“اس زمین پر ہماری صورتحال عجیب ہے۔ ہر کوئی ایک مختصر وقت کے لئے آتا ہے، یہ جانے بغیر کہ کیوں۔ کئی بار محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک آفاقی پروگرام ہے۔ لیکن جہاں تک روزمرہ کی زندگی کا تعلق ہے، ایک چیز بالکل واضح ہے۔ ہم یہاں پر دوسروں کی خاطر موجود ہیں”۔
۔البرٹ آئن سٹائن
دوسروں کا مشاہدہ کر کے ان کے بارے میں رائے قائم کرنا اور اس رائے کے مطابق ان کے ساتھ برتاوٗ کرنا ۔۔۔ یہ کام ہم بالکل ابتدائی عمر سے شروع کر دیتے ہیں۔ چھ ماہ کے بچوں پر کی گئی ایک سٹڈی میں ان کو ایک لکڑی سے بنے گول آنکھوں والے دائرے کو ایک سلوپ چڑھنے کی کوشش کرتے دکھایا گیا۔ وہ اس پہاڑی کو چڑھنے کی کوشش کرتا، بار بار پھسل جاتا اور ناکام رہتا۔ کچھ دیر بعد ایک مثلث نیچے سے آ کر اسے دھکا دیتی، اس کی مدد کرتی اور اسے اوپر پہنچنے میں مدد کرتی۔ کئی بار اوپر سے ایک تنگ کرنے والا چوکور آ کر اسے روک دیتا اور نیچے گرا دیتا۔
اس کے بعد بچوں کو جب کھیلنے کے لئے یہی شکلیں دی گئیں تو تمام بچوں نے چوکور کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا جبکہ مثلث کے ساتھ کھیلنے کو ترجیح دی۔ اسی تجربے کو دوسرے کنٹرولز کے ساتھ، نیوٹرل آبجیکٹس کے ساتھ دہرایا گیا تو اس نے ایسے ہی نتائج دئے۔ مددگار شکل نیوٹرل کے مقابلے میں ترجیح رہی۔ نیوٹرل شکل تنگ کرنے والے کے مقابلے میں۔
گلہریاں ریبیز کے علاج کی فاونڈیشن نہیں بناتیں یا سانپ دوسرے سانپوں کو سڑک پار کرنے میں مدد نہیں کرتے۔ لیکن انسان ہمدردی کی قدر کرتے ہیں۔ جب ہم تعاون کرتے ہیں، دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہمارا اپنا انعامی نظام حرکت میں آتا ہے۔ کسی کے ساتھ اچھائی کرنا، مہربانی کرنا ہمارے اپنے لئے خود انعام ہے۔ اپنے بولنا شروع کرنے سے بھی پہلے ہم رحم دلی کو پسند کرتے ہیں، بے رحم کو ناپسند۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منیسوٹا یونیورسٹی میں ایک تجربہ کیا گیا۔ تیس طالبات کو ایک ہال میں بلایا گیا۔ (یہ ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں) اور ان کو آپس میں کوئی بات کرنے سے منع کیا گیا۔ وہاں پر ایک سنجیدہ لگنے والے شخص نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ بجلی کے جھٹکوں کے اثرات جاننے کے لئے ان طالبات پر تجربہ کرنے لگا ہے۔ اس کے لئے ایک چھٹکا دیا جائے گا۔ اگلے سات سے آٹھ منٹ اس تجربے کے تفصیل سے آگاہ کرتا رہا کہ اس سے ہونے والی تکلیف اصل ہو گی، جسے کچھ دیر کے لئے برداشت کرنا پڑے گا۔ اس دوران بلڈ پریشر نبض وغیرہ چیک کی جائے گی اور اس کے لئے پیچھے پڑے خوفناک صورت والے آلے کے بارے میں تعارف کروایا کہ وہ کیسے یہ جھٹکا دے گا۔ یہ سب ان طالبات میں خوف اور بے چینی پیدا کرنے کے لئے تھا۔ اصل تجربہ برقی جھٹکوں کا نہیں، سوشل سائیکولوجی کا تھا۔
تجربہ کرنے والے نے کہا کہ وہ دس منٹ میں واپس آ رہا ہے۔ طالبات کی مرضی ہے کہ وہ اس دوران اکیلی ہی کھڑی رہیں یا پھر اس دوران ساتھ والے کئی کمروں میں کسی دوسری کے ساتھ وقت گزار سکتی ہیں۔
یہی تجربہ ایک اور گروپ کے ساتھ دہرایا گیا۔ واحد فرق یہ تھا کہ ان کو اس شاک سے ڈرایا نہیں گیا تھا بلکہ کہا گیا تھا کہ اس جھٹکے سے تکلیف نہیں پہنچے گی۔ بہت ہلکا سا ہے، بس ایک گدگدی سی ہو گی۔
اس تجربے کا اصل مقصد انتخاب دیکھنا تھا۔ پہلے تجربے میں، جہاں پر طالبات تکلیف دہ شاک کی توقع کر رہی تھیں، دو تہائی طالبات نے دوسری طالبات کے ساتھ وقت گزارنا پسند کیا۔ جبکہ دوسرے گروپ میں محض ایک تہائی طالبات نے۔
آنے والے متوقع برے وقت نے سپورٹ گروپ بنوا دئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم تکلیف میں ہوں، ہم سہارا ڈھونڈتے ہیں، کسی کا ساتھ ہونا تکلیف بانٹ دیتا ہے۔ ہم ایک سوشل نوع ہیں جو سپورٹ، اور دوسرے کی تائید کی خواہش رکھتے ہیں۔تنہائی یا ریجکٹ کر دیے جانا تکلیف پہنچاتا ہے۔ محض محاورے اور استعارے کی نہیں، اصل والی۔ پاوٗں کچل دیے جانے یا دوستی کا بڑھا ہاتھ جھٹک دئے جانے کی تکلیف دماغ کے ایک ہی حصے میں ہوتی ہے۔ (تفصیل نیچے لنک سے)۔
سوشل تکلیف اور فزیکل تکلیف کا تعلق ہمیں جذبات اور جسم کے فزیولوجیکل پراسس کے تعلق سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ سوشل علیحدگی نہ صرف تکلیف لے کر آتی ہے بلکہ صحت پر اثر ڈالتی ہے۔ سوشل تعلقات کا نہ ہونا صحت کے لئے بڑا رِسک فیکٹر ہے۔ تمباکو نوشی، موٹاپے، ہائی بلڈ پریشر اور ورزش نہ کرنے جیسے عوامل کی طرح۔ طویل عمری کا سب سے بڑا پریڈکٹر سوشل تعلقات ہیں۔ الگ تھلگ رہنے والے لائف انشورنس کی کمپنیوں کے لئے بھی بڑا رِسک ہیں۔