کیا کسی کو یاد ہے، چوہدری امیر حسین قومی اسمبلی کے سپیکر رہے؟ ایک دو نہیں پورے چھ سال! کسی اخبار میں، ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام میں کبھی ان کا نام سنا؟
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سپیکر رہیں! بے نظیر بھٹو کی زندگی میں کچھ بھی نہیں تھیں! اس سیارے کی جسے کرۂ ارض کہتے ہیں، ملک ملک کی سیر کی، قرضے معاف کرائے، مراعات لیں۔ تاریخ کے کتنے لفظ ان کے حصے میں آئیں گے؟
الٰہی بخش سومرو، حامد ناصر، گوہر ایوب؟ کیا کسی کو یاد ہیں؟ یوسف رضا گیلانی بھی رہے! من پسند بھرتیاں کیں جن کی پاداش میں جیل یاترا ہوئی۔ یہ الگ بات کہ اب ہر جیل یاترا، جمہوریت کے لیے قربانی بن جاتی ہے، جرم کیجیے! بچ گئے تو قسمت کے دھنی، پکڑے گئے تو اسیرِ جمہوریت!
ہاں! تاریخ نے فضیلت کا تاج پہنایا ہے تو مولوی تمیزالدین خان کے سر پر! گورنر جنرل غلام محمد نے قومی اسمبلی کا تخت الٹا تو مولوی صاحب نے فیصلہ چیلنج کر دیا۔ جسٹس منیر نے طاقت وروں کا ساتھ دیا۔ مولوی صاحب ہار گئے، مگر ایسے ہارے کہ جیت ان کا مقدر بنی! تاریخ میں دونوں زندہ ہیں، مولوی تمیزالدین خان بھی اور جسٹس منیر بھی، لیکن اس طرح جیسے سراج الدولہ بھی تاریخ میں زندہ ہے اور میر جعفر بھی! ٹیپو سلطان بھی اور میر صادق بھی! جبھی تو فیض نے کہا تھا؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
جسٹس منیر نے جب جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھونکی تو ایک اور آواز بھی وہاں ابھری، جسٹس کارنیلیس کی! آگرہ کے ایک اردو سپیکنگ مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والے کارنیلیس نے فیصلے سے اختلاف کیا‘ اور اپنی رائے جمہوریت کے پلڑے میں ڈالی؎
کامل اس فرقۂ زہاد سے اُٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
دو دن سے شور برپا ہے کہ سردار ایاز صادق دوسری بار سپیکر منتخب ہو گئے ہیں، شور! ایسا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی! گرد وہ اٹھی ہے کہ آسمان چھپ گیا ہے! اس خوشی کے موقع پر کہ رقص کرنا چاہیے تھا، فقیر شاعر نظیر اکبر آبادی یاد آ گیا؎
دو دن تو یہ چرچا ہوا، گھوڑا ملا ہاتھی ملا
بیٹھا اگر ہودے اُپر، یا پالکی میں جا چڑھا
آگے کو نقارا نشاں، پیچھے کو فوجوں کا پرا
دیکھا تو پھر اک آن میں باقی نہ گھوڑا نہ گدھا
گر یوں ہوا تو کیا ہوا اور وُوں ہوا تو کیا ہوا!
ایاز صادق خوش بخت ہیں! وہ بھی ان کے پشتیبان بنے جو وردی میں دس بار منتخب کرانے کا عزم رکھتے تھے‘ اور وہ بھی جو اقتدار میں رہنے کے لیے (ہمہ وقت اقتدار میں رہنے کے لیے) مذہب کو یوں استعمال کر رہے ہیں کہ اس کارِ ’’خیر‘‘ کو سائنس بنا دیا ہے! کام تو یہ شیخ مبارک اور اس کے فرزندوں نے بھی کیا تھا لیکن جو تاریخ ہمارے عہد میں بنی ہے، اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی!
تاریخ بے رحم ہے! بہت بے رحم! کم بخت میں خرابی یہ ہے کہ شان و شوکت اور تزک و احتشام سے مرعوب نہیں ہوتی! وہ یہ نہیں دیکھے گی کہ آپ سپیکر رہے! وہ یہ دیکھے گی کہ اسمبلی کون سی تھی، جس کے سپیکر رہے! اسمبلی نے حاصل کیا کیا؟ تقریباً ساڑھے تین سو ارکان میں سے کتنے قوم کو کچھ دینے کے لیے اپنی نشستوں سے اٹھے؟
اسمبلی نے عوام کے فائدے کے لیے کون کون سے قوانین پاس کیے؟ اس پر قومی خزانے سے اخراجات کتنے ہوئے… تنخواہیں، ٹی اے ڈی اے، علاج معالجہ، دیگر مراعات! کیا یہ ممبرشپ، یہ رکنیت، واقعی اتنے خرچ کی اہل تھی؟
اسمبلی؟ کون سی اسمبلی؟ کیا پالیسی کے معاملات اس اسمبلی میں طے ہوتے ہیں؟ کیا طالبان سے نام نہاد مذاکرات کے لیے فیصلہ اسمبلی نے کیا تھا؟ کیا مذاکراتی ٹیم کی نامزدگی اسمبلی کے ہاتھوں ہوئی تھی؟ کیا خارجہ امور اسمبلی میں طے ہوتے ہیں؟ وزیر اعظم اوفا سے واپس آئے تو اسمبلی نے ان کے دورے کی کامیابی یا ناکامی پر بحث کی؟ کیا اس اسمبلی کو معلوم ہے کہ مُودی نام کا ایک شخص حال ہی میں یو اے ای گیا تھا؟ اور اس نے وہاں کیا کیا؟
اسمبلی میں کتنوں کو معلوم ہے کہ پاکستانی کا توازن تجارت (بیلنس آف ٹریڈ) کیا ہے؟ توازنِ ادائیگی (بیلنس آف پے منٹ) کیا ہے؟ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ کیا کسی کو پورے ایوان میں فکر ہے کہ تجارت خسارے میں جا رہی ہے؟ اُس کا رخ کھائی کی طرف ہے؟ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں برآمدات 5.16 ارب ڈالر کی ہوئیں اور درآمدات 10.67 ارب ڈالر کی! یعنی ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا خسارہ! گزشتہ برس کے انہی تین مہینوں کے مقابلے میں برآمدات چودہ فی صد نیچے گئی ہیں! چین کے ساتھ تجارت گزشتہ پانچ سال کے دوران بڑھی ضرور ہے مگر اس کا توازن چین کے حق میں ہے، پاکستان کے حق میں نہیں! اسی فی صد برآمدات چین کو جو بھیجی جا رہی ہیں وہ کاٹن کے کپڑے اور مصنوعات پر مشتمل ہیں۔ کوئی تنوع نہیں! کوئی پھیلائو نہیں! وجہ؟ صنعتی پیداوار کی لاگت میں بے ہنگم اضافہ! مصنوعات میں ویرائٹی کی کمی! توانائی کا بحران! حکومتی پالیسیوں میں بے یقینی! اور اشیا کی ناقابلِ رشک کوالٹی! کوئی جیتا جاگتا ملک ہوتا تو اسمبلی میں اس پر وہ بحث ہوتی اور وہ سوالات ہوتے کہ وزیر تجارت کو دن میں تارے نظر آ جاتے! حکومت پنجوں کے بل کھڑی ہو جاتی، اصلاحات ہوتیں، اقدامات کیے جاتے، صنعت کاروں اور برآمدکنندگان سے بات چیت ہوتی! سہولتیں بہم پہنچائی جاتیں اور تجارت کا توازن اُدھر سے اِدھر ہو جاتا! مگر اس اسمبلی میں کیا ہو سکتا ہے؟ اپوزیشن اوّل تو مفقود ہے! سید خورشید شاہ ہر مشکل وقت میں حکومت کی کمر سہلا رہے ہوتے ہیں! جو لولی لنگڑی اپوزیشن، پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق، پائی بھی جاتی ہے اس میں شیڈو (Shadow) کابینہ ہی نہیں ہے! اپوزیشن کا ’’وزیر‘‘ تجارت کون ہے؟ کسی کو کوئی خبر نہیں!
کیا اس اسمبلی میں کبھی اس موضوع پر بحث ہوئی ہے کہ بلوچستان کے کیا مسائل ہیں! اب تو لوگوں نے بلوچستان کو ضرب المثل بنا لیا ہے؎
بہت ویران ہوتا جا رہا ہوں
بلوچستان ہوتا جا رہا ہوں
اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ بھی اپنا نصف ختم کرنے کو ہے اور حالت یہ ہے کہ بلوچستان کے سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں میں سرداروں کا غلّہ ذخیرہ کیا جاتا ہے! سردار نئی بندوق ٹیسٹ کرنے کے لیے کسی بھی راہگیر کا سر اُڑا سکتا ہے۔ اُس کے کہنے پر قبائلی پہاڑوں پر نہ چڑھیں تو کہاں جائیں! کیا اس اسمبلی کو معلوم ہے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کیا صورتِ حالت ہے؟ کیا کبھی زرعی اصلاحات پر بحث ہوئی! یا تعلیمی نظام پر! یا ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے پر! یا اُن اقدامات پر جو ہماری سرحدوں سے غیر ملکیوں کا داخلہ کم کر سکیں؟ کیا اس اسمبلی میں کسی نے آنسو بہائے ہیں کہ شمالی علاقوں میں سیاحت کے محکمے کی کارکردگی صفر ہے؟ کیا کسی معزز ممبر کو معلوم ہے کہ ہر سال کتنے سیب، کتنی خوبانی، کتنے انگور، کتنے آڑو اور کتنے انار ضائع ہوتے ہیں اور یہ کہ پھلوں کو محفوظ کرنے کا ایک کارخانہ تو کیا، ایک چھوٹی سی فیکٹری بھی کہیں نہیں پائی جاتی!
قومی اسمبلی کی جڑواں بہن سینیٹ ہے! خوابِ خرگوش کی ایک اور مثال! ایک صاحب گیارہ سال اس کے سربراہ رہے! ہر حکومت کے حمایتی! مقصد صرف طولِ اقتدار تھا! عوام کو کیا دیا؟ اقتدار ڈھلا تو گھر میں اُن کے ساتھ وہی ہوا جو انہوں نے عوام کو دیا تھا! ڈاکو آئے، انہیں رسیوں سے باندھا! لُوٹ مار کر کے چلے گئے؎
اے شمع! تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
بعد میں ڈھنڈیا پڑی! ڈھنڈورا پٹا، جو ہونا تھا ہو چکا تھا! گیارہ سال آپ طاقت ور ادارے کے سیاہ و سفید کے مالک رہے! پولیس ہی کو ٹھیک کرا جاتے! آج آپ کو بھی فائدہ ہوتا!
موجودہ چیئرمین نے حکم دیا ہے کہ آمر کا نام کوئی نہ لے۔ ایک وزیر نے پرویز مشرف کا ذکر کیا تو جلال میں آ کر فرمایا:’’کون مشرف؟ آپ نے مشرف کا نام کیوں لیا! آئندہ ایوان میں اس کا نام نہ سنوں! کسی رکن پارلیمنٹ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہ دوں گا کو وہ مستقبل میں ایوان میں اپنی بحث کے دوران کسی آمر کا حوالہ دیں۔‘‘
مانا آمریت بری ہے! مگر آپ تاریخ کے صفحات سے الفاظ کیسے کھرچ سکتے ہیں! امرِ واقعہ سے انکار کس طرح ہو سکتا ہے! رعونت کی بات اور ہے، ورنہ اس قسم کے احکام سے سارا معاملہ غیر سنجیدہ ہو جاتا ہے! یوں بھی، ظل الٰہی اجازت مرحمت فرمائیں تو پوچھنے کی جسارت کی جائے کہ آپ کی پارٹی میں آخری انتخابات کب ہوئے؟ چیئرمین کے لیے امیدوار کون کون تھا؟ آپ نے کسے ووٹ دیا تھا؟ کیا ہماری سیاسی جماعتوں میں بدترین آمریت، جسے خاندانی آمریت کہتے ہیں… رائج نہیں؟ ان کے نام لینے پر بھی پابندی لگائیے!
بہرطور ایک مثالی قومی اسمبلی کا دوسری بار سپیکر بننے پر جناب سردار ایاز صادق کی خدمت میں مبارک باد!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔