اب توچھ سات سال ہونے کو آئے ہیں کہ بھارت جانے کا موقع نہیں ملا۔ اُ س سے پہلے متعدد باربھارت جانا ہوا۔بھارت کے دارالحکومت دلی جائے تو نظام الدین اولیا کی درگاہ پر نہ جائے یہ شائد ممکن نہیں ہے۔
دلی کے مغرب میں واقع نظام الدین اولیا(1325۔1238) کی درگاہ کے ارد گرد کے علاقے کو بستی نظام الدین کہا جاتا ہے۔ بستی نطام الدین مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے۔ گندگی،غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر بھارت بھر میں مسلمانوں پر مشتمل بستیوں اورعلاقوں کا خصوصی امتیاز ہیں لیک جہاں تک بستی نظام الدین کا تعلق ہے تو وہ اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے۔ یہاں آپ کو بھارت کی ہرریاست کا مسلمان ملے گا۔
درگاہ پرجانے کے لئے آپ جوں ہی مین روڈ سے اتر تے ہیں توبھکاریوں کا غول آپ کو گھیرے میں لےلیتا ہے۔لنگڑے،لولے، پولیوزدہ،مرد،عورتیں اور بچے غرض ہر قسم کا بھکاری آپ کوان میں ملے گا۔ مزارتک جانے کا راستہ بہت تنگ و تاریک اورپر پیچ گلیوں پرمشتمل ہے۔ان گلیوں میں واقع مکانات کے گلی میں کھلنے والےدروازوں کی پیشانیوں پر نہایت قلیل ہدیے کے عوض مختلف نوعیت کے تعویذ وں کے حصول کےاوقات کاراطلاع کسی نہ کسی نظامی کی باریش تصویر کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔جب آپ ان نظامیوں کے کارندوں اور ایجنٹوں سے بچ بچا کردرگاہ کےدروازے پر پہنچتے ہیں تووہاں بھی مختلف اقسام کے شعبدے باز آپ کو گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ کوئی تعویذ بیچ رہا ہے تو کوئی ساس اورخاوند کو مطیع بنانے کا وظیفہ بتارہا ہوتا ہے۔مزارکے صحن میں جانے سے قبل جب آپ جوتے اتارتے ہیں توان جوتوں کی نگرانی پربیٹھے شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم اینٹھ لے۔جوتوں کی حفاظت کی کوئی متعین
معاوضہ نہیں ہے۔اس کے برعکس آپ بھارت میں کسی بھی سکھ گرودوارے میں چلےجائیں کوئی آپ سے جوتوں کی حفاظت کی فیس وضول نہیں کرے گا حتی کہ دلی میں بہائیوں کی عبادت گاہ لوٹس ٹمپل جواپنے فن تعمیر کے اعتبار سے قابل دید ہے میں بھی نہ کوئی داخلہ فیس ہے اورنہ جوتوں کی حفاظت کا معاوضہ لیا جاتا ہے۔
نظام الدین اولیا کے مزار کے صحن میں پہنچتے ہوئے ہی ایک شخص آپ کے آگے ایک رجسٹر کردیتا ہے کہ اس پردستخط کردیں۔ اگرآپ نے اس رجسٹر پر دستخط کردیں توآپ کو کچھ نہ کچھ رقم اس شخص کو دینا ہوگی۔ مجھے بھی ایک شخص نے رجسٹرپردستخط کرنے کوکہا۔میں نے جواب میں کہا کہ میں دستخط کرنے کی فیس لیتا ہوں چنانچہ وہ لاجواب ہوکر پیچھے ہٹ گیا۔
عورتیں درگاہ کے احاطے میں تو جاسکتی ہیں لیکن جس عمارت میں مزارواقع ہے اس میں داخل نہیں ہوسکتیں۔ درگاہ کےاحاطے میں نظام الدین اولیا کے شاگرد امیر خسرو کی بھی قبر ہے اورشاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا جس نے جنگ تخت نشینی میں دارالشکوہ کا ساتھ دیا تھا کی قبر بھی موجود ہے۔یہ درگاہ نظامی خاندان کی شکار گاہ ہے جہاں وہ بھارت کے ان پڑھ، پسماندہ اور محروم مسلمانوں کی لوٹ کھسوٹ اوراسحصال مذہب اورعقیدے کے نام پر کرتے ہیں
نظام الدین درگاہ کے قریب ہی واقع ایک صحن میں غالب کی قبر ہے۔ میں اور میری بیوی جب وہاں پہنچے تو شام ہورہی تھی۔صحن کا دروازہ مقفل تھا۔ ادھر ادھر موجود دوکانداروں سے پوچھا تو کسی نے کوئی معقول جواب نہ دیا ایک لڑکا جو وہاں کھڑا تھا اس نے کہا کہ اگر آپ مجھے بیس روپے دیے دیں توہ وہ صحن کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ ہم نے اسے بیس روپے دیئے تو اس نے دروازہ کھول کرہمیں صحن کے اندر بھیج دیا اور یوں ہم غالب کی قبر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے
درگاہ سے تقریبا 100 میٹر کے فاصلے پر تبلیغی جماعت کا مرکز ہے اور وہاں ہی وہ تاریخی بنگلہ مسجد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جہاں مارچ کے دوسرے ہفتے میں ہونےوالے تبلیغی اجتماع کی بدولت کرونا وایریس پورے بھارت میں پھیلنے کا موجب بنا۔ چھ منزلہ بنگلہ مسجد بھارت میں تبلیٖغی جماعت کا ہیڈکوارٹر ہے۔
بنگلہ مسجد مولانا الیاس کاندھلوی نے بنائی تھی۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس دیوبندی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھےاوراسلام پر موجود مقامی ثقافتی اور سماجی اثرات کو ختم کرکے اسے اوریجنل عربی اسلام بنانے کے خواہاں تھے۔ یہ دلچسپ زمینی حقیقت ہے کہ نظام الدین اولیا برصغیر کی مشترک ثقافت جو مختلف مذاہب اور سماجی افکار کے باہمی تال میل سے تشکیل پائی تھی کے علم بردار تھے جب کہ مولانا الیاس اس مشترک ثقافت اورتہذیب کے ناقد اورمخالف تھے۔ دونوں کے مراکز پہلو بہ پہلو موجود اوراپنے اپنے پیروکاروں کی مذہبی اور روحانی اپنے مالکوں کی مالی، سماجی اور معاشی ضرورتوں کو پورا کررہے ہیں