(Last Updated On: )
شعور و ادراک کتابی سلسلہ نمبر 1 پڑھنے کا موقع ملا۔ دیرینہ خواب کی تعبیر پر جنابِ محمد یوسف وحید مبارک باد کے مستحق ہیں۔ زبان و ادب سے ان کی والہانہ محبت کا مظہر ہے۔ فرد ِواحد کا اتنا بڑا عملی اقدام عام بات نہیں ہے۔ اگرچہ وطنِ عزیز اور دنیا بھر سے اُردو، پنجابی اور سرائیکی کے اہلِ علم و ادب کا تعاون شاملِ حال تھا تاہم محمد یوسف وحید کی مستقل مزاجی اور ادب دوستی کا کردار مرکزی ہے۔
تمام انسانوں کی فکر میں یکسانیت نہیں، ان کے خیال میں ہم آہنگی نہیں، طور طریق اور طرز میں بھی اختلاف ہے۔ رہن سہن، گفتگو اور طرزِ گفتگو میں فرق ہے۔ ہر شخص کا اپنا معیار ہے، اپنی سوچ ہے جو دوسرے سے میل کھانے میں کسی زبردستی کی قائل ہے نہ محتاج، وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے اور اسے اچھا خیال کر سکتا ہے۔ درحقیقت اس کا مقام ہے کیا اس سے بے خبر اور لاعلم اس پر کوئی توجہ دئیے بغیر جب مختلف اَفراد اختلاف و اقوال اور اختلاف طرزِ زندگی کا باعث قرار پائے تو اس طرح اُدباء کا اختلاف بھی مختلف نوعیتوں کے ادب کے ظہور کا باعث ہوا، ان میں کس کا معیار کیا ہے؟
کون کن خصوصیات کا حامل ہے؟
کہاں کیا خامیاں ہیں؟
کسی کو کیا مرتبہ عنایت کیا جاسکتا ہے؟
کس کا فن کس اہمیت کا حامل ہے؟
یہ معلوم کرنے کی ضرورت پیش آئی اور فن کے معیار کو پرکھنا ضروری قرار پایا اور ضرورت پیش آئی ایسے فن کی جو تخلیق پر پڑے پردوں کو چاک کرے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کو عیاں و بیاں کردے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جو فن مدون کیا گیا وہ تنقید کہلایا۔
چونکہ اس فن میں جانچنا اور پرکھنا تھا اور یہ فن کسوٹی کی حیثیت رکھتا تھا، جس پر دیگر فن پاروں کو پرکھا جا سکے اور ان کی قدروں کو معلوم کیا جاسکے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا نام تنقید قرار پایا جو کہ عربی زبان میں جانچنے اور پرکھنے کے معنی میں آتا ہے اور اس فن سے تعلق رکھنے والے نقاد، چونکہ عربی زبان میں نقاد سکوں کے پرکھنے والے کو کہتے ہیں، اسی مناسبت سے اُردو زبان میں فن پاروں کے کھرا اور کھوٹا متعین کرنے والوں کو نقاد کہا گیا۔ میتھو آرنلڈ نے تنقید کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’دنیا میں جو بہترین باتیں معلوم ہیں یا سوچی گئی ہیں اُنہیں غیر جانب دارانہ طور پر جانچنے اور عام کرنے کی خواہش کا نام ہی تنقید ہے۔ ‘‘
ناقد کو اس بات سے بحث نہیں کہ کہنے والا یا سوچنے والا کون ہے؟ وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ کیا کہا گیا اور کس طریقے سے کہا گیا۔ تنقید میں براہِ راست مواد اور ہیئت سے دخل ہے۔
اگر کوئی شخص مواد اور ہیئت پر توجہ دئیے بغیر صرف ادیب کی شخصیت پر فیصلہ کرتا ہے تو وہ تاثراتی تنقید کا شکار کہلاتا ہے۔ تاثراتی تنقید کی والٹر پیڈ نے ان الفاظ میں تعریف کی ہے۔’’ تنقید نگار کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ انہیں ان کے اصل روپ میں دیکھے اور ان کے بارے میں تاثرات بیان کردے۔‘‘
تنقید کی یہ صنف بہت سی خامیاں اپنے دامن میں رکھتی ہے، جس کی وجہ سے فن کا اصل معیار سامنے نہیں آپاتا اور ناقد صرف اس تاثر کا شکار ہوجاتا ہے جو اس کے ذہن پر مرتب ہوا ہے جب کہ تنقید کے اُصولوں میں یہ جانچنا اور پرکھنا ضروری ہے کہ اس کا خیال تازہ ہے یا فرسودہ؟ کہنے والے کے ارد گرد کا ماحول اس کی سوچ و فکر ان سب پر بھرپور احاطہ کرنا اور فن پاروں کو ہزار ہزار زاویوں سے دیکھنا فن کے معائب و محاسن کو پتہ لگانے میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑنا یہ اچھے تنقید نگار کی پہچان بھی ہے اور تنقید کا اہم ترین اُصول بھی۔ اگر کوئی شخص صرف ہیئت پر توجہ دیتا ہے اور صرف یہ کہنا کہ الفاظ کی عمدہ ترتیب ہو جو من موہ لے جس میں انسان گم ہو کر رہ جائے، جس کی طرف ہر فرد بشر دَوڑ پڑے، مواد سے کوئی خاص سروکار نہیں رکھتا تو وہ جمالیاتی تنقید کے زمرے میں شامل ہوجاتی ہے اور اسے اقوال کے قائل کو جمالیاتی تنقید کا شکار کہا جاتا ہے جس کے تعلق سے آسورن کہتے ہیں کہ کوئی تنقیدی فیصلہ جمالیاتی اَقدار پر نظر رکھے بغیر صحیح نہیں ہوسکتا اور اس طرز کے ناقدین شاعر کو مثل تصویر کشی سمجھتے ہیں جہاں عمدہ رنگوں کی قدر ہوتی ہے، ان کے یہاں وہ سنگ تراشی ہے جس میں صرف وہ پہلو اہمیت کا حامل ہے جو انسان کو خوش کرے، اس کے قلب پر مسرت کے احساسات کو جلوہ فگن یا سایہ فگن کردے،و ہ مواد کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے۔
اسی طرح جب یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو ایک اور نظریے کی پیدائش ہوتی ہے۔ مارکسی تنقید جو بہت زیادہ مقبولیت کا حامل قرار پاتا ہے، جس میں توجہ دی گئی مواد اور ہیئت دونوں پر اور عمدہ طریقے سے یہ نعرہ بلند کرنے کی فکر کو عام کیا گیا کہ مزدوروں اور کمزوروں کی طرف سے آواز بلند کی جائے، ان کے حقوق کا بیڑا اُٹھایا جائے، ان پر ہورہے مظالم کو بند کیا جائے، انہیں عزتیں ملیں، مقام ملے، وقار ملے، اسی طرح کی چیزیں ادب میں پیش کی گئیں اور تنقید کا مزاج بھی اسی انداز کا ہوا لیکن پھر یہ نظریہ شدت کا شکار ہوا اور اس میں صرف باقی رہ گیا مواد اور ہیئت کو ترک کردیا گیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس نظرئیے کے بانی پر تنقید کی اور کہا کہ کارل ماررکس کوئی ادیب نہیں تھے، ادب میں ان کی رائے محض ایک تماشائی کی داد کی طرح ہے، پھر اسی میں سے ایک شاخ پھوٹی جو ترقی پسند تحریک کہلائی جس کے حوالے سے منشی پریم چند نے لکھا ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اُترتا ہے، جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، جس کا جوہر تعمیر کی روح، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی کرے، سلائے نہیں کیوںکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔ نام الگ ہے، روپ، رنگ، طریقہ وہی ہے جو مارکسی اور مارکسی تنقید کا ڈھانچہ ہیں۔ افکار و خیالات، نظریات وہی ہیں لیکن ساتھ ہیئت پر بھی بھرپور توجہ عنایت کرتے ہیں۔ اس کے اصول بھی اس انداز کے ہیں کہ ادیب جانب دار ہو، درد مندوں کی آواز ہو۔ ان تینوں میں سے کون کس مقام اور کس حیثیت کا حامل ہے اور اس کے بعد ہی فن پارے کی اہمیت اور اس کے مقام کا اندازہ لگائے، تاہم یہ امر بھی مسلم ہے کہ ادیب کے گرد و نواح کے واقعات، حالات کو بھی ناقد کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوں، نہیں وہ تنقید کے اعلیٰ معیار پر فائز نہیں ہو پائے گا۔ تنقید کی کچھ اور قسمیں بھی ایجاد ہوئیں، مثلاً اسلوبیاتی تنقید، ساختیائی تنقید، یہ بھی ان اپصولوںسے خارج نہیں ہیں،ہاں ایک تنقید کی قسم سائنٹفک تنقید اس پر میں نے بحث نہیں کی۔ وجہ ہے آل احمد سرور کا یہ قول ادبی تنقید فن ہے، سائنس نہیں گو سائنسی طریقۂ کار سے مدد لے سکتے ہیں، لے رہے ہیں۔ یہ مقصد نہیں ذریعہ ہے فن کو بہتر طور پر سمجھنے اور فن پاروں کی قدر و قیمت پانے کا۔ اس میں کوئی اُصول صرف نہیں۔ اس سے بنتے اور ٹوٹتے ہیں، اس لئے ان پر بحث نہیں کی گئی، البتہ تنقید کے اصول تفصیل طلب عنوان ہے جس کے لئے یہ چند گذارشات ناکافی ہیں اور میرے لئے اس عنوان کا حق ادا کرنا آسمان سے ستارے توڑنے کے مترادف ہے۔یہ تو پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے افراد کا کام ہے۔’’شعور و ادراک ‘‘کے پہلے کتابی سلسلے میں ادب کی زیادہ تر اصناف کے فن پارے موجود ہیں۔ معیار دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ ابتدائی جریدہ ہے۔ مستقبل میں بہتر سے بہترین کے سفر میں کامیابی کے لیے دُعا گو ہوں۔
٭
(بحوالہ : شعوروادراک ، شمارہ نمبر 2/3، (اپریل تا ستمبر 2020ء ) مدیر: محمد یوسف وحید ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، ص: 348)
٭٭٭