یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پر بہت دنوں سے لکھنے کی خواہش تھی ، لیکن کل ایک ناروے سے محب وطن پاکستانی دوست نے ایک غزل بھیج کر پوری کر دی ۔ ایک مشہور امریکی نفسیاتی ماہر نے کہا تھا کے جب کسی ایک شخص کی ایک دن لاٹری نکلتی ہے اور اسی دن ایک شخص کار حادثہ میں معزور ہو جاتا ہے ، اس دن تو شاید دونوں کے جسمانی یا نفسیاتی احساسات اور تاثرات مختلف ہوں لیکن چھ مہینہ بعد وہ ایک برابر ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہے وہ نقطہ جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس سے باہر کچھ نہیں ہے ، سب دھوکہ اور فریب ۔ ہمارا اپنا ڈالا ہوا سیاپا ۔ جو نواز شریف اور زرداری کو کھرب پتی بنا کر بھی خوش نہ کر سکا اور میرے جیسوں سے یہ فریب سو میل دور رہ کر جنت دے گیا ۔ جی یہ بلکل دھوکہ ہے ، فریب ہے بہت بڑا illusion ہے ، مادہ پرستی کی زندگیاں اسی دھوکہ کے گرد گھومتی ہیں اور روحانی زندگیاں اس سے بلکل مختلف ۔
انسانی دماغ اور عصبی نظام یا nervous سسٹم باڈی کو تو ریگولیٹ کر سکتا ہے لیکن وہ خود سے کوئ اس میں corrections نہیں کر سکتا ۔ وہ ہدایات یا کریکشنز روح یا دل والے دماغ سے related ہیں جو اصل میں ساری کائنات کے ساتھ جُڑا ہوا ہے ۔ اب ہوتا کیا ہے کے ہم اس کائنات والے لنک کو چِھوڑ کر ایک دنیاوی لنک کو چِمٹ جاتے ہیں جس سے دونوں نظام تباہ و برباد ہو جاتے ہیں ۔ جسمانی ریگولییٹری نظام بھی اور روحانی بھی ۔
اس سارے معاملہ کو سمجھنا بہت ہی آسان ہے ۔ ہمارا لالچ ، حرص اور منفی سوچ غصہ ، حسد ، مقابلہ اور انتقام والی زندگیاں اس کا بیڑہ غرق کر دیتی ہیں ۔ ہر ایک کو پیسہ کا شوق ، چودھراہٹ کا نشہ ، بڑا بننے کا چاؤ۔ بن جاؤ ، ہم سے سو میل دور رہو۔
جسم میں دو کیمیکلز ایسے ہوتے ہیں جو ان neurone کو trigger کرتے ہیں ، ایک dopamine اور دوسرا serotonin، ساری غمی خوشی جسم کے حساب سے ان سے ہی ریگولیٹڈ ہے ۔ ان کی کمی اور زیادتی ، ڈیپریشن ، پاگل پن ، غم ، خوشیاں اور مسکراہٹیں لاتی ہیں ۔ سائیکیٹرسٹ ان ہی کا بیلینس مقرر کرتا ہے اکثر ابتر حالت میں الیکٹریک شاک کی ایڈوائس دیتا ہے ۔
نفسیاتی ماہر ین یوگا وغیرہ سے اس کیفیت سے باہر نکالنے کی تدابیر بتاتے ہیں جن سے یہ سب کچھ ہوا ۔ اس کا فورا علاج تو یقیناً میڈیسن ہے ، لوگ Prozac کی صورت میں سیروٹنن بُوسٹرز لیتے ہیں ۔ یہ کیمیکل قدرتی طور میں بھی جسم میں بنتے ہیں مثلاً ورزش سے یا پیار محبت واے جنسی تعلق سے ۔ عبادات بھی یا خاص آیات و الفاظ کا ورد یا meditation sounds بھی اس کو بہت تقویت دیتی ہیں ۔
خوشی اور غمی دراصل ایک ہی کیفیت ہے ۔ ایک ہی سکہ کی ایک ہی سائیڈ ہے ۔ یہ overlap کرتی رہتی ہیں آپ کے روحانی لنک کے جوڑ کے مطابق ۔ اگر وہ آپ کا گرڈ مضبوط ہے تو آپ ایک ہی کیفیت میں رہیں گے جسے صوفی نروانا کہتے ہیں اور اگر وہ لنک کمزور ہے تو آپ ڈاکٹر کے پیٹے پڑے رہیں گے ۔ کیا ہوتا ہے جب ہمیں غم یا درد والے حالات آتے ہیں ہم قدرت کو مورد الزام ٹھراتے ہیں اور مزید غم میں چلے جاتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ راستہ اختیار کیا جائے جو نروانا کی طرف لے جائے ۔
مادہ پرستی اور دنیاوی زندگیاں means تو ہو سکتی ہیں کسی خاص قدرتی منزل کا وہ منزل کبھی نہیں ہو سکتی ۔ نوجوان نسل میرے روحانی بلاگز پڑھ کر بہت سکون میں آ جاتی ہے ۔ ان پر سب سے زیادہ پریشر ہوتا ہے ۔ ان کو معاشرہ ، والدین اور اساتذہ ایک ایسے ٹارگٹ پر لگا دیتے ہیں کے یا تو وہ achieve نہیں ہوتا یا جب achieve ہوتا ہے تو جسم میں کچھ نہیں بچتا ۔ ۲۰ یا ۳۰ سال کی عمر میں شوگر ، کولسٹرول ، بلڈ پریشر اور کینسر جیسی بیماریاں لگ جاتی ہیں ۔ ہم ترقی اسے گنتے ہیں جو جسم کی ہو جس میں آپ کی فائیو اسٹار لائف میں ہوں ۲۴/۷ ۔ اربوں کا بینک بیلینس ہو اور لوگوں کی زندگیوں پر کنٹرول ۔ کیا اس سے بڑی حماقت ہو سکتی ہے کوئ ؟
فیصلہ آپ پر ہے ۔ ہر انسان unique ہے اور ہر انسان کا اس دنیا میں آمد کا مقصد بھی یُونیک ہے ، اس کو تلاش کریں ۔ اس کی جستجو میں وقت صرف کریں ۔ اس کی گائیڈنس آپ کو جانور دیں گے ، پرند چرند دیں گے ، دریا اور ریگستان دیں گے ، آسمان اور سمندر ۔ پچھلے دنوں میرے کریڈٹ کارڈ بینک نے مجھے کچھ مختلف کارڈوں کے ڈیزائن کی چائس دی میں نے بلی والا پسند کیا اور بلی بلکل سِمبا جیسی ۔ کل مجھے موصول ہوا اور کل ہی میں نے جیف ٹویڈی کی بلی والی Wilco کی اسٹاروارز والی البم کی تصویر لگائ تھی ۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں اپنے چاہنے والوں کو کے آپ میری بھی ہرگز نہ تقلید کریں ۔ میں بھی آپ کی طرح سیکھ رہا ہوں اس کائنات کے رازو نیاز ، مجھ میں بھی بے پناہ غلطیاں ہیں ۔ پھر کہوں گا ہم ایک دوسرے سے کائنات کے زریعے جُڑے ہوئے تو ضرور ہیں لیکن ایک دوسرے پر ہماری زندگیوں کا کوئ کسی قسم کا انحصار نہیں ۔ سیاستدان ، حکمران اور اشرافیہ ہمارا استحصال کر کے کنٹرول کرتے ہیں اور ہم نہ صرف ان کے چکر میں آتے ہیں بلکہ ہم بھی کنٹرول کنٹرول کھیلنا شروع کر دیتے ہیں ۔ آپ کی مرضی جناب ، میں کیا کہ سکتا ہوں سوائے اس کے ، کہ چیزیں بہت ہی سادہ ہیں بہت انصاف والی ہیں ۔ صرف خوشیاں ہیں ، جشن ہے اور شادمانیاں ۔ غم ہمارا اپنا کیا دھرتا ہے ، لگے رہیں منو بھائ ۔ ظفر اقبال کے ایک شعر پر ختم کروں گا ؛
خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
کی دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا
بہت خوش رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...