جب گھر میں صرف دو وقت کا راشن باقی رہ گیا تو اس نے سوچا اب کچھ کرنا چاہیے ۔دوسرے دن سویرے ہی اٹھ کر وہ اپنے کاموں میں لگ گیا ۔اسے کام کرتا دیکھ بیوی نے پوچھا۔
ـ’’ کیا کر رہے ہو ۔؟‘‘
اس نے جواب دیا
’’چٹ پٹی بنا رہا ہوں۔ ‘‘
’’ کس لیے ؟ ‘‘ بیوی نے پوچھا ۔
’’بیچنے کے لئے ۔‘‘
ــ’’دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ۔‘‘ بیوی نے کہا ۔’’ باہر نکلنے گھومنے والوں کو پولیس کو جانوروں کی طرح مار رہی ہے اور تم اس لاک ڈاون میں چٹ پٹی پبیچنے جاؤگے۔‘‘
آج اگر میں چٹ پٹی بیچنے نہیںگیا تو کل سے ہم ہمارا پورا خاندان بھوکےمرنے لگے گا ۔ ‘‘
چٹ پٹی تیار کرکے وہ اسے فروخت کرنے کے لئے نکل گیا۔
گلیوں میں وہ پولیس سے بچتا دھیرے دھیرے آواز لگاتا۔ حسب معمول چٹ پٹی بیچ رہا تھا ۔جو لوگ اس کی چٹ پٹی کے شوقین تھے اس کی آوازسنتے ہی گھروں سے نکل آتے اور چٹ پٹی لینے لگتے ۔ وہ خوش تھا چلو اچھا دھندہ ہو رہا ہے ۔
لیکن لیکن آخر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ ہی گیا ۔
پولیس نے ڈنڈے مار مار کے اس کے جسم کو دہکتا ہوا انگارہ بنا دیا ۔
’’ا یہاں لوگوں کو جان کی پڑی ہے اور تو چٹ پٹی بیچ رہا ہے کمینے چل چلا جا نہیں تو تو اندر ڈال دوں گا۔‘‘
کسی طرح وہ اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔
شام کو وہ اپنے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی کا سامان راشن وغیرہ لے کر آیا تھا۔
رات کو کو کھانا کھا کر جب وہ بستر پر لیٹا تو اس کا جسم دہکتا ہوا انگارہ بنا ہوا تھا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے اپنے جسم پر پر پولیس کی مار سے بنے نشانات کو سہلانے لگا۔ لیہ دیکھ کر بیوی نے پو چھا
’’ بہت درد ہو رہا ہے نا ؟ ‘‘
’’ہاں‘‘ اس نے جواب دیا ’’ لیکن یہ درد اس درد سے کم ہے ، جو تم لوگوں کو بھوکا دیکھ کر مجھے ہوتا اس مار کے بعد کم سے کم اس بات کا ایک اطمینان تو ہے کہ اب ہم آٹھ دن بھوکے نہیں مریں گے ۔‘‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...