دریائے سندھ جب سمندر میں گرتا ہے تو یہ کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور سمندر میں پھیل کر گرتا ہے۔ اصل میں دریا کا ڈیلٹا بننا وہ عمل ہے جس میں دریا سمندر سے زمین حاصل کرتا ہے۔ دریا کی شاخیں ڈیلٹا کے اس عمل کی نشادہی کرتی ہیں جو کسی وقت زیادہ فاصلہ پر شمال سے شروع ہوا تھا اور رفتہ فتہ ساحل کے سمندر میں آگے بڑھ جانے کی وجہ سے خود بھی آگے بڑھتا ہے رہا اور اب موجودہ دہانہ کے قریب جاری ہے۔
قدیم زمانے میں سمندر کافی آگے تک پھیلا ہوا تھا۔ مگر دریا نے اپنی مٹی کو پھیلانے کے عمل سے ساحل سمندر کی زمین اونچی کر کے سمندر کو پیچھے دکھیل دیا ہے۔ یہ دریا کا مٹی کو پھیلا نے کا یہ مرحلہ ہے جو ڈیلٹائی علاقے میں ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے میدان کا رقبہ مٹھن کوٹ میں پانچوں دریاؤں کے سنگم سے آخر تک بشمول ڈیلٹا کم از کم بیس ہزار مربع میل ہے۔ چنانچہ سندھ کا پورا میدان ہی اس عمل سے وجود میں آیا ہے۔ سندھ دریا ڈیلٹا کی نمود اس وقت شروع کرتا ہے کہ جب سمندر کا پانی دریا کے پانی کے بہاؤ کی رفتار سست کو دیتا ہے اور جس کی وجہ سے دریا ساحلی علاقے میں شاخوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ خیال رہے یہ سست رفتاری کا اثر ایک سو میل لمبی شاخوں سے زیادہ نہیں ہوسکتا ہے۔ میدانی علاقوں کی طرح دریائے سندھ ڈیلٹا کے علاقہ میں بھی اپنی گزرگاہوں کو بلند کرنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ یعنی یہ اپنی مٹی کو آخری مرحلہ میں کناروں پر پھیلاتا رہتا ہے اور یہ عمل خاصی تیزی سے جاری رہتا ہے۔ یہ عمل صرف سیلاب کے زمانے میں نہیں عام موسم میں بھی جاری رہتا ہے۔
سندھ کا دیلٹا دریائے نیل سے بہت چھوٹا ہے۔ چنانچہ زیریں سندھ نے اپنی مٹی سے جو میدان بنایا ہے وہ دریائے نیل کی پیدا کردہ میدان سے تقریباً دو گناہ ہے۔ کیوں کہ دریائے سندھ کے پانی میں ملی مٹی دریائے نیل کی مٹی سے تین گناہ زیادہ ہے۔ اس طرح دریائے نیل کا سیلابی اخراج سندھ کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ ہے۔ لہذا سندھ کا میدان جو کہ دریا کی مٹی سے بنا ہے دوگنا ہے۔ سندھ کا ڈیلٹا ہر صدی میں سات انچ بلند ہوتا رہا ہے اور یہ مصر کی نسبت چار انچ زیادہ ہے۔ موہن جوڈورو کی کھدائی کے دوران اس بارے میں بہت مفید معلومات حاصل ہوئیں اور اب قیاس کی جاتا ہے کہ میدان کا وسطی حصہ جس میں گزشتہ پانچ ہزار سالوں سے دریائے سندھ نے اپنا بہاؤ جاری رکھا ہوا ہے تقریباً تیس فٹ بلند ہوا ہے یعنیٰ ہر صدی میں اوسطاً سات انچ بلند ہوا ہے۔ یہ بھی اندازا لگایا گیا ہے کہ دریا سے ملحقہ علاقہ میں جہاں تقریبا سو سال سے مسلسل بہہ رہا ہے یہ سو سال میں بلندی تقریباًً ایک فٹ ہے۔ دریا سے زیادہ فاصلہ پر یہ اوسط بتدیخ کم ہوتا جائے گا۔
اس بات کی شہادت موجود ہے کہ نسبتاً تھوڑے زمانے میں زمین نے سمندر کے خاصے حصے پر قبضہ جمالیا ہے۔ لیکن اس مخالف عمل کی کوئی شہادت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ1873ء اور 1904ء کے درمیانی حصہ میں دریائے سندھ کے دھانے پر ستانوے مربع میل کا نیا علاقہ زمین میں شامل ہوا ہے اور اس اضافہ کا مرکزی حصہ وہ مرکزی جگہ ہے جو سمندر کے مقابل ہے۔ یہاں بھی دریا کی وہ شاخیں سمندر میں گرتی ہیں جن سے دریا کے پانی کی بیشتر مقدار خارج ہوتی ہے۔ گھارو اور کوری کریک کے درمیان یہ نئی زمین ڈیلٹا کے ساحلی نصف دائرے سے نمایاں طور پر آگے نکلی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 1930ء میں سیلاب کے پانی کو روکنے کے لیے جو آخری پشتے دریائے سندھ پر تعمیر کئے گئے ان سے پشتوں کا طویل سلسلہ مکمل ہوگیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ دریا کے اخراج کے صدر دہانے ڈیلٹا کے اس مرکزی علاقہ میں ایک صدی سے چلے آرہے ہیں اور اس سے قبل وہ اندر شمال مغرب میں تھے۔ ڈیلٹا کے جنوبی مشرقی حصہ میں دریا کی جو شاخیں ہیں ان سے کثیر مقدار میں پانی کا اخراج شاید دو سو سال پہلے ہوا تھا۔ پھر بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سمندر نے اپنے جوابی عمل سے اس حصہ کی زمین میں کسی ٹکڑے پر قبضہ کیا ہو۔ اس نتیجہ پر پہنچنے سے گریز ممکن نہیں ہے۔ گو کہ سمندر میں چڑھاؤ اور اتار کا عمل جاری رہتا ہے۔ لیکن اس کے اثرات ہمیشہ زمین کے لیے تباہ کن نہیں ہوتے ہیں۔ اس کی لہریں جو مسلسل زمین سے ٹکراتی رہتی ہیں وہ یقناً دریا کی نرم مٹی کو سخت اور مظبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کا میدان مجموعی طور پر دریائے سندھ کے عمل سے کس رفتار سے بلند ہوتا رہا ہے۔
دریائی ڈیلٹاؤں کے تخلقی عمل کو دلچسپی اور توجہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ایک مخصوص وقت میں کتنی نئی زمین سمندر سے باہر آجائے گی۔ دریائے سندھ میں سیلاب کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ اخراج سالانہ چار لاکھ مکب فٹ فی سکینڈ ہے۔ سیلابی زمانے میں اس پانی کے اندر ملی ہوئی مٹی کا پانی میں تناسب ایک اور دو سو سیتس ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دریائے سندھ طغیانی کے ایک سو ایام مین تقریباً گیارہ کروڑ نوے لاکھ مکب گز مٹی سمندر تک لے جاتا ہے۔ یہ مقدار ارتیس مربع زمین کے لیے کافی ہوتی ہے بشرطیکہ وہ ایک گز گہری ہو۔ لیکن حقیقت میں بحیرہ عرب کا طاقت ور ردعمل مانسون کے زمانے میں اور دریائے سندھ کے سیلابی موسم میں اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ڈیلٹا کی تخلق میں بڑی حد تک اعتدال پیدا کر دیتا ہے۔ دریائے سندھ کے دیلٹائی جائزے جو ابھی شروع ہوئے ہیں اور ان کے تقابلی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ دس سال کے عرصہ میں دریا کے دہانے کے کنارے ایک میل بڑھے ہیں۔ لیکن دریا کی شاخوں کے کناروں میں اضافہ جاری ہے۔ واضح رہے وہ اتنا کم ہوا ہے کہ نہ ہونے کے برابر کہا جاسکتا ہے۔