بیالیس کروڑ سال قبل، ڈینووین دور کی ابتدا میں، پودوں نے زمین کو بھرنا شروع کیا تھا۔ یہ چھوٹے سے تھے جیسا کہ کائی۔ چند انچ سے زیادہ بڑے شاذ و نادر ہی ہوتے تھے۔ لیکن چھ کروڑ سال بعد، ڈینووین دور کے اختتام پر، بڑے درخت دنیا میں پھیل چکی تھے اور ہماری زمین کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسے ہوا؟ اس تحقیق کی ابتدا تقریباً سو سال پہلے نیویارک ریاست میں گلبوا کی کان میں ہوئی۔ یہاں کام کرنے والوں نے ایک عجیب چیز دریافت کی۔ یہ پتھروں اور مٹی میں دفن سینڈ سٹون میں محفوظ نقوش تھے جو انتالیس کروڑ سال پہلے کے درخت لگتے تھے۔ فاسلز کے اس جنگل نے پودوں کی ارتقائی تاریخ کی ابتدائی سمجھ کو کئی دہائیوں تک متاثر کیا۔ خیال تھا کہ لکڑی کی آمد وہ ایڈاپٹیشن تھی جس کا تعلق قد نکال کر دھوپ حاصل کرنے کے لئے تھا۔ لیکن 2010 میں اس علاقے سے ہونے والی نئی دریافت نے اس پر نئی روشنی ڈالی۔ ان قدیم درختوں میں لکڑی تھی ہی نہیں۔ لیکن جنگل کا فرش ایک اور پودے کی جڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور یہ جڑیں لکڑی سے بنی تھیں۔ درختوں کے ارتقا کے لئے اوپر کی طرف نہیں، نیچے کی طرف دیکھنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قدیم جنگل کی دریافتوں نے سائنسدانوں کو ایک نئی سمجھ دی کہ آخر کیسے ہمارا سیارہ الجی کی سلطنت سے درختوں کی حکمرانی پر منتقل ہوا۔ یہ لکڑی کی کہانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی پودے سینتالیس کروڑ سال پہلے کے ہیں جنہیں نئے ماحول سے مطابقت حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا تھا۔ زمین خشک تھی، مشکل ماحول تھا اور زیادہ غذائیت موجود نہ تھی۔ دو آپشن تھے۔ کسی گیلی زمین پر رہا جائے جیسے دلدلی علاقہ۔ یا اپنے جسم میں ماحول کے مطابق پانی کی سطح برقرار رکھنے اور خشک ہونے سے بچنے کا طریقہ تلاش ہو۔
کچھ پودے دوسرا طریقہ اپناتے ہیں لیکن پودے کے میٹابولزم کے لئے بہت مشکل ہے۔ اس لئے طویل عرصے تک پودے بہت چھوٹے رہے اور صرف گیلی زمین تک محدود رہے۔
ڈینووین دور کے پہلے چوتھائی حصے میں جا کر یہ تبدیل ہونے لگا۔ ہمیں یہ کیسے پتا ہے؟ 2011 میں محققین نے پودوں کی نئی نوع رپورٹ کی جو پونے اکتالیس کروڑ سال پہلے کی ہے۔ (یہ گلبوا کے جنگل سے تقریباً دو کروڑ سال پرانی ہے)۔ اس وقت کئی پودے ایک ٹشو بنا چکے تھے جو “زائلم” ہے۔ اس سے پانی کو پودے کے نیچے سے اوپر جانے میں مدد ملتی تھی۔ نئی ملنے والی نوع میں زائلم کی ایک سے زیادہ تہیں تھیں۔ اس میں ثانوی زائلم بھی تھا، جسے لکڑی کہتے ہیں۔ لکڑی میں سیلولوز ریشے ہوتے ہیں اور ایک کمپاوٗنڈ جو لگنن کہلاتا ہے۔ (یہ نامیاتی پولیمر ہے)۔ لگنن اور سیلولوز خشکی پر پودوں کی خلیاتی دیوار کے بڑے اجزا ہیں۔ یہ سٹرکچر اور سپورٹ دیتے ہیں اور یہ وہ اجزا ہیں جن کی وجہ سے لکڑی سخت ہوتی ہے۔
یہ پودے اونچے نہیں تھے۔ ہماری ایڑیوں تک ہی پہنچتے تھے لیکن یہ لکڑی جیسا سٹرکچر بنانے کیلئے توانائی استعمال کر رہے تھے۔ لیکن کیوں؟ اتنا چھوٹا پودا ایسا کیوں کرے گا؟ شاید اس لئے کہ پیاس سے بچ جائے۔
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی لکڑی پانی کو زیادہ موثر طریقے سے ٹرانسپورٹ کرنے کا ایک مکینزم تھا جو زائلم کی ایک تہہ سے بہتر کام کرتا تھا۔ کیونکہ تاریخ کے اس دور میں پانی ایک بڑا چیلنج تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ پودوں کو پانی، دھوپ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ درکار ہے، تاکہ فوٹوسنتھیسس کیا جا سکے۔ یہ چھوٹے سے مسام سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جن کو سٹومیٹا کہا جاتا ہے۔ لیکن ان مساموں کے کھلنے سے پانی کی تبخیر بھی ہو سکتی ہے جس کا پودے کو نقصان ہے۔ اس دور میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب گر رہا تھا۔ پودوں کو سٹومیٹا کو زیادہ عرصے تک کھلا رکھنا پڑتا تھا تا کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر سکیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ اس دوران زیادہ پانی کا اخراج ہو جاتا۔ اور اس وجہ سے پانی کو محفوظ رکھنے کے لئے لکڑی کی ڈویلپمنٹ بہترین حکمتِ عملی تھی۔ کیونکہ یہ پانی کی ترسیل کے لئے بہترین ہے۔
اسی لئے، معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی والے ٹشو پودوں کو “پیاس” سے محفوظ رکھنے کی حکمتِ عملی تھی۔ لیکن پودوں نے یہیں پر بس نہیں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لکڑی کا ارتقا ڈینووون دور کے آخر تک پانچ الگ فیملی میں ہو چکا تھا۔ یہ کنورجنٹ ایوولیوشن کا واضح کیس ہے۔ یعنی یہ اتنی کامیاب حکمتِ عملی تھی کہ اس ایک ہی چیز کا ارتقا الگ الگ جگہ پر ہوا۔
جس طرح زیادہ پودوں نے اس کو ڈویلپ کرنا شروع کیا، انہوں نے ماحول میں اپنے لئے نئی درزیں استعمال کرنا شروع کر دیں۔
لکڑی والی جڑوں سے پودے مضبوط طریقے سے زمین کو پکڑ سکتے تھے۔ یہ ان کو قد بڑھانے میں مدد دیتا تھا۔ اور جس وقت پودے لکڑی والے ٹشو بنا رہے تھے، اسی اثنا میں ان میں نئی جدتیں آ رہی تھیں۔
جب ابتدائی پودے زمین پر پہنچے تھے تو ان میں سے زیادہ تر کی افزائشِ نسل کا طریق برزے یا سپور کے ذریعے تھا (جو سفوف کی طرح تھا)، جسے یہ پودے خارج کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا انحصار گیلے ماحول پر تھا۔ ورنہ یہ سپور بڑھ نہیں سکتے تھے۔ ان میں افزائشِ نسل والے خلیوں کو پانی کی باریک تہہ کی ضرورت تھی۔ لیکن ایک بار لکڑی آ گئی تو اس کی مدد سے پودے پانی مھفوظ رکھ سکتے تھے اور انہیں گیلے ماحول کی اتنی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے افزائشِ نسل کے مزید طریقے ڈویلپ کرنا شروع کر دئے۔
اس کی ایک مثال آرکیوپٹیرس کا پودا تھا۔ یہ آج کے صنوبر اور جنگو درختوں کا جد تھا۔ اس کی افزائشِ نسل بھی سپور کے ذریعے تھے لیکن اس میں نر اور مادہ سپور ہوا کرتے تھے، جو اپنے دور میں منفرد تھا۔ مادہ سپور بڑے تھے اور ان میں نئے پودے کے لئے خوراک ذخیرہ تھی۔ یہ “بیج” کی جدت کی طرف قدم تھا۔ آرکیوپٹیرس کا طریقہ کامیاب رہا اور یہ زمین بھر میں پھیل گئے۔ نئے پودے کو ابتدائی خوراک کا ذخیرہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ اس کو آئیڈیل ماحول کی ضرورت نہیں تھی۔ اس پودے کے فوسل اینٹارٹیکا سمیت دنیا کے ہر برِاعظم میں ملے ہیں۔ یہ ابتدائی جدید درخت سمجھا جاتا ہے جو سینتیس کروڑ سال پہلے نمودار ہوا۔ اس کا قد تیس میٹر تک ہو سکتا تھا جو ڈیونین جنگلوں کا دیو تھا۔
اس کی جڑیں گہری اور پھیلی ہوئی تھیں جس سے زیادہ پانی اور غذائیت اکٹھی کی جا سکتی تھی۔ آرکیوپٹریس اور اس قسم کے درختوں نے جانوروں کے رہنے کی نئی جگہیں تخلیق کیں۔ اور ان کے لئے خوراک بھی۔ ان کی جڑوں نے پتھر توڑے۔ ان سے نئی معدنیات کا اخراج ہوا جو پانیوں تک پہنچا۔ ان نباتات کی جڑوں کے سسٹم نے دریائی تلچھٹ کو مضبوطی دی جس سے بل کھاتے دریاوٗں کو بننے کا موقع ملا۔
ان کے مرنے، گلنے سڑنے اور پھر سے نئے اگنے کے سائیکل نے مٹی میں دستیاب غذائیت کی مقدار میں اضافہ کیا۔ اور ان پودوں کی لکڑی ڈینووین دور میں براہِ راست بہت سی مٹی کی تخلیق کی ذمہ دار تھی۔ مٹی میں نامیاتی مادہ جو ہیومس کہلاتا ہے، سب سے زیادہ لکڑی سے ٹوٹی ہوئی لگنن سے بنتا ہے۔
اور پتھروں کے ٹوٹنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے نکالنے کے عمل کے دوران ڈینوون دور میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں نمایاں کمی ہوئی۔ یہ کمی اس وقت کی سمندری انواع کے لئے بری خبر تھی۔ اور یہ ڈینووین دور کے آخر میں ہونے والی انواع کی معدومیت کی بڑی وجہ بنی۔
لیکن بات یہ ہے کہ درختوں نے براہِ راست ویسی دنیا تخلیق کی ہے جس کو ہم آج جانتے ہیں۔ زمین کو بھی بدل کر، فضا کو بھی بدل کر، موسم بدل کر، جانوروں کو رہنے کی جگہیں فراہم کر کے۔ درختوں نے ڈیونین کی دنیا ختم کی۔ اگر یہ نہ ہوتے تو ہماری والی دنیا شروع نہ ہوتی۔
ڈیونین کے دور کے آخر تک پودے تقریباً وہ تمام خاصیتیں حاصل کر چکے تھے جو انہیں پھلنے پھولنے کے لئے ضروری تھیں، سوائے ایک کے۔ نباتات میں اگلی بڑی جدت آنے میں بیس کروڑ سال مزید لگے۔ یہ جدت پھولوں کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلبوا کے نیم جنگل سے بلند درختوں تک سب سے بڑی جدت لکڑی کا ارتقا تھی جس کی مدد سے زمین کو درختوں نے فتح کر لیا۔ اور جب تک پودوں نے افزائشِ نسل کے لئے بیجوں کو استعمال کرنا شروع کیا، ان کے پاس کئی ایڈاپٹیشن آ چکی تھیں جو آج نباتات کی پہچان ہیں۔ جڑیں، لکڑی، پتے اور بیج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی تبدیلی لانے والے شاید انسان رہے ہیں۔ لیکن اس سے بڑا کام نباتات نے کیا ہے۔ اور ہم یہاں نہ ہوتے اگر درختوں نے اپنا کام نہ کیا ہوتا۔
تو پھر ہم ان کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں ایسا سیارہ دیا جس پر ہم رہ سکتے ہیں۔
اس کی ویڈیو
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...