہ خشکی کا کرہ پانی کے کرے سے گھرا ہوا ہے۔ پرتگالی ملاحوں نے بحرِ اوقیانوس میں ازورس کے جزائر دریافت کئے تو یہ دریافت اس لئے حیران کن تھی کہ کسی بھی پرانی کتاب میں ان کا ذکر نہیں تھا۔ لیکن یہ ناقابلِ ذکر تھا۔ بڑا شاک ابھی آنا تھا۔
امریکہ میں انسان کئی مرتبہ پہنچا ہے۔ 1492 میں کولمبس پہلے شخص نہیں تھے جو امریکہ پہنچے لیکن کولمبس امریکہ پہنچنے والے سب سے اہم مہمان ضرور تھے۔ اس سفر کے متعلق کولمبس کے اندازے بالکل غلط تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ جزائر غرب الہند تک پہنچے تو ان کا خیال تھا کہ وہ جاپان کے قریب ہیں۔ (اگر راستے میں امریکہ نہ آتا تو اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ کولمبس بحرالکاہل پار کر سکتے)۔
کولمبس کو خود اپنی زندگی میں علم نہیں ہوا کہ وہ نیا برِ اعظم دریافت کر بیٹھے ہیں۔ اس راستے پر سفر کرنے والے اطالوی مہم جو امریگو وسپوچی کو یہ خیال آیا۔ کولمبس کی دریافت کے پندرہ سال بعد 1507 میں پہلی بار مارٹن والڈسی میولر نے دنیا کے نقشے میں ایک نئے برِاعظم کا اضافہ کیا۔ امریگو وسپیوچی کے نام پر اس کا نام امریکا رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر کولمبس کے سفر کی اپنی سیاسی اور تاریخی اہمیت رہی۔ وہاں پر اس کی ایک اور بڑی اہمیت فکر بدلنے کی تھی۔ نئی چیز دریافت ہو سکتی ہے۔ یہ اس سفر کی اور اس کہانی کی سب سے اہم دریافت تھی۔ اس بنیادی نکتے کو خود سمجھتے وقت لگا۔ (فکر کی تبدیلی آتے آتے وقت لیتی ہے)۔ دریافت کا لفظ خود موجود نہیں تھا۔ لاطینی میں “ڈسکوپیریو” پردہ ہٹا دینے کو کہتے ہیں۔ وسپوچی نے یہ لفظ نیا برِاعظم ملنے کے لئے استعمال کیا اور لکھا کہ ہمارے آباء میں سے کوئی اس کو نہیں جانتا تھا۔ یہ نئی دنیا ہے۔ یہ لفظ ترجمہ ہو کر ڈچ میں 1524، پرتگالی میں 1551، اطالوی میں 1552، فرنچ میں 1553، ہسپانوی میں 1554، انگریزی میں 1563 اور جرمن میں 1613 میں داخل ہوا۔ (انگریزی لفظ “ڈسکوری” ہے)۔
دریافت کا لفظ اب اس قدر عام ہے کہ اب ہمارے لئے شاید ایسی دنیا کا تصور کرنا مشکل ہے جس میں یہ لفظ نہ ہو۔ پرنٹنگ پریس، گن پاوڈر یا کمپاس کی ایجاد کو کئی بار دنیا بدلنے والی ایجادات کہا جاتا ہے لیکن ان سے زیادہ اہم شاید دریافت کے لفظ کی ایجاد تھی۔ نئے الفاظ نیا تصور لے کر آتے ہیں اور نئے تصور نئے الفاظ۔
کمروں میں بیٹھے مباحث سے دنیا کو نہیں جانا جا سکتا۔ اس کو جاننے کے لئے کھوج کرنی پڑتی ہے، عمل کرنا پڑتا ہے، محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس دنیا میں نئی چیزوں کو جانا جا سکتا ہے۔ صدیوں پہلے مشرق میں بھلائے گئے اس سبق کو ایک بار پھر ہم نے واپس پا لیا تھا۔
نیم خواندہ ملاحوں نے طرزِ کہن پر اڑنے پر بضد سوچ پر ایک بڑی ضرب لگائی تھی۔ اس کا احساس رفتہ رفتہ ہو گیا۔ دنیا کو اس سے آگے لے جانے میں اگلی باری اب لین دین کا حساب رکھنے والوں، مصوروں، قسطنطنیہ سے آنے والے شیشہ گروں اور منافع کی تلاش میں سرگرداں سنار کی تھی۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر پانچ سو سال پرانے اس پہلے نقشے کی ہے جس میں امریکہ کو دنیا کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
اس کے مواد کا بڑا حصہ ان کتابوں سے
The Invention of Science: David Wootton
How we Got to Now: Steve Johnson