درداں دی ماری دلڑی علیل اے
"لڑو گے؟ مرو گے؟ خدا کی قسم لڑو گے؟" یہ وہ آواز تھی جو کبھی سٹیج سے پنڈال میں جاتی اور کبھی پنڈال سے سٹیج کی طرف عوام کا سنہیا اعتماد کے مقدس غلیف میں لپیٹ کے لے آتی اس گرج دار آواز کے خالق جن کے لہجے میں صدیوں کا اعتماد تھا جب اس غلیف کو کھولتے تو اس دہقان کے آنسو استقبال کرتے جس نے روزی میسر نا ہونے پر کسی کھیت کو جلایا نہیں ہوتا تھا، کہیں اس پہ دوسروں کا جہیز بناتے ہوئے بوڑھی کنواری کے ہاتھ پہ لگی سوئی سے نکلے خون کا نشان ہوتا ، کہیں اس اماں کا عکس ہوتا جس کی آنکھیں کسی مستقبل کے انتظار میں پتھرا گئی تھیں اور اب عینک کی جگہ سبز پٹی نے لے لی تھی، اور کہیں کوئی بچہ ہوتا جس کی قلم اپنا مستقبل لکھتے ہوئے مستقبل کے کسی نقطے پر ٹوٹ گیا ہو، اس نے اس غلیف کو سندھو کی روانی سے مس کیا اور سینے سے باندھ کر سامراج سے ٹکرا گیا، پھر ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے گئے، پھر اہل سفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے گئے، پھر دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکی، سب تاج اچھالے گئے، سب تخت گرائے گئے، اور راج کیا خلق خدا نے۔ لیکن عوام کی یہ جھمر وقت کے بھینگے سامراج کو پسند نا آیا اور اس نے علی کی ذوالفقار کو جس کو مقامی بھٹو کہتے تھے عوام کی خلافت سے الگ کر دیا ، اس "جرم"کی پاداش میں کال کوٹھری میں ڈال کے عوام کے قائد کو عوام سے دور کر دیا اور حکم جاری کر دیا کہ "پھل درگاہوں چنڑ سگدے ہو ہار بنڑا نہیں سگدے، شاہ حسین کو پڑھ سگدے ہو میلے گا نہیں سگدے " جس پہ سندھ وادی کے وارث نے " درداں دی ماری دلڑی علیل اے" کہہ کے مہذب انداز میں احتجاج کروایا اور اپنی پنکی کو اسکی سالگرہ پر کچھ نا دے سکنے پہ ایک لمحہ رنجیدہ ہونے کے بعد اس کو تاریخ کی کربلا کے ایسے خطبے سے جوڑا جو ہر دور کے یزید کے کانوں کے پردے پھاڑتا ہے، اور خود کسی تارے کے پھندے سے جھول گیا ۔
پنکی جو واقعی بینظیر تھی کی آواز میں باپ کا لہجہ اتر آیا تھا ، باپ کے انداز میں بھینگے سامراج کو للکارا اور عوام کی عدالت میں پیش ہو گئی، عوام نے پنکی کو قائد کیا لیکن ایوان پہنچتے ہی اسے "میرو ، میرو" کوکنا پڑا۔ سندھو دھرتی جو ابھی تک اپنے بیٹوں کو اپنی گود میں لے رہی تھی تو لطیف بھٹائی کی سر نے خدا سے دعا کی تو بلاول عطا ہوا۔ لیکن سماج کی کربلا سے چلنے والا زندگی شام ڈھلنے تک بھی وقت کی شامی دربار میں نہیں پہنچا تھا، جس عمر میں بچے پاؤں پہ ریت ڈال کر اپنی امان کے لئے گھر " کوٹھی کوٹھی پک پو وا مینہ آندا پئے" کہہ کر بنا رہے ہوتے ہیں اس عمر میں بلاول ماں کی انگلی تھام کے درباروں میں پیشیاں بھگت رہا تھا، جس نے کبھی جام ساقی کے گلے میں لٹکتی ہتھ کڑیاں دیکھیں تو کبھی باپ اور بیٹے کے ملاپ میں سلاخیں، باپ اور عوام کا مقدمہ ہر عدالت میں لے گئی جسے یزیدی حاکموں نے ہر بزار میں الزامات کے پتھر مروائے ، پنکی کا صبر چیخ بنتا جا رہا تھا ، جسے بہرے بھی محسوس کر رہے تھے تو ایک شام اس چیخ کو بے دردی سے دبا دیا گیا اور
"شام لتھی نا بھوئیں تے لوکوں رتول پہلے لہہ پئی
گرم ریت تے بھجدے بھجدے سسڑی اوڑک ڈھیہہ پئی"
پہلی بار قیامت کو بپا ہوتے دیکھا ، بلاول جس نے ماں کی گود میں لیٹنا تھا امڑی کو بازوؤں میں لیا اور دھرتی ماں کے حوالے کر کے اس کرب سے چیخا کہ موت کو رلا دیا ۔
سندھو کی آٹھویں شہزادی کے گھوٹ نے لڑکھڑاتے پاکستان کو "کھپے" سے آسرا دیا
ایک بار پھر عوامی عدالت لگنے والی ہے ایک طرف بھینگے سامراج نمائندے ہیں ، دوسری طرف جہدوجہد کی تیسری پشت جس کے ایک ہاتھ میں نانے کی گردن سے بہتا خون اور دوسرے ہاتھ میں ماں کے سر کی زخمی چادر ہے، فیصلے کی گھڑی قریب ہے اور وقت قلم لے کے فیصلہ لکھنے کو بیٹھا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“