وہ بظاہر ایک عام سا منظر تھا ۔
ایک بائیک کسی سکول کے گیٹ پر رکے اور ایک لڑکی بائیک سے اتر کر سکول کے اندر چلی جائے ۔ بائیک والا جو شاید اس لڑکی کا ابو لگتا ہو بائیک موڑ کر جہاں سے آیا ہو اسی جانب چلتا بنے ۔اب بھلا آپ ہی انصاف کریں کہ کیا اس منظر کو انوکھا کہنے والا آدمی پاگل ہی تو ہی سمجھا جائے گا ناں ۔
سو اس عام سے منظر پر کسی نے بھی توجہ نہ کی۔
لیکن نہیں۔۔۔۔ ماجد نامی ایک آدمی کے لیے یہ خاص بات تھی جو جانے کب سے اس منظر کا منتظر تھا ۔
اس کی نگاہیں اب بھی خالی گیٹ کو گھور رہی تھیں ۔ لگتا تھا وہ منظر کی بجائے پس منظر میں کھو گیا ہے ۔
وہ یقینا دم سادھے اگلے منظر کا منتظر تھا ۔ آج وہ منظر دوبارہ نظر آتا تو کام بن جاتا ۔
اس نے پوری تیاری کر رکھی تھی ۔
ایک دو بار تو وہ جان ہی نہ پایا تھا کہ چپکے چپکے یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔
کل ملا کر سات بار اس نے یہ دیدہ دلیری پکڑی تھی ۔
پھر شاید اس کی برداشت جواب دے گئی ۔وہ بھی آخر بہنوں بیٹیوں والا تھا ۔ کب تک یہ بے غیرتی سہتا ۔
اس کا جی چاہا وہ اٹھے اور ان دونوں کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دے ۔ مگر باوجود ہمت کے وہ ایسا کر نہیں پایا۔
لیکن آج اس نے ایک منصوبے پر عمل کا سوچ رکھا تھا ۔ جس کی پلاننگ وہ گزشتہ کئی دن سے کر رہا تھا ۔
وہ کریہہ النظر منظر کوئی روز تھوڑی نظر آتا تھا ۔ ہفتے عشرے بعد کسی دن چپکے سے یہ منظر اسکرین پر ابھرتا اور اس کو گہری اذیت میں مبتلا کر جاتا تھا ۔
کئی روز کے شدید انتظار کے بعد آج وہ منظر پہ پھر ابھرا تھا ۔ سو وہ انہیں رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے پہلے سے تیار تھا ۔ خالی گیٹ کو گھورتا ہوا وہ خاص وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ چوری صرف وہی پکڑ سکتا تھا ۔ اس کی بک شاپ سکول کے مین گیٹ کے بالکل سامنے تھی ۔ ناجانے کیا کیا تماشے اس کی ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھ رکھے تھے ۔ لیکن یہ منظر واقعی ان سب میں سب سے انوکھا تھا ۔
اتنا کہ اس نے اس واقعے میں اپنی انٹری ڈالنا ضروری سمجھی تھی ۔
وہ یہ مکروہ کھیل مذید نہیں دیکھ سکتا تھا ۔
دم سادھے جانے کتنی دیر وہ ٹکٹکی باندھے گیٹ کو دیکھتا رہا تھا ۔
اچانک ایک بائیک سکول کے مین گیٹ پر آن رکی اور وہ بے ساختہ اچھل ہی تو پڑا ۔
اس نے جلدی سے کاؤنٹر پر پڑی چابی اٹھائی اور لڑکے کو مخصوص انداز میں اشارہ کیا ۔ وہ لڑکا اس کی شاپ پر کام کرتا تھا ۔ اشاروں اشاروں میں ماجد نے سمجھا دیا تھا کہ دکان کا خیال رکھنا ۔
بائیک والا لڑکا اب سیل فون نکال کر کسی کا نمبر ملا ریا تھا ۔
وہ سانس روکے اور دھڑکتے دل کے ساتھ یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا ۔
دل میں اچانک ایک خواہش جاگی ۔
خدا کرے وہ منظر پھر نہ دہرایا جائے ۔
اس کھیل کا انکشاف کسی دھماکے سے کسی طور کم نہ ہوتا ۔
پھر اس کا دل اچھل کر اس کے حلق میں آن اٹکا تھا ۔
گیٹ سے ایک لڑکی نکلتی ہوئی تیزی سے بائیک پر بیٹھ گئی اور وہ لڑکا یہ جا وہ جا۔
وہ برق رفتاری سے اٹھا تھا اور پھر وہ بھی بائیک دوڑاتا ہوا ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا تھا ۔
تھوڑی دیر میں ہی اس نے ان کو جا لیا ۔
وہ لڑکا مختلف گلیوں میں سے بائیک کو بھگاتا ہوا ایک پتلی سی گلی میں غائب ہو گیا ۔
وہ بھی جلدی سے اسی گلی میں گھس گیا۔ اور پھر اس نے ایک دروازے کے اندر جاتی ہوئی بائیک کی ایک جھلک دیکھ ہی لی۔ وہ دروازے پر رکا نہیں تھا ۔ تیزی سے آگے نکل گیا کہ کہیں اسے شک نہ ہو جائے ۔ وہ یہ موقع ہرگز گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اور تھوڑی دور جا کر اس نے بائیک روک کر جیب سے سیل فون نکال لیا تھا ۔
مطلوبہ نمبر سے فوری رابطہ ہو گیا تھا ۔
" السلام علیکم خان صاحب۔۔۔۔
جی میں ماجد بول رہا ہوں۔ِ۔۔۔۔
۔ِ۔۔جی ہاں بک شاپ والا۔۔۔
جی جی۔۔۔ وہی گرلز سکول کے سامنے والا ۔۔ِ۔۔۔
۔۔۔۔۔اگر آپ کے پاس کے وقت ہو تو براہ کرم تھوڑی دیر کے لیے جہاں میں کہوں تشریف لے آئیے ۔۔۔۔
بس چھوٹا سا ایک کام آن پڑا ہے
۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں آپ کو لوکیشن بتاتا ہوں "
اس نے تفصیل سے پتہ سمجھایا اور پھر بے تابی سے خان صاحب کا انتظار کرنے لگا ۔ کوئی دس بارہ منٹ بعد وہ پہنچ گئے۔ وہ ان کا ہاتھ تھام کر مطلوبہ دروازے کی جانب بڑھ گیا ۔
" جنابِ یہ ہے ہماری منزل ۔ آپ نے دروازے پر دستک دینی ہے اور پھر دروازہ کھلتے ہی اندر گھس جانا ہے ".
مگر مجھے بتائیں تو سہی کہ ماجرا کیا ہے ؟ "
پلیز آپ دو منٹ انتظار کریں ۔سب کچھ آپ کے سامنے آ جائے ۔ اب جلدی بھی کریں ۔ دستک دیں اور اندر گھسنے کی تیاری کریں "
اور خان صاحب نے نہ سمجھنے والے انداز میں سر ہلا دیا۔
دروازے دوسری دستک پر کھلا تھا اور پھر وہ دونوں اس لڑکے کو اندر دھکیلتے ہوئے مکان میں گھس گئے ۔
ایک باپ کے لیے وہ قیامت کا منظر تھا ۔ پھر جو کچھ ہوا میری توقع سے بہت زیادہ ہی تھا ۔
خان صاحب نے اتنی تیزی سے اس لڑکے پر حملہ کیا کہ ماجد دنگ رہ گیا ۔
اس جھٹکے سے سنبھلا تو دروازے کی جانب دوڑ لگا دی ۔ کندی لگا کر واپس آیا تو وہ لڑکا بدستور خان صاحب کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہا تھا ۔ مکان میں اس کی توقع کے عین مطابق وہی دو افراد تھے جن کا پیچھا کرتے کرتے وہ یہاں آن پہنچا تھا ۔
لگتا تھا وہ اسے مار کر ہی دم لیں گے ۔ کچھ دیر تک وہ یہ سارا منظر چپ چاپ دیکھتا رہا ۔پھر بیچ بچاؤ کے خیال سے وہ آگے بڑھا اور بڑی مشکل سے حالات پر قابو پایا ۔ لڑکا نیچے پڑا کراہ رہا تھا ۔اس کا لباس پھٹ گیا تھا ۔
چہرے پر جگہ جگہ لگنے والی چوٹوں سے خون رس رہا تھا ۔
مم ۔۔ میں تمھارا خخ۔۔۔ خون پی جاؤں گا تت۔۔ تمھیں اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتاروں گا "
خان صاحب ہانپتے کانپتے ہوئے غصے سے لرزتے ہوئے بامشکل بول پائے تھے ۔ ان کی سانس پھول چکی تھی ۔
ماجد نے انہیں سمجھایا کہ آگر اس میں ذرا برابر بھی حیا ہوئی تو زندگی میں کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا ۔
" لڑکی کا معاملہ ہے ہم اسے کھول بھی تو نہیں سکتے ۔
رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے گی ۔
آپ بس ایسا کریں اپنی بیٹی کو سکول سے اٹھوا لیں ۔
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری " ۔
بات ان کی سمجھ میں آ گئی ۔ انہوں نے لڑکی کو ساتھ لیا اور اسے باہر آنے کا اشارہ کرتے ھوئے دروازے کی طرف بڑھ گئے ۔ جانے سے قبل وہ دروازے کی بکنڈی باہر سے لگانا نہیں بھولے تھے ۔
پھر اپنی ڈری سہمی بیٹی کو لے کر گھر کی جانب چل دیے تو وہ بھی اپنی شاپ کی جانب بڑھ گیا۔
اس واقعے کو ایک ڈیرھ ماہ کا عرصہ بیت گیا تھا ۔
ماجد حسب معمول دکان پر بیٹھا گاہکوں سے نمٹ رہا تھا ۔ اسکی دلچسپی گیٹ سے ہٹ گئی تھی ۔ ہاں کبھی کبھار اسکی نگاہیں بھٹک ضرور جاتی تھیں ۔ پھر وہ اپنی بے وقوفی پر مسکرا کر رہ جاتا ۔
اسے خود پر فخر ہونے لگتا کہ اس نے ایک گھر کی عزت کو بچا کر واقعی ایک کارنامہ انجام دیا تھا ۔
اسی دن ماجد شاپ کے کاموں میں مصروف تھا کہ اچانک اس کی نظریں سکول گیٹ کی جانب آٹھ گئیں ۔ اور وہ یوں اچھلا جیسے بجلی کی ننگی تاریں اسے اچانک چھو گئی ہوں ۔
اسے واقعی اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا ۔
" نہیں نہیں یہ ضرور میرا کوئی وہم ہو گا ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ منظر میں ایک بار پھر دیکھوں "
اسنے ہاتھ اٹھا کر خان صاحب کو رکنے کا اشارہ بھی کیا اور زور سے پکار بھی لیکن وہ نظریں بچا کر نکل لیے ۔ ماجد منہ کھولے ہاتھ نچاتا رہ گیا ۔ دوسروں کے لیے یہ ایک عام سا منظر تھا سوائے ماجد کے ۔۔
جو بت کی طرح گم صُم کھڑا پھٹی پھٹی نظروں سے گیٹ کو گھور رہا تھا ۔
محویت کا یہ عرصہ جانے کتنا طویل تھا۔
" ماجد بھائی خیر تو ہے ' کن سوچوں میں گم ہیں ۔۔؟
اچانک ایک آواز نے اسے چونکایا تھا ۔
اسے خان صاحب کا چہرہ دکھائی دیا ۔ وہ حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔
" خان صاحب اپ نے یہ کیا غضب کر دیا ۔ بیٹی کو پھر سکول چھوڑنے آ گئے ۔ کیا آپ وہ سب بھول گئے " ۔
اور خان صاحب کے چہرے کا رنگ ایک دم اڑ سا گیا ۔
" یار میں کیا بتاؤں ۔
بہت مجبور ہو گیا تھا ۔
اس نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا ۔
کھانا پینا بند کیے بیٹھی تھی۔ اللہ رسول کی قسمیں اٹھا اٹھا کر یقین دلاتی رہی کہ وہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گی کہ آپ کا سر شرم سے جھکے ۔
پہلے اس کی ماں نرم پڑی اور پھر مجھے بھی اپنی ناراضی دور کرنا پڑی ۔ سو مجھے درگزر سے کام لینا پڑا " ۔
" مگر یہ۔۔ یہ۔۔۔ کک کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو اس درندے سے بچا پائے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس لڑکے نے کوئی نازیبا قسم کی وڈیو بنا رکھی ہو اور لڑکی کو اس نے اسی بنا پر مجبور کر رکھا ہو کہ دوبارہ سکول آنا شروع کر دو "
اچانک میرا چہرہ لڑکی کی جانب مڑ گیا جو نیچے روڈ پر کھڑی کن اکھیوں میں میری جانب متوجہ تھی۔ اچانک خان صاحب کو میں جلدی سے واپس مڑتے دیکھا ۔ میں ایک بار پھر لڑکی کی جانب متوجہ ہوا جو جلدی سے آنکھ بچا گئی ۔ اس کا زرد چہرہ میرے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے کافی تھا ۔ میں نے بے اختیار آواز دی ۔
" خان صاحب میری بات تو سنیں ۔۔۔ خان صاحب ۔۔۔ "
مجھے اپنی آواز کسی چیخ کے مشابہ لگی تھی ۔
وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے
میں پھر چلایا ۔۔۔" خان صاحب خان صاحب "۔۔۔۔۔۔
" ماجد بھائی خیر تو ہے کسے پکار رہے ہیں ۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے " لڑکے کی آواز اسے خیالات کی دنیا سے واپسی کھینچ لائی تھی ۔ اس نے دیکھا وہاں واقعی کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔۔
اور وہ بے اختیار سر تھام کر رہ گیا ۔