ایک عظیم دریا جو کہ آٹھ سو میل سے بھی زیادہ طویل تھا۔ جو ایک طویل عرصہ تک سندھ کے صحرائی علاقے میں بہتا رہا۔ جہاں اب ریت کے ٹیلے اور بگولے اڑا کرتے ہیں اس حصے کو سیراب کرتا تھا۔ اب وہاں اس کی قدیم رہ گزر جہاں سے یہ دریا گزرتا تھا رہ گئی ہے۔ اس رہ گزر کی وسعت اور اس کا طول نشادہی کرتا ہے کہ یہاں سے وہ عظیم دریا کبھی گزرا کرتا تھا۔ یہ دریا جس کا نام ہاکڑا تھا یہ راجپوتانہ سے بھاولپور کے علاقے سے موجودہ پاکستان کے علاقے میں داخل ہوتا تھا اور اس دریا کا آدھا حصہ سندھ میں مختلف ناموں یعنی گھاگھر، سانگرا، رینی، واہندہ اور نار کے نام بھی پکارا جاتا تھا۔ اس دریا کے مسلسل آثار راجپوتانہ سے ریگستان تھر کے نچلے حصے بلکہ سمندر کے کنارے تک ملتے ہیں۔ جہاں وہ دوبارہ اپنا نام ہاکڑا حاصل کرلیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ دریا جب رواں دواں تھا تو اس وقت اس علاقے میں صحرا نہیں تھا، پانی و سبزے کی بہتات تھی اور اس کی زرخیزی، خوشحالی اور بندرگاہوں کی بہت سے کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ماقبل تاریخی دور تھا اور تاریخی دور میں یہ اکثر دریائے سندھ کا سیلابی پانی حاصل کرتا رہا ہے۔
ہاکڑا کی قدیم آبی گزرگاہ کے نشانات بھاولپور اور بیکانیر کے علاقے میں تسلسل کے ساتھ موجود ہیں اور اس کے بارے میں مشہور ہے یہ کئی دریاؤں جن میں گھگر، مراکنڈ، سرسوتی اور چتانگ قابل ذکر ہیں کا پانی لیتا تھا۔ مغرب میں دریائے ستلج اور مشرق میں دریائے جمنا کے مخرج کے درمیان واقع شوالک کی پہاڑیوں سے یہ چھوٹے دریا نکلتے ہیں اور ان کا بشتر پانی بارشوں سے حاصل ہوتا تھا۔ لیکن پانی کی وہ کثیر مقدار جو آتھ سو میل کا راستہ طہ کرکے سمندر تک پہنچتی تھی وہ ان ندیوں کے پانیوں پر اس کا وجود قائم نہیں رہ سکتا ہے اور سندھ سے پہلے بیکانیر اور بہاولپور کے علاقے میں تقریباً ڈیڑھ سو میل تک ہاکڑا عظیم کی آبی گزر گاہ کی چوڑائی ان ندیوں کے معمولی پانیوں سے وجود میں نہیں آسکتی ہے۔ اس کے لیے کثیر پانی کی ضرورت ہے جو ہمالیہ کے برفانی پہاڑوں سے نکلنے والے بڑے دریا سے ملتا ہوگا۔
ہاکڑا اور دریائے گنگا دونوں کو الگ کرنے والا خطہ موجودہ زمانے میں جمنا اور چتانگ کے درمیان ڈھلوان کی وجہ سے بنا ہے۔ قدیم زمانے میں دریائے جمنا کا پانی چتانگ کی ایک میل چوڑی آبی گزرگاہ کے ذریعے پہنچتا تھا۔ دریائے جمنا کوہستان ہمالیہ سے کثیر مقدار میں مٹی بہا کر لاتا ہے اور قدیم زمانے یہ دریا مذکور ڈھلوان سے بہتا تھا اور اس کا سیلابی پانی دونوں کناروں سے خارج ہوتا تھا۔ اس کے نتیجہ میں بلند ڈھلوان مشرق کی سمت کھسک گئی اور اس کا آبی راستہ بھی دریائے چتانگ بھاولپور کے نذدیک گھاگھر اور ہاکڑا سے مل جاتا ہے۔ مخالف سمت یعنی دائیں کنارے پر ستلج کی طرف سے آنے والے سیلابی پانی کی گزرگاہوں کے آثار تین مختلف پر موجود ہیں اور یہ مقامات ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہیں۔ بعید ترین اور سب سے کم واضح مقام گزر گاہ کے بالکل ابتدائی حصہ میں بھٹنیر کے قریب ہے۔ جو چتانگ کے ارتصال سے پچیس میل اوپر ہے۔ دوسرا جگہ دریائے ستلج کے قدیم راستے کا موڑ ہے جو بھاولپور کی حدود میں ولہاڑ کے قریب ہاکڑا میں ملتا ہے۔ ستلج کا قدیم راستہ جو میں بھٹنڈا اور ملوٹ سے گزرتا تھا کے نذیک واقع ہے۔ اب ہاکڑا برانچ کنال تقریباً اسی راستہ کو اختیار کئے ہوئے ہے۔ الحاقی گزرگاہوں کی تیسری شاخ بہاولپور شہر کے مشرق اور شمال مشرق میں تقریباًً بیس میل کے فاصلے سے شروع ہوکر ہاکڑا سے کڈالا کے نذدیک ملتی ہے۔ اس شاخ سے مطابقت رکھتے ہوئے آج کل ایک دوسری آبپاشی کی نہر بہتی ہے جو ریگستانی شاخ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے یہ پہلے ایک قدرتی خشک دریائی گزرگاہ تھی اور واہندا کے نام سے مشہور تھی اور اس کے ذریعے ہاکڑا میں پانی پہنچتا تھا۔ یہاں سے تقریباًً تیس میل بہاؤ کی طرف ڈیرہ وال کے قریب آس پاس ہاکڑہ کا دامن وسیع ہو کر بہت سی چھوٹی چھوٹی شاخوں میں پھیل جاتا تھا۔
سندھ کی شمالی سرحد کے ابتدائی بیس میل تک مختلف دریاؤں کے سنگم اور شاخوں کے مخرج کا الجھا ہوا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ لیکن غوث پور کے نشیب میں کہ پجند سے نیچے ہے اور اس کے ذریعے دریائے سندھ کا سیلابی پانی ہاکڑا میں داخل ہوتا تھا۔ اس کے نیچے ہاکڑا کی گزرگاہ بہت واضح ہے۔ سندھ و پنجاب کے درمیان ونجڑوٹ جہاں ایک قدیم آبادی کے آثار ملے ہیں وہاں پہنچ کر ہاکڑا دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور تقریباً تین سو میل تک الگ الک چلتے ہیں۔ بڑی شاخ واہندہ کے نام سے مشہور ہے پہلے جنوب کی سمت بڑھتی ہے اور مٹھراؤ سے جو روہڑی اور جسلمیر کے درمیان قافلوں کے قدیم راستے پر واقع ہے۔ یہاں سے یہ مغرب اور اس کے بعد جنوب مغرب اور آخر کار پھر جنوب کی سمت چلی جاتی ہے اور روہڑی کے جنوب میں پہاڑیوں کے سلسلے میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس اثناء میں دوسری شاخ جو رینی نالہ کہلاتی ہے اور نسبتاً سیدھا راستہ اختیار کرکے جنوب مغرب اور جنوب کی سمت بہتی ہے اور اس میں شامل ہوجاتی ہے۔
یہ ایک طویل زمانے تک سیلاب کے زمانے میں دریاؤں کے زائد پانی لیتا رہا ہے۔ سندھ میں ہاکڑہ کا بالائی حصہ تقیریباً غیر معروف ہے اور اس میں سیلابی پانی گذشتہ صدیوں میں کبھی کبھی آیا ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ دریائے سندھ سے اپنا پانی لیتا تھا۔ لیکن حقیقت میں صرف سیلابی زمانے میں دریائے سندھ سے پانی حاصل کرتا تھا۔ یہ اب بھی دریائے سندھ میں انتہائی درجہ کے سیلاب کی صورت میں پانی غوث پور کے قریب نشیب سے گزر کر ستلج اور چناب کے سنگم کے نیچے سے پجند کے متوازی بہتا ہوا اس گمشدہ دریا تک پہنچتا ہے۔ ایک نہر نارا جو روہڑی سے پہلے دریائے سندھ سے نکالی ہے اور ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے۔ یہ ہاکڑا کے دو سو میل کے علاقے میں شاخوں کو پھیلائے ہوئے ہے۔ اب اس علاقے کو سکھر سے بھی ایک نہر دیدی گئی ہے۔ واہندہ ایک اتھلی وادی میں یہ چکر کاٹتے ہوئے بہتا ہے اور کہیں کہیں دو یا تین تک میل چوڑا ہے۔ لیکن ریت کے ٹیلوں نے جگہ جگہ اس کے راستے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے رہا ہے کہ کثیر طغیانی کے وقت دریاؤں سے نکلا ہوا پانی اس وادی میں داخل ہوا اور سیلابی شکل میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک بھر گیا۔ لیکن یہ پانی تیز رفتاری سے آگے بڑھ کر خارج ہوگیا اور میدانوں میں نکل آتا ہے۔
رینی نالہ ایک گہرا آبی راستہ ہے جس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی چالیس گز ہے۔ لیکن اس کے پشتے پندرہ سے بیس فٹ بلند ہیں اور اس کے دونوں طرف کی زمین سخت ہے، جس پر جگہ جگہ ریت کی پہاڑیاں ہیں۔ یہ زمین کے دونون طرف دریا کی طرف ڈھلوان ہے۔ اس کے برعکس دوسری شاخ واہندہ چوڑی اور اتھلی پھیلی ہوئی ہے۔ کچھ مقامات پر ریت کی وجہ سے یہ غائب ہوجاتی ہے۔ اس کی وسعت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے سیلابی ریلے اس جگہ سے گزرتے رہے ہیں۔ میلوں تک اکثر مقامات پر اس کا راستہ مٹی سے بھر چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیلابی پانی کا رخ زیادہ تر رینی نالہ کی طرف ہی رہا ہے۔ اس میں بہنے والا پانی چونکہ اس کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہوتا تھا اس لیے دور تک کناروں سے پھیل کر بہتا تھا۔ لیکن جہاں نشیب تھا وہاں اس نے سطح کو اپنی رفتار اور مقدار کی وجہ اسے زیادہ گہرا کردیا ہے۔
اس علاقے کی ڈھال جنوب مشرق کی سمت میں ہے۔ اس لیے رینی نالہ دریائے سندھ سے نشیب میں بہتا ہے اور واہندہ رینی نالہ سے بھی نشیب میں ہے۔ واہندہ آگے جلسمیر کی سرحد پر اس سے بھی زیادہ نشیب میں بہتا ہے۔ اگرچہ وہاں مسلسل نشیب کی موجودگی کا نشان نہیں ہے۔ رینی نالہ روہڑی سے تیس میل جنوب میں اور اس مختصر سے پہاڑی سلسلہ کے مشرق میں جنوب کی طرف چلا گیا ہے۔ رینی نالہ اور واہندہ اور دوسری سیلابی شاخیں بتدیح نارا میں ضم ہوجاتی ہیں۔ اب یہ نارا نام اختیار کرلیتا اور نارا میں ایک قدرتی دریا کی تمام خصوصیتیں موجود ہیں۔ خیرپور کی سرحد سے گزرتے ہی چونے کے پتھر کی جگہ ریت کی پہاڑیاں شروع ہوجاتی ہیں اور یہاں سے نارا ایک دو میل چوڑی وادی میں پیچ و خم کھاتا ہوا تقریباً ساٹھ میل تک بڑھتا ہے۔ جس کے دونوں کناروں پر ایک دوسرے سے ملی ہوئی ریت کی پہاڑیاں ہیں اور جنوب سے قدرے مغرب کی طرف ہے۔ میدان میں پہنچ کر نارا مشرقی ریگستان کے گرد گھومتا ہے۔ یہ جنوب مشرق اور جنوب کی طرف اتنا گھومتا ہے کہ 25 ڈگری تیس فٹ کے عرض البدی حد تک پہنچتا ہے۔ جہاں ریت کی پہاڑیاں یک لخت مشرق کی طرف ہٹ جاتی ہیں اور دریائی مٹی کے میدانی علاقہ کے کچھ حصہ کو درمیان میں لے لیتی ہے۔ نارا اس حصے میں سے گزرتا ہے اور جنوب میں ریگستان کے کنارے کو چھوتا ہوا دوبارہ اپنا متوازی راستہ اختیار کرلیتا ہے اور جنوب و مغرب کی طرف بڑھ جاتا ہے یہاں تک رن کچھ میں جاکر سمندر میں گرجاتا ہے۔ دریا کے اس طویل راستے کا آخری حصہ وہ ہے جہاں اسے وہ نام واپس مل جاتا ہے جو اس نے چار سو میل اوپر کھو دیا تھا۔ یعنی ہاکڑا۔
وادی نارا ہاکڑا کے آخری دوسو پچاس میل کا ٹکڑا سطح کے اعتبار سے وادی سندھ کا پست ترین حصہ اس کھاڑی کے دھانے پر جہاں امر کوٹ واقع ہے۔ یہاں زمین مشرق کی سمت مزید نیچی ہوتی چلی گئی ہے۔ 1859۱ء میں جب پہلی بار نارا میں باقیدیگی سے پانی چھوڑا گیا تو اس کی کثیر مقدار بائیں کنارے پر واقع اتھلے اور گہرے بہت سے نشیبوں کے بھرنے میں جو سانگھڑ اور کھپرو میں واقع ہیں کام آگیا۔ یہ نشیب تھر کے مخصوص ریت کے پشتوں کے درمیان ایک دوسرے کے برابر پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت سے ان میں ایسے بھی ہیں کہ جب پانی داخل ہوگا تو نارا کے پاٹ سے بھی دس میل دور تک پانی بھر جائے گا۔ یہ قیاس درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس نیچی سطح کو ریت کے پشتوں کی رکاوٹ کا سامنا نہ ہوتا تو نارا کئی میل مشرق کی طرف بہاؤ کا راستہ اختیار کرتا۔
سوائے چند جگہوں کے نارا ہاکڑا نے وادی کے بائیں حصہ کی سب سے نچلی سطح پر بہتا ہے۔ پہلے دریائے ستلج اور بعد میں دریائے سندھ کی لائی مٹی قدرے بلند زمین سے ملتی ہے۔ جو اب ریگستان تھر کے مغربی کناروں پر ریت کے نیچے ڈبے ہوئے قدیم زمانے میں دریائے کی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ ایس حقیقت کو آبی تحقیق میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دریائے ستلج کا پانی کا دھارا یا مکمل دریا مختلف مقامات سے ہاکڑا کے راستے بہتا رہا ہے اور پھر دریائے سندھ بھی اپنا پانی کبھی کبھی پانی کی کثیر مقدار یا کل مقدار ہاکڑا اور نارا کے راستے سے سمندر میں پہنچاتا رہا ہے۔ یہ صورت ارضی تشکیل کے انتہائی قدیم زمانے میں واقع ہوئی ہے یا جب بھی ہوئی نسبتاً کچھ زمانے تک قائم رہی۔ ایک عجیب اتفاق ہے اس کا بہاؤ دریائے سندھ کے مشرق میں بیس میل سے ستر میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
میدان میں دریائی مٹی کی جو تہیں ملتی ہیں وہ اس کا قابل ثبوت ہے کہ ہاکڑا اور نارا میں ان بڑے دریاؤں کے بہاؤ نے طویل عرصہ تک یا پھر نسبتاً قریب کے زمانے میں اپنا پانی اس کو مہیا کرتے رہے ہیں۔ ریوٹی کا کہنا غلط ہے کہ ابتدائی زمانے سے 950ء تک دریائے سندھ ہاکڑا کے راستے پر بہتا رہا ہے۔ اس ملک کے طبعی نشیب و فراز یہ بات واضح کرتے ہیں کہ برفانی پہاڑوں سے نکلنے والے دریاؤں کا مجموعہ یعنی دریائے سندھ گزشتہ پانچ ہزار سال کے دوران جو ایک دریا کی طبعی عمر کا معمولی حصہ ہے مشرق اور مغرب میں وادی کے درمیان ہی مختلف راستوں پر بہتا رہا ہے۔ اسی دوران یا اس سے بھی پہلے تک ہاکڑا نارا ایک موسمی سیلابی گزرگاہ کے طور پر موجود رہا ہے۔ جس سے سیلابی پانی کی عظیم مقدار ہر سال یا ہر سیلاب کے موقع پر باقیدیگی سے گزرتی رہی۔ لیکن یہ بارہ مہینے بہنے والے دریا کی حثیت اختیار کر نہیں سکا۔
میدان میں دریائی مٹی کی جو تہیں ملتی ہیں وہ اس کا قابل ثبوت ہے کہ ہاکڑا اور نارا میں ان بڑے دریاؤں کے بہاؤ نے طویل عرصہ تک یا پھر نسبتاً قریب کے زمانے میں اپنا پانی اس کو مہیا کرتے رہے ہیں۔ ریوٹی کا کہنا غلط ہے کہ ابتدائی زمانے سے 950ء تک دریائے سندھ ہاکڑا کے راستے پر بہتا رہا ہے۔ اس ملک کے طبعی نشیب و فراز یہ بات واضح کرتے ہیں کہ برفانی پہاڑوں سے نکلنے والے دریاؤں کا مجموعہ یعنی دریائے سندھ گزشتہ پانچ ہزار سال کے دوران جو ایک دریا کی طبعی عمر کا معمولی حصہ ہے مشرق اور مغرب میں وادی کے درمیان ہی مختلف راستوں پر بہتا رہا ہے۔ اسی دوران یا اس سے بھی پہلے تک ہاکڑا نارا ایک موسمی سیلابی گزرگاہ کے طور پر موجود رہا ہے۔ جس سے سیلابی پانی کی عظیم مقدار ہر سال یا ہر سیلاب کے موقع پر باقیدیگی سے گزرتی رہی۔ لیکن یہ بارہ مہینے بہنے والے دریا کی حثیت اختیار کر نہیں سکا۔
تہذیب ترتیب
(عبدالمعین انصاری)