مونچھ اور داڑھی کی لڑائی چھڑی تھی اورچہرہ پانی پت کا میدان لہو لہان تھا۔
دعوؤں کی یلغار ۔۔۔۔۔
مونچھ : میں شیر مردوں کی نشانی ہوں
داڑھی : میں زیتون کے اس مقدس پیڑ کی ہلتی ہوئی شاخوں جیسی گھنی اور مبارک ہوں۔ جسکا ذکر مقدس کتابوں میں آیا ہے
مونچھ:
میری کئی قسمیں ہیں ۔کبھی تو میں
میں لمبی ہوکر کانوں سے سرگوشی کرتی ہوں ۔۔
کبھی ننگی تلوار بن کر اپنے مقابل پر رعب جماتی ہوں کبھی کنڈل دار ہو کر اپنا طواف خود کرتی ہوں۔
میں کسی بھی شکل میں ہوتے ہوئے ہونٹوں پر قابض رہتی ہوں ۔ بہادری کی علامت ہوں ۔اور کئی محاوروں کو میں نے آرائش دی ہے ۔شیر کی مونچھ وغیرہ۔
داڑھی :
چھوٹی یا بڑی میں تو بس منکسر مزاج داڑھی ہوں
کبر و غرور مجھے ذرا بھی پسند نہیں ۔۔۔۔میں تو ہمشہ پھلدار درختوں کی طر سر نگوں رہتی ہوں ۔اور میں خدا کا نور ہوں اور شریف انسانوں اور جانوروں کی ٹھوڑی میری جائے ظہور ہے۔
اگر چہ داڑھی اور مونچھ کی سرحدیں شرقی اور غربی محاذوں پر ملتی ہیں انہیں یہ پتہ ہے کہ باہمی لڑائی میں کوئی فایدہ نہیں ۔۔۔اس کے باوجود داڑھی اپنے حامیوں کو اکسا کر مونچھ کی مار پیٹ بند نہیں کرواتی اور مونچھ بھی مثبت رویہ نہیں اپناتی۔ اسطرح مونچھ اور داڑھی کی پرانی جنگ اج بھی جاری ہے۔ اور تاقیامت جاری ہے گی ۔ کیونکہ یہ دو بخیل ذلیل اور رزیل پڑوسیوں کی جنگ ہے۔