شہر لاہور ویسے تو کئی حوالوں سے مشہور ہے ان میں سے ایک حوالہ شہر میں موجود باغات و پارک اور درختوں کا ہے۔ قدیم عہد سے ہی اگر دیکھا جائے تو شہر لاہور میں شجر کاری اور باغات موجود تھے۔
شہر کے درمیان نہر جو کہ شہر کی ایک اور نشانی بھی ہے، نہر کے ساتھ ساتھ درختوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ پرانی کتابوں میں جو کہ سوانح عمری پر ہو، ان کتابوں/حوالوں میں آپ کو اکثر یہ سننے کو ملے گا کہ وہ شخص گھر سے نکلا اور نہر کے کنارے گیا اور نہر کے صاف پانی (یہ نقطہ واضح ہے کہ صاف سے مراد نہری صاف ہے جو کہ زرعی استعمال کا پانی تھا، جس میں کسی قسم کی آلودگی اس وقت شامل نہ ہوتی تھی لیکن ہاں مٹی ضرور ہوتی تھی) جو کہ اکثر ٹھنڈا ہوتا اس میں نہاتے تھے اور نہر کے کنارے کے ساتھ ساتھ لگے درختوں کے گھنے اور ٹھنڈے سایہ میں وہ لوگ اپنی گرم بعد دوپہر پاشا میں گزارتے تھے۔
لیکن اب آج کے لاہور میں اگر یہ بات سنے کوئی تو اس کو یہ کوئی خواب خیال یا افسانہ معلوم ہو گا کیونکہ اب نہ تو نہر کے اطراف درختوں کی فراوانی ہے۔ ہاں کچھ ضرور ہیں لیکن اس طرح کا سبز بلکہ سر سبز ماحول نہیں ہے جو کہ آج سے20/30 سال قبل تھا اور نہ ہی شہر کی نہر کا پانی اب غیر صحت مند نہ ہے۔
بلکہ اب اس پانی میں بھی مختلف اقسام کے گندے پانی کی ملاوٹ ہوتی ہے، شہر لاہور میں نہر کے اطراف کے درختوں کی کٹائی کا نوحہ بہت طویل ہے۔
شہر لاہور کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی، نئی آباد کاری، گھروں اور رہائشی پلاٹوں کی طلب میں مسلسل اضافہ جس کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ شہر کی سڑکوں پر مسلسل ٹریفک کا بڑھتا دباؤ۔ اس لیے لاہور کی نہر کی تعمیر نو کے منصوبہ جات کافی دفعہ بنانے اور ان پر عمل درآمد بھی ہوا۔ جس کے نتیجہ میں درختوں کی کٹائی ہوتی رہی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے بہاؤ کو رواں رکھنے کے لئے نہر کے جزوی حصوں کی توسیع بھی ہوتی رہی۔
لیکن ساتھ ساتھ درختوں کی کٹائی بھی جاری رہی، درختوں کی کٹائی کے نتیجے میں اور ساتھ ساتھ کاروں کے دھواں میں اضافہ ہوا نتیجہ شہر میں آلودگی اور زہر آلود فضا۔
درختوں کی کٹائی صرف لاہور شہر میں نہر پر یا نہر کے اطراف ہی نہیں ہوئی بلکہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی توسیع منصوبوں کی وجہ سے سینکڑوں پرانے درخت جو کہ ایک بڑی نعمت تھے، وہ کاٹ دئیے گئے۔
حالیہ دنوں میں بھی اور گذشتہ کئی سالوں سے لاہور LCS/The Lahore Projectکے بانی اور روح رواں کامل خان ممتاز صاحب اور عمرانہ ٹوانہ صاحبہ کے ساتھ لاہور بچاؤ تحریک کے علی امجد صاحب اور نعیم احمد باجوہ صاحب نے ایک تحریک یا مہم شروع کی۔ گو کہ غم دنیا کی وجہ سے میں اکثر ان کے ساتھ عملاً شامل نہ ہو سکا لیکن میں ان کے ساتھ رابطہ میں رہا اور اس کارِ خیر کے لئے دلی ہمدردی بھی ساتھ رکھی۔
یہ مہم تھی لاہور میں مختلف جگہوں پر شجر کاری کی، اس مہم کے تحت ہر اتوار کو علی امجد صاحب اور نعیم احمد باجوہ صاحب اور دیگر (کبھی کبھی ان دیگر میں بھی شامل رہا ) شہر کے مختلف سکولوں میں اور ہر اس جگہ پر جہاں پر کوئی ذمہ دار شخص یا نوجوان یا لڑکا بھی ان درختوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری قبول کرتا۔ وہاں یہ لوگ ایک اتوار جاتے اور ان درختوں کو باقاعدہ لگا کر پانی دے کر آتے۔
اس مہم میں بہت سے لوگوں نے ساتھ دیا، لاہور بچاؤ تحریک میں بھی دیگر بے شمار لوگ نمایاں ہیں۔
درختوں کی کٹائی کی وجہ سے شہر میں ترقیاتی منصوبہ جات ہیں، یقیناً ترقی بھی ضروری ہے لیکن درختوں کا بچاؤ بھی اور اس کے ساتھ ساتھ چونکہ درختوں کی کٹائی ناگزیر ہو چکی تھی۔
اس لیے اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے اطراف میں درختوں کو لگائیں اور پھر ان کی اسی طرح دیکھ بھال کریں جیسا کہ ہم اپنے کسی اثاثہ کی کرتے ہیں، کیونکہ یہ ہماری ذاتی ذمہ داری ہے کہ درختوں کے قومی خزانہ کی ہم حفاظت اور دیکھ بھال کریں تاکہ ایک صاف اور شفاف ماحول میسر آسکے۔