در بدری ، ملاحی اور ادب
جوزف کونراڈ پر ایک تعارفی نوٹ
بندہ پیدا یوکرائن کے تاریخی شہر بردیشیو (Berdychev) میں ہو لیکن اس شش و پنج میں رہے کہ وہ یوکرائنی کہلائے یا پولینڈیا، لیتھونیا کا باسی بنے، خود کو روسی زار کی رعایا جانے یا پھر یہ سب بھی نہیں، ایسے میں کبھی سوچے کہ فرانس کی شہریت اختیار کرے، سوئس بن جائے یا پھر امریکی اور یہ مخمصہ اس کے دماغ پر برسوں چھایا رہے۔ وہ اس دوان ایک بار اپنے سینے میں گولی بھی داغ کر مُکتی پانے کی کوشش بھی کرے اور بالاآخر تھک ہار کر 29 برس کی عمر میں برطانوی شہریت کے لئے درخواست دے دے، جو اسے مل بھی جائے لیکن پھر بھی روس کا زار الیکساندر۔سوم اسے اگلے تین سال تک اپنی ہی رعایا کا ایک فرد گردانتا رہے اور اسے لندن میں روسی سفارت خانے کی مسلسل حاضری میں رہنا پڑے۔ برطانوی شہریت مل جانے پر اور انگریزی ادب میں ایک اونچا مقام مل جانے پر بھی وہ خود کو یوکرائنین کہلانے کی بجائے پولش کہے۔ پولش بھی شاید اس لئے کہ وہ پولینڈ کی روسی تسلط سے آزادی کے خواہاں ایک یوکرائنین باغی اور انقلابی لکھاری کا بیٹا ہو چاہے وہ اس کے انقلابی اور باغیانہ خیالات سے سہمت نہ ہو اور اس کا ساتھ دینے کی بجائے خود کو اس سب سے الگ تھلگ ہی رکھے۔ ایسے میں اس بندے کی ذاتی شناخت کا المیہ اور باپ کا ساتھ نہ دینے کا احساس جرم اس کی نفسیات کی کیسی بُنت کرے گا؟ اور اگر وہ لکھاری ہے تو اس کا اثر اس کی تحریروں پر کیا ہو گا ؟ اس کا اندازہ جوزف کونراڈ (Joseph Conrad) کی شخصیت اور اس کی تصانیف سے لگایا جا سکتا ہے ۔
جوزف کونراڈ (Józef Teodor Konrad Korzeniowski) جب 3 دسمبر 1857 ء کو 'بردیشیو' میں پیدا ہوا تو یوکرائن پولینڈ کی بادشاہت کا حصہ رہنے کے بعد روس کی عملداری میں تھا۔ باپ تھا کہ اپنی انقلابی و پولش حب الوطنی کی سیاست اور تصانیف کی وجہ زار حکومت کے ہاتھوں زیر عتاب ہی رہا اور در بدر ہی کیا جاتا رہا، ایسے میں گھر پر ہی حاصل کردہ تعلیم نے اسے پولش رومانوی شاعری، وکٹر ہیوگو اور شیکسپیئر سے متعارف کروایا۔ 1865 ء میں ماں اور 1869 ء میں باپ کے مرنے پر گیارہ سالہ اپنے ماموں تیڈیوز بوبروسکی ( Tadeusz Bobrowski) کی گارڈین شپ میں آ گیا ۔ اچھا طالب علم نہ تھا اس لئے سوائے علم جغرافیہ کے اور کسی پر عبور حاصل نہ کر سکا ۔
نحیف اور لاغر کونراڈ بارے ڈاکٹروں اور اس کے ماموں کا خیال تھا کہ اس کی اس حالت کا تعلق اس کی الجھی ہوئی نفسیات سے ہے جس کا حل انہیں یہ نظر آیا کہ اسے کوئی ایسا پیشہ اختیار کرایا جائے جس میں جسمانی مشقت بھی ہو۔ وہ ہائر سکول کی پڑھائی بھی نہ مکمل کر پایا تھا کہ تیڈیوز بوبروسکی نے اسے فرانس میں مارسیلز بھجوا دیا کہ وہ مرچنٹ نیوی میں سیلر (sailor ) بن سکے۔ پابندیوں سے بیزار، لا ابالی کونراڈ جس کے دماغ پر لکھاری بننے کا خبط سوار تھا، اس وقت سولہ سال تھا ۔
وہ سترہ سال کا ہی ہوا تھا کہ بطور مسافر موںٹ بلانک نامی تین بادبانوں والے جہاز پر سوار ہوا جو جزائر غرب الہند میں سینٹ پرپری جا رہا تھا ۔ واپسی پر وہ جہاز کے عملے کا رکن بن چکا تھا ۔ اگلے تین سال وہ فرانسیسی مرچنٹ نیوی میں کام کرتا رہا لیکن جب یہ آشکار ہوا کہ وہ غیر ملکی اور روسی ہونے کی وجہ سے روسی سفارت خانے کی اجازت کے بغیر کام نہیں کر سکتا تو وہ 1878 ء میں برطانیہ آ کر اس کی مرچنٹ نیوی میں بھرتی ہو گیا جہاں اس کا یہ کیرئیر جنوری 1894 ء میں اس وقت ختم ہوا جب اس کے ماموں کو فوت ہوئے صرف سولہ روز ہوئے تھے ۔ اپنے اس 19 سالہ کیرئیر میں وہ سٹیورڈ، ایبل۔باڈیڈ سی مین (able-bodied seaman) ، تھرڈ میٹ ، سیکنڈ میٹ ، فرسٹ میٹ اور بطور کیپٹن کام کرتا رہا ۔ اس نے لگ بھگ دس سال بحری سفروں اور باقی کا عرصہ بندرگاہوں میں گزارا ۔
17 جنوری 1894 ء کو وہ مرچنٹ نیوی کو خیر باد کہہ کر جب لندن میں اترا تھا تو وہ 36 برس کا تھا ، ماموں کا دباوٗ ختم ہو چکا تھا اور اب وہ ادیب بننے کے اس خبط کو حقیقت کا رنگ دے سکتا تھا جو بچپن سے اس کے سر میں سمایا ہوا تھا ۔ اگلے ہی برس اس کا ناول ' المائر کی حماقت ' ( Almayer's Folly) شائع ہوا جس کے بعد اس کا ادبی سفر اس کی موت تک جاری رہا ۔
کونارڈ نے جتنے بھی رومانس کئے وہ اس کے ناولوں اور افسانوں میں کہیں نہ کہیں جھلکتے ضرور ہیں جیسے مارسیلز میں کیا عشق ناول ' سونے کا تیر 1919 ء ' ( The Arrow of Gold ) میں صاف دکھائی دیتا ہے لیکن عمومی طور پر وہ مردوں کی محفلوں میں خوش رہنے کے لئے مشہور ہے ۔ مارچ 1896ء میں اس نے ایک انگریز ورکنگ کلاس کی لڑکی ' جیسی جارج ' سے شادی کی جس سے اس کے دو بیٹے پیدا ہوئے ۔ اسی برس اس کا ناول ' وہ جو جزائر میں اچھوت ٹہرا ' (An Outcast of the Islands) بھی شائع ہوا ۔
اس کی زندگی میں شائع ہونے والا آخری ناول روور (Rover) تھا جبکہ اس کا باقی کام اس کی موت کے بعد شائع ہوا ۔ اس نے فورڈ میڈوکس فورڈ کے ساتھ مل کر بھی تین ناول لکھے جن میں ' ایک جرم کی نوعیت' (The Nature of a Crime) اہم ہے ۔ اس کے افسانے اور مضامین بھی اپنی جگہ اہم ہیں ۔ اس نے ایک ڈرامہ ' جیت سے مکالمہ (Dialogue to Victory) اور ایک خاموش فلم کا سکرپٹ ' گیسپر: ایک توانا آدمی ' بھی لکھا ۔
کونراڈ کے نقاد اس کے ادبی سفر کو تین حصوں میں منقسم کرتے ہیں۔ اولاً 1895ء تا 1911ء تک جس میں اس کے اہم ناول ' نارسیسس کا نیگرو 1897ء' ( The Nigger of the 'Narcissus) ، ' اندھیارے کا دل 1897 ء ' ( Heart of Darkness) ، لارڈ جم 1900 ء ' (Lord Jim) ، نوسترومو 1904 ء ' (Nostromo) ، خفیہ ایجیٹ 1907ء ' ( The Secret Agent) ، اور ' مغربی آنکھوں کے تلے 1911 ء ' ( Under Western Eyes ) شمار ہوتے ہیں ۔ دوم 1913ء تا 1918ء جس میں ' موقع 1913 ء ( Chance ) اہم تھا ۔ اور سوم 1918ء تا وفات جب کونراڈ جنگ کے خوف سے نکل تو آیا لیکن امن کا یہ زمانہ بھی اسے کچھ زیادہ اطمینان نہیں دے سکا کہ وہ اس کے مستقل ہونے کے بارے میں مشکوک تھا ۔
کونراڈ سیاسی طور پر جمہورہت اور سوشلسٹ خیالات کا حامی نہیں تھا ، اپریل 1924ء میں جب برطانوی لیبر پارٹی کی حکومت نے اسے نائٹ ہڈ شپ دینے کا اعلان کیا تو اس نے یہ لینے سے انکار کر دیا تھا ، البتہ اسے قومیتوں کی آزادی کا حامی کہا جا سکتا ہے ۔ اس کے ناول ' اندھیاے کا دل 1897 ء ' کے حوالے سے اس پر نسل پرستی کا بھی الزام لگا ۔ پولینڈ میں اس کے سارے لکھے کام کو پولش زبان میں منتقل تو کیا گیا لیکن اس کا ناول ' مغربی آنکھوں کے تلے 1911 ء ' اس میں شامل نہیں تھا ۔ پولینڈ کی کمیونسٹ حکومت کا خیال تھا کہ سوشلسٹ مخالف ناول ہے ۔
کونراڈ کے ناولوں ، کہانیوں اور نان فکشن کا اثر جہاں ڈی ایچ لارنس ، ٹی ایس ایلیٹ ، ولیم فاکنر اور جارج اورویل جیسے بہت سے ادیبوں پر نظر آتا ہے وہیں ' سنیما ، ٹی وی ، اوپیرا اور موسیقی نے بھی اثر لیا ۔ یہاں 1965ء کی فلم ' لارڈ جم ' کا ذکر کرنا بے محل نہ ہو گا جس میں اداکار پیٹر او ٹول نے کارڈ جم کا کردار ادا کیا تھا ۔ اسی طرح 1967ء کی فلم ' روور ' بھی اہم ہے جس میں مرکزی کردار انتھونی کوئین نے ادا کیا تھا ۔ فرانسس کپولا کی 1979ء کی فلم ' اپوکلیپس نائو ' کا مرکزی خیال ' Heart of Darkness ' سے لیا گیا تھا ۔
در بدر پھرنے اور ہر جگہ خود کو اجنبی محسوس کرنے والا، برطانوی شہریت ملنے کے باوجود برطانوی کلچر میں بھی اجنبی رہنے والا کونراڈ کینٹ ، برطانیہ کے گاوٗں بشیپس بورن میں اپنے گھر میں 3 اگست 1924ء کو خاموشی سے فوت ہو گیا ۔ وہ 66 برس کا تھا ۔ اُس وقت کینٹربری میں کرکٹ میلہ منایا جا رہا تھا اور شہر لوگوں سے اٹا پڑا تھا لیکن جب کونراڈ کا جنازہ اس کی سڑکوں سے گزرا تو چند قریبی عزیز اور دوست ہی ساتھ تھے۔ سڑکوں پر لوگ چھنڈے تو لہرا رہے تھے لیکن اس کے لئے نہیں بلکہ یہ تو تھے کرکٹ فیسٹیول کے لئے اور انہیں یہ معلوم تک نہ تھا کہ ان کے درمیان سے گزرنے والا جنازہ ایک اہم لکھاری کا ہے۔ کرکٹ فیسٹیول کے رولے میں کندہ کرنے والے نے بھی اس کی قبر پر اس کا نام غلط کھود ڈالا تھا۔
جب تابوت کو مٹی میں اتارا جا رہا تھا تو دو چار اخباری نمائندے ہی تھے جو حاضرینِ موقع سے اس کے بارے میں معلومات لے رہے تھے ۔ دنیا بھر میں اس کی یاد میں جو میموریل کھڑے کئے گئے وہ تو خیر بعد کی باتیں ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔