بیماریوں سے لڑنے اور امراض کے خاتمے کے لیے پودوں کا استعمال زمانۂ قدیم سے کیا جا رہا ہے۔ آج میڈیکل سائنس ترقی کے ہفت آسمان پر پہنچ چکی ہے اور نت نئی بیماریوں کی ادویہ دریافت کر چکی ہے۔ لیکن زمانۂ قدیم میں جب کہ دنیا میڈیکل سائنس کے نام تک سے واقف نہیں تھی ، اس وقت اطبّاء بیماریوں کا کامیاب اور تشفی بخش علاج انھیں پودوں سے کیا کرتے تھے ۔مقام افسوس ہے کہ آج ہم پودوں کے طبی فوائد کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور ہومیو پیتھ سے زیادہ ایلو پیتھ دواؤں پر یقین رکھتے ہیں ۔ بیمار ہونے پر جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے ماہر حکیم کے پاس جانے کے بجائے ہم انگریزی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور مہنگے اسپتال کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ آج ہم بیماریوں سے لڑنے کے لیے نئے پودوں کی تلاش نہیں کر رہے ہیں ، بلکہ انگریزی دوائیوں اور ٹبلیٹس کو ہی اپنے درد کا درماں سمجھ رہے ہیں اور ہمارے آباء و اجداد عرصہ دراز سے بیماریوں کے ازالے کے لیے جو پودے استعمال کر رہے تھے ، ان کے نام اب ہم بتدریج بھولتے جا رہے ہیں ۔
آج ہم جس وسیع و عریض دنیا میں زندگی گذار رہے ہیں ، یہ درختوں اور پیڑ دوں سے گھری ہوئی ہے۔ ان پودوں کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ہم انھیں کھاتے ہیں، پہنتے ہیں ، اپنے چوپایوں کو کھلاتے ہیں اور گھروں کی تعمیر میں ان کا استعمال کرتے ہیں ۔
بیماریوں کے علاج سے لے کر گھر کی آرائش وجمال اور دوست احباب کو تحائف دینے تک میں ہم ان کا استعمال بھرپور انداز میں کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہم اب تک پیڑ پودوں کا مکمل طور پر استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔ برطانیہ میں قائم بوٹینیکل گارڈن میں محققین پودوں کی ایسی خاصیت تلاش کر رہے ہیں جن سے انسانی زندگی بہتر ہو سکے ۔
اب پودوں کی مدد سے خشک سالی، سیلاب اور جنگل کی آگ سے نمٹنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ فاقہ کشی سے بچنے ، گلوبل وارمنگ کی تباہیوں سے محفوظ رہنے اور پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے سائنس داں ” مسیحا پیڑ پودوں ” کی تلاش میں سرگرم عمل ہیں۔
ہم جس قسم کی فصلیں اگاتے ہیں ، ان کی جنگلی یا خود رو اقسام بھی دنیا میں موجود ہیں۔
بوٹینیکل گارڈن میں اسی مناسبت سے ” فصلوں کے جنگلی رشتہ داروں” کی تلاش جاری ہے ۔ پودوں کی یہ جنگلی اقسام کیڑوں ، بیماریوں اور پانی کی قلت سے دنیا کو نجات دلانے میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بیان کے مطابق آج علاج میں تقریباً 28/ ہزار پودوں کا استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن ان پودوں میں سے صرف ٪16 فی صد کا ذکر ملتا ہے۔
پودوں یا جڑی بوٹیوں پر مشتمل دواؤں کا دنیا بھر میں تقریباً 83 / ارب ڈالر کا کاروبار ہو رہا ہے۔ اگر چہ آج جدید میڈیکل سائنس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ، مگر مقام شکر ہے کہ اس گئی گذری حالت میں بھی پودوں اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے قدرتی طریقۂ علاج دن بدن مقبول ہو رہا ہے۔
جرمنی میں ٪90 فی صد لوگ پودوں پر مشتمل دوائیں استعمال کرتے ہیں ؛ جن میں لہسن، ادرک، لونگ وغیرہ شامل ہیں۔
پودوں کی چند جنگلی اقسام ہیں جو ہمارے لیے حیرت انگیز طور پر علاج کا کام کر سکتی ہیں ۔ اسی قسم کا ایک پودا ” اینسیٹ ” ہے ۔ یہ افریقی ملک ایتھوپیا میں اُگتا ہے۔ ایتھوپیا کے لوگوں میں اس کے دو سو نام مشہور ہیں۔ وہ اسے کھاتے ہیں، ادویات اور چٹائی بناتے ہیں۔ گھروں کی تعمیر اور جانوروں کے چارہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس سے کپڑے بھی بناتے ہیں۔
” اینسیٹ ” کیلے کے خاندان کا ایک جنگلی پودا ہے ، جسے دوسرے ممالک میں اگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ سائنس دانوں کی کوشش ہے کہ اسے دوسرے ممالک میں بھی اگایا جائے ، تاکہ اس کی ہمہ گیر افادیت عام ہو سکے ۔ اینسیٹ سے آٹا، اور سوپ بھی بنتا ہے اور اسے آلو کی طرح ابال کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس پودے کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ خشک سالی ، سیلاب اور طوفان میں بھی خود کو محفوظ رکھ لیتا ہے ۔
نباتات یعنی پودوں کی ہمہ جہت تاثیرات کو دیکھتے ہوئے سائنسدان ایسے جادوئی پودوں کی دریافت میں بھی لگے ہیں جو ہماری تمام تر ضروریات کو پورا کریں ، ہماری مشکلات کو آسان کریں اور کرۂ ارض کو بچانے میں مددگار ثابت ہوں۔
گھر میں پودے لگانے کے طبّی فوائد :
گھر میں پودے لگانے کے ویسے تو کئی فائدے ہیں ، لیکن اب ڈاکٹروں نے باقاعدہ اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ گھر میں اگائے گئے پودے طرز زندگی اور انسانی صحت پر نہایت اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔
ایک ڈاکٹر ایمی لاک کے مطابق اس کا بچپن جس گھر میں گذرا وہاں بے شمار پودے تھے۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر دوسری جگہ مقیم ہوگئی تو اس کا اثر یہ ہوا کہ پودوں کی کمی کی وجہ سے اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے اور اسے پودوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ چنانچہ ڈاکٹر ایمی کہتی ہے کہ میں جہاں بھی گئی اپنے آس پاس پودے ضرور لگائی۔
ماہرینِ طب کے مطابق پودے چاہے درختوں کی شکل میں گھر کے باہر ہوں یا چھوٹے گملوں میں گھر کے اندر ، یہ دماغی صحت پر بڑے اچھے اور خوش گوار اثرات ڈالتے ہیں ۔ پودے ہمارے دل و دماغ کو فرحت و تازگی بخشتے ہیں اور جب ہمارا موڈ آف رہتا ہے تو یہ اسے آن یعنی بہتر کرتے ہیں ۔ آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔
سائنس دانوں کے مطابق فطرت آپ کے موڈ کو تبدیل کردیتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں تو پودوں کے قریب بیٹھ کر کریں اس سے یقیناً آپ کی تخلیقی کارکردگی بہتر ہوگی۔
گھر میں موجود پودے گھر کی ہوا کے معیار کو بہتر بناتے ہیں۔ آج کل جو ہوا ہمیں میسر ہے وہ آلودگی سے بھرپور ہے۔ پودے ہوا کو آلودگی سے صاف کرتے ہیں اور ہوا کو تازہ کرتے ہیں۔ پودے ہوا میں نمی کے تناسب بھی بڑھاتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق پودے درد اور تکلیف کو کم کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے تحت ایک اسپتال میں مریضوں کے قریب پودے رکھے گئے۔ جن کے قریب پودے تھے ان مریضوں نے درد کش دواؤں کا کم استعمال کیا بہ نسبت ان مریضوں کے جن کے قریب پودے نہیں رکھے گئے تھے۔
شجر کاری کے طبی فوائد کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقتباس بھی ملاحظہ کریں :
جناب ڈاکٹر بدرالدجیٰ ، استاذ مسلم یونیورسٹی نے، علی گڑھ (اے ایم یو) کے سر سید ہال میں پیڑ پودوں کی دیکھ بھال کرنے والے مالیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ہاسٹل کی رونق و شادابی آپ ہی جیسے لوگوں کی وجہ سے ہے ، جس کی ہر سطح پر تعریف ہونی چاہیے۔ انہوں نے اچھے طریقے سے پودوں کی دیکھ بھال کرنے پر انعام و اکرام سے بھی نوازنے کا اعلان کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے اچھی صحت اور اچھے ماحول کی تشکیل کے لیے شجر کاری کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ :
یہ ضروری نہیں ہے کہ یوم ماحولیات پر ہی اس جانب توجہ دی جائے بلکہ یہ دن تو صرف اس لیے ہے تاکہ ہم اس کو نہ بھولیں اور کم از کم ایک دن ہم اس جانب پوری طرح سے متوجہ ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ماحولیات کی تباہی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ لوگوں کو دروازے اور کرسی میز تو لکڑی کی چاہیے مگر پودے لگانا وہ ضروری نہیں سمجھتے ۔ ہمیں اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
ڈکٹر بدرالدجی نے طلبہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں صرف نصابی علم حاصل کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ آپ یہاں زندگی جینے کا طریقہ سیکھنے آئے ہیں ۔ اس لیے کتابی دنیا سے باہر نکل کر بھی سوچیے اور ملک و وطن کو صحت مند اور شاداب رکھنے کے لیے پیڑ پودے لگائیے ۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کوصحت بخش ماحولیات کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ہو سکتاہے جب ہم اپنے ارد گرد درخت لگائیں اور شجرکاری کا کام احسن طریقے سے انجام دیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب اچھی فضا اور اچھا ماحول ملتاہے تو طبیعت میں نشاط پیدا ہوتی ہے اور ہر کام میں دل لگتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے سر سید کے بنائے ہوئے اس تاریخی ہال کو پیڑ پودوں سے سجا رکھا ہے جس میں ہمارے مالی بھائیوں کا بڑا اہم کردارہے ۔ انہوں نے کہا کہ پیڑ پودوں کی ہریالی سے پڑھائی میں بھی دل لگتا ہے ، کیوں کہ اس سے لوگوں پر ماحول کی خوش گواری کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ یہاں کے ذمہ داران کا تعاون کریں اور جب تک آپ ان کا تعاون کرتے رہیں گے ، ہمارا سر سید ہال اور ہماری یونیورسٹی سرسبز و شاداب اور خوب صورت بنی رہے گی۔
ڈاکٹر بدرالدجیٰ نے شجر کاری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ جہاں بھی جائیں ایک پودا ضرور لگائیں ، یہ ان کے لیے یادگار بھی ہوگا اور اس سے صحت بخش ماحولیات بھی وجود میں آئے گی ۔
گھر میں اگائے گئے پودوں سے ہمیں غذائی اشیاء اور جڑی بوٹیاں بھی حاصل ہوسکتی ہیں۔ جیسے ایلو ویرا، ہربز وغیرہ۔ ان پودوں سے اس مد میں خرچ ہونے والی رقم کی بچت بھی ہوسکتی ہے۔
انسان و حیوانات پر قدرت کے بے شمار انعامات میں سے ایک انعام یہ بھی ہے کہ اس نے ہمارے فائدے کے لیے پوری روئے زمین پر قسم قسم کے پیڑ پودے اگائے اور ان کی ہمہ گیر تاثیرات سے ماہرین کو واقف کرایا ۔ ان باکمال اور حیرت انگیز درختوں میں سے ایک زیتون کا درخت بھی ہے ، جو اپنے اندر بے شمار فوائد و تاثیرات رکھتا ہے ۔ ماہرین طب کا اتفاق ہے اور عوام و خواص بھی ان کے فوائد سے کچھ حد تک آگاہ ہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...