درخت کاٹئے، یہ بھی انڈسٹری ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قوم تھی جو اپنے معبود کی خوشنودی و تقرب کے لئے ہر سال ایک ہی دن میں ہزاروں لاکھوں درخت کاٹ دیتی تھی۔ کسی سمجھدار نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ تم لوگ کیوں اتنے درخت ایک ہی دن کاٹ دیتے ہو، معبود کی خوشنودی و تقرب کے ہزاروں دیگر طریقے بھی تو ہیں، محض درخت کاٹ دینے سے معبود کا تقرب کیسے حاصل ہو گا؟
قوم کہنے لگی: تم ہمیں انتہائی جاہل اور بے دین لگتے ہو، کیا خود تمھارے گھر میں لکڑی کا استعمال نہیں اور لکڑی کا بنا فرنیچر نہیں پڑا ہوا، پھر ہمارے درخت کاٹنے پر تمھیں کیا اعتراض ہے؟
وہ سمجھدار اس جواب پر اپنا سر پیٹ کر رہ گیا اور کہنے لگا: ضرورت کے لئے تو عام دنوں میں درخت کاٹے ہی جاتے ہیں جو استعمال کے لئے کافی ہوتے ہیں اور عام طور پر بھی بے دریغ درخت کاٹنا درست نہیں۔ مگر اس بنیاد پر صرف اپنے معبود کو خوش کرنے کے لئے ایک ہی دن میں لاکھوں درخت کاٹ دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ وہ قوم کہنے لگی:
تم ہمارے عقیدے کی حکمتیں نہیں سمجھ سکتے، جب اتنے درخت کاٹے جاتے ہیں تو ہمارے معبود کو درختوں کی لکڑی، پھل یا پتے نہیں پہنچتے بلکہ یہ ہمارے اور غریب نادار لوگوں کے استعمال میں ہی آتے ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے لاکھوں اربوں روپیہ کا کاروبار اور انڈسٹری وجود پاتی ہے۔ اس لئے اپنی بکواس بند کرو۔۔۔۔ ایڈا رہ گیا توں سیانا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔