ایک دور تھا جب لوگوں کی زندگیوں میں لفظ ڈارلنگ کا بہت زیادہ استعمال ہوتا تھا لوگ ڈارلنگ کے لفظ سے خوشی،طمانیت اور سکون و راحت قلب محسوس کرتے تھے ۔ اس لفظ کے سننے کے بعد جس کےلئے یہ ادا کیا گیا ہو وہ اترانے لگتا اور خود کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھنے لگتا ۔ جب کوئی لفظ عام ہو جائے تو وہ گلی،محلے،پارک،سڑک اور بچوں تک بولا جاتا ہے ۔ لیکن یہ قدرت کا اصول ہے کہ ہر عروج کو زوال بھی ضرور ہوتا ہے۔ ڈارلنگ کا لفظ ویسے تو دو پیار کرنے والے انسانوں کے درمیان استعمال ہوتا تھا جن میں شادی شدہ جوڑے بھی غیر شادی شدہ وہ افراد جو کسی مجبوری کے باعث ازدواجی رشتے سے منسلک نہیں ہو سکتے تھے مگر اک امید کی بنیاد پر یا دل کو تسلی دینے کی غرض سے بھی استعمال ہوتا تھا ۔ یہ لفظ ہے تو انگریزی زبان کا مگر اس کے مفہوم سے ہمارے ناخواندہ لوگ بھی بخوبی آگاہ ہوتے تھے ۔ ڈارلنگ کا لفظ ریڈیو،فلم،ٹی وی،اخبارات اور رسائل و جرائد کی بھی ضرورت بن گیا تھا مگر پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ یہ بدیسی لفظ جہاں سے آیا تھا وہاں واپس چلا گیا ۔ ڈارلنگ کے بعد "جان " کے لفظ نے اس کی جگہ لے لی یہ بھی کافی عرصہ چلا بہت مقبول ہوا مگر اب یہ بھی ذرا کم کم ہی استعمال ہونے لگا ہے ۔ لگتا یہی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ بھی برائے نام ہی رہ جائے گا پھر اس کی جگہ کوئی اور لفظ لے لے گا ۔
میرے مشاہدے میں جو باتیں آئی ہیں وہ یہ ہیں کہ ہمارے معاشرے میں محبت اور پیار کے نام پر قائم ہونے والے تعلقات میں ڈارلنگ اور جان کے الفاظ پر سچے لوگوں کے ساتھ سنگین مذاق اور بہت دھوکے اور فراڈ کیے گئے جس کے باعث مخلص لوگوں کو ان الفاظ سے شدید نفرت ہونے لگی ۔ میرے ذاتی علم کے مطابق بہت سی جہان دیدہ اور تجربہ کار خواتین ڈارلنگ اور جان کے الفاظ پر آگ بگولہ ہو جاتی ہیں ان کا اگر بس چلے تو وہ ایسے الفاظ استعمال کرنے والے لوگوں کو یا تو زندہ زمین میں گاڑ دیں یا ان کی زبان کھینچ لیں اور میرے خیال میں ایسی خواتین سراپا محبت اور وفا کے پیکر ہیں جن کے اعتماد کو ضرور ٹھیس پہنچائی گئی ہوگی اور ان سے یہی ڈارلنگ یا جان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں گے ۔ کچھ سادہ دل اور سادہ لوح لوگ اب بھی شاید ان الفاظ پر دھوکہ کھا جاتے ہیں اور شاید کچھ خوش قسمت لوگ اپنی منزل اور دل کی مرادیں پا بھی لیتے ہیں ۔ انسانوں کی اکثریت گنہگار اور خطاکار ہوتی ہے میرا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہے ۔ میرا بھی کافی "لوگوں " کے ساتھ سابقہ پڑا ہے اس لیئے میرا بھی کافی تجربہ اور مشاہدہ رہا ہے ۔ مجھے جب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ اللہ تبارک و تعالی کی قسم کھانے کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا سخت گناہ ہے تو میں اس لاعلمی کے دور میں کسی کا دل جیتنے کے لیے بہانے بہانے پر اس کے سر کی قسم کھاتا تھا تو میرا ایک "دوست" مجھے کہتا کہ جب آپ میرے سر کی قسم کھاتے ہیں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ دوست کے اس جواب پر جو میری کیفیت ہوتی تھی وہ ناقابل بیان ہے ۔ تجربے کی غرض سے میں کسی دوست کو ڈارلنگ یا جان کہتا تو بہت سے مجھ سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ پلیز اگر دوستی کو برقرار رکھنا ہے تو آئندہ کے لیے یہ ڈارلنگ اور جان کے الفاظ اپنے پاس رکھیں میں معذرت کر کے اپنی دوستی برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرواتا لیکن میری ہر دوستی زندگی کی پہلی کی جانے والی محبت اور دوستی کی "تجدید " ہوا کرتی تھی ۔
بات ڈارلنگ کے لفظ سے شروع کی تھی کہ اس کا زوال آ چکا ہے لیکن دنیا میں ایک ایسا ملک اور خطہ بھی ہے جہاں ڈارلنگ کا لفظ اب بھی کثرت کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے اور وہ دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم آسٹریلیا اور ترقی یافتہ ملک آسٹریلیا بھی ہے ۔ اس کی وجہ پیار ویار نہیں بلکہ آسٹریلیا کے سب سے بڑے اور لمبے دریا کا نام ڈارلنگ ہے ۔ اس ڈارلنگ کی "لمبائی "2739 کلو میٹر ہے ۔ چونکہ یہ ڈارلنگ آسٹریلیا کا سب سے بڑا نہری اور آبپاشی کا نظام ہے اس لیئے پورے ملک پر "ڈارلنگ " کا راج ہے اور اس ڈارلنگ سے آسٹریلیا کے کروڑوں لوگ "محبت " کرتے ہیں اور یہ ڈارلنگ بھی بہت خوش اور مطمئن ہے کہ اس سے کوئی بیوفائی اور عہد شکنی کرنے والا نہیں ہے ۔ اس آسٹریلیا کی "ڈارلنگ " بہت خوش قسمت واقع ہے ۔ خود آسٹریلیا کا کل رقبہ 76 لاکھ 82 ہزار اور 300 مربع کلو میٹر ہے ۔ یہاں کا موسم بھی عجیب ہے کہ ڈارلنگ کے وطن آسٹریلیا میں جون اور جولائی کے مہینوں میں شدید سردی اور دسمبر اور جنوری میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ ڈارلنگ کے چاہنے والے افراد کا شمار دنیا کے خوش قسمت انسانوں میں ہوتا ہے کیوں کہ آسٹریلیا کے تمام شہری خوشحال ہیں اور پورے ملک میں ایسا کوئی شہر،قصبہ،گاوں اور گھر نہیں ہے جس کو پانی،بجلی،سڑک،گیس،تعلیم، صحت اور انٹرنیٹ کی سہولت حاصل نہیں ۔ اس لیئے آسٹریلیا کی ڈارلنگ کو کسی سے بھی کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہو سکتا ۔