دارالملوک سے سیف ا لملوک تک
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
اگر اس شہرہؑ افاق شعر کو یہ بندہؑ ناچیزبار دگر لکھنے کی جسارت کر سکتا تو گلہ کیسا کچھ اپنی شکرگزاری اور احسان مندی کا ذکر یوں کرتا کہ ہاں فرصت حیات ملی اور یوں مجھے ہیں اب نظرمیں حوصلے پروردگارکے ایک بار موت اس وقت اپنا روپ دکھا کے اوجھل ہوگیؑ تھی جب عمر کے 79 سال پورے ہو چکے تھے۔ میرے بیڈروم میں آگ لگی اوراگر جلنے یا دم گھٹنے سےسفر حیات تمام ہوجاتا تو لواحقین کو صبرجمیل کی روایتی تلقین کرنے والے بھی کہتے کہ ماشااللہ طویل عمر پایؑ لیکن غیب سے دو فرشتے نمودار ہوےؑ جوشکریہ ادا کرنے کیلےؑ بھی پھر نہ ملے ۔۔۔اورمجھےحیات نو کی نوید ملی ۔۔ اس کی تفصیل دہرانے سے اب کیا حاصل۔۔خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔۔ ایک ہفتہ قبل جھیل لولوسر سے واپسی پر شدید طوفانی بارش اور سردی میں جیپ کو رات 10 بجے وہ حادثہ پیش آیا جس کو خوفناک لکھا جا سکتا ہے۔ سر پھٹنے سے میرا خاصا خون ضایع ہوا اور طبی امداد 12 گھنٹے بعد ملی لیکن آج ایک ہفتے بعد ماہرین فیصلہ دے چکے ہیں کہ معجزاتی طور پر زخم مندمل ہورہا ہے اور80 سال پورے ہوجانے کے باوجود اللہ کی مرضی ہنوزمجھے مزید مہلت دینے کی ہے۔ کس کی دعا۔۔کون سی نیکی کام آیؑ ۔۔ واللہ اعلم
اگر میں کاغان۔۔ لولوسر جھیل یا سیفالملوک کا سفر نامہ بناوں تو اپ کی دعا سے قلم اسے ایک مکمل کتاب بنادینے پر قادر ہوگا اس میں بیشتر قارییؑن کیلےؑ دلچسپی کا ساماں تو شاید نکل آےؑ لیکن نیا کچھ نہ ہوگا۔ اس مملکت خداداد کے شمالی علاقے حسن قدرت کا سحر آفریں شہکار ہیں۔یہ امریکہ یا روس کی وسعت رکھنے والا ملک نہیں جہاں تین ٹایؑم زون ہیں۔ بیک وقت اس بہت چھوٹے سے ملک کے ایک حصے کا گرمی کی شدت سے آتش بار اور دوسرے حصے کا برفپوش ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ۔تصاویر یا وڈیوز یقینا" آپ کو مسحور کر سکتی ہیں لیکن تصویر میں وہ فیلنگ یا احساس کون شامل کر سکتا ہے جو 10 ہزار فٹ کی بلندی پرخالص ہوا کی فرحت بخش لطافت سے۔۔ جون میں منجمد برف کو تراش کر بناےؑ گےؑ راستے سے گزر کر۔۔ گرد و پیش پر محیط پورے منظر کی خوشبو۔۔آسمان کی خیرہ کن نیلاہٹ کو اور اس میں تیرتے چاندی جیسی چمک رکھنے والے بادلوں کو یا بہت اوپر کسی پہاڑ کی چوٹی پر شام کی دھوپ برف ۔ بادل اور نیلے اسمان کویک جا دیکھ کر صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔تصویر کشی کا معجزاتی محسوس ہونے والا فن اس احساس کو قید نہیں کر سکتا۔اس کودیکھنے کے ساتھ محسوس کرنے کا لطف و انبساط ایک طویل حوصلہ آزما سفر کا متقاضی ہوگا جس میں آپ خوٖف کے احساس پر قابو تو پا سکتے ہیں لیکن موت کو ہرقدم رفیق سفر ہونے سے نہیں روک سکتے
میرےاحساس کاسفردوسری بار بالا کوٹ سے شروع ہوا لیکن بہ انداز دگر۔۔ جب میں 1991 میں یہاں سے گذرا تھا تو ہر منظرنیا تھا اورپکارتا تھا کہ جا ایں جاست۔۔ میرے ساتھ پہلی بار کراچی سے نکلنے والے تیرہ چودہ برس کی دو بیٹیاں اوران سے چھوٹابیٹا تھے ہم اہک پہاڑی پر بنے اسمٰعیل شہید کے مزار تک گےؑ۔ ایک تنگ سے بازار میں گرم گرم پکوڑے کھاےؑ۔ جاتے ہوےؑ ایک خستہ حال پرانےمتروک پل سے اورواپسی پرنو تعمیر پل سے دریاےؑ کنہار کو عبور کیا جونیچے بڑے دھیمےپن سے بہتا تھااور ہوٹل نورجہاں میں کھانابھی کھایا۔ اس کے خوش مزاج مالک نے بل طلب کرنے پر رسما" ہی سہی لیکن کہا ضرور کہ رہنے دیں۔اور میں نےہنس کے کہآکہ پہلے آپ ہوٹل نورجہاں کانام خیراتی لنگرخانہ رکھدیں ۔۔اب خواب فردا کی طرح یہ صرف میرے تصور میں تھا۔درمیان میں انے والے ایک قیامت خیز۔۔ شاید بر صغیرکی تاریخ کے سب سے بڑے زلزلے نے بالاکوٹ کو لوح جہاں سے حرف مکرر کی طرح مٹادیا تھا۔میری نظروں کے سامنے جو نیا نویلا شہر تھا وہ یوں لگتا تھا جیسے پرانے گھر کے بچوں کو نیؑ نویلی ماں لگتی ہے۔خوبصورت ہونے کے باوجود سوتیلی۔۔ میرے ساتھ بیٹی داماد۔۔ ان کے بیٹی داماد اور ان کے بچے تھے جن کا میں پرنانا تھا۔پہلے وقت کی صرف یادیں باقی تھیں۔ کوہساروں کی پگھلتی برف کے پانی سے بنے دریا کا سرد اور تیز رفتارپانی پتھروں اورچٹانوں کی مزاحمت پرجھاگ اڑا کے پر شور احتجاج کرتا سارےسفر میں کاغان ناران اور جھیل لولو سر تک سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے بلندی کے ساتھ اس کی رفتار میں پر شور تیزی آتی جاتی ہے ۔ حادثاتی طور پر اس میں گر جانے والا خوف سے زیادہ پگھلی برف کی سردی سے بالکل مفلوج ہوجاتا ہے اورجگہ جگہ موجود چٹانوں سے ٹکرا کے پارہ پارہ ہو جانے والے جسم کوغصیلے پانی کا بہاواپنے ساتھ لے جاتا ہے ۔25 سال پہلے میں نے ایک جذباتی حماقت کی تھی جو کسی طرح بھی خود کشی کی کوشش سے کم نہ تھی۔ میں نے ہوٹل لالہ زار کے عین عقب میں بہتے دریا کے وسط میں ایک خاصی بڑی لیکن چکنے پتھر کی چٹان پر بڑے رومانٹک فلمی پوز میں ایک تصویر بنوایؑ تھی جو بچوں نے کھینچی تھی، اب سوچتا ہوں کہ ہم میں سے کسی ایک کا پیر پھسل جاتا تو دوسرا اسے پکڑنے کی کوشش میں ساتھ جاتا اور پھر ہمارا سراغ نہ ملتا ۔ بچے کیا کرتے۔۔کہاں جاتے۔۔آج کہاں ہوتے
چوتھایؑ صدی میں سب کچھ بدل گیا ہے کاغان اور ناران سیاحوں کی جنت بن گےؑ ہیں۔ جہاں پہلے صرف تین ہوٹل تھے وہان اب درجنوں کثیرمنزلہ ہوٹل ہیں لیکن ایک نیؑ چیزپلاسٹک کے وہ رنگین ٹینٹ ہیں جو ناران کے آس پاس دریا کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں بڑا خوشنما منظر پیش کرتے ہیں۔ ہوٹلوں کے بیڈ اور اٹیچ باتھ والے کمروں کے کراےؑ پانچ سے دس ہزار تک ہیں چنانچہ میری 20 افراد کی فیملی کو تین کمرے اضافی بیڈز کے ساتھ بڑی مشکل سے 50 ہزار میں ملے لیکن دو افراد کیلےؑ ٹینٹ صرف ایک ہزار میں مل جاتا ہے میں نے 4 اور 8 افراد کے ٹینٹ بھی دیکھے جن میں بستر فرش پر تھے لیکن باہر جدید کورولا کاریں کھڑی تھیں۔ظاہر ہے کہ یہاں سانپ بچھو یا دوسرے رینگنے والے کیڑے مکوڑے نہیں ہونگے۔سیاح جن کےٍ ساتھ فیملی نہ ہو صرف شب بسری کا ٹھکانا چاہتے ہیں۔نہانے یا کپڑے بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی منہ دھویا بہتے دریا میں اورروانہ۔جہاں جو ملا کھالیا۔بعض نے پیچھے گیس سلنڈروالے چولھے بھی باندھ رکھے تھے۔ پنکچرلگانا تو معمولی بات ہے وہ پورے میکانک بھی تھےاور ایک دوسرے کی مدد بڑے دوستانہ جذبے سے کرتے تھے
سیاحت کا یہ نیا صحت مند اور مثبت رجحان مجھے اس بار نوجوان نسل میں نظر آیا جو جینز یا برمودا میں عام 70 سی سی موٹر سایؑکل پردوسوار۔ ایک بیگ لے کر نکلے توہنستے گاتے سییف الملوک تک سینکڑوں کی تعداد میں پہنچے جہاں صرف 1952 سے 74 ماڈل تک کی "ملٹری ماڈل" ولیز جیپ جا سکتی ہے کیونکہ سڑک یکسر نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ فی پھیرا 6 ہزار وصول کرنے والے جیپ ڈراییؑورسڑک بنانے نہیں دیتے اور مقامی نمایندہ اپنے ووٹرز کی معاونت کرتا ہے۔پتھروں والے تنگ راستے کی چڑھایؑ کیلےؑ مشکل سے اتنا راستہ ہے کہ دو جیپیں ایک دوسرے کو چھوتی ہویؑ گذر جاییؑں یا ایک طرف کی ٹریفک روکی جاےؑ تو دوسری سمت سے آےؑ۔ ایک طرف ہزاروں فٹ کی گہرایؑ میں موت اپنی آغوش پھیلاےؑ نظر آتی ہے تو دوسری طرف پتھریلی چٹانیں ہیں یا برف کے گلیشیر کو کاٹ کر بنایا جانے والا راستہ۔پھر موڑ اتنے شارپ اور چڑھایؑ اترایؑ 45 ڈگری کی بھی آتی ہے۔میری عقل خبط تھی کہ آخر کیسے ان جیپوں کے ٹایؑر پنکچر تک نہیں ہوتے نہ شاک ٹوٹتے ہیں نہ ایکسل ۔۔ پھر یہ آج کی نازک اندام ٹین ایجر حسیناوں جیسی موٹر سایؑکلیں اس ناممکن ایڈونچر کی سختی سے گزر کے جھیل سیف الملوک کی دس ہزار فٹ بلندی تک کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ٹو وھیلر موٹر ساییؑکل کتنی قابل اعتماد اور محفوظ سواری ہے اگر اسے شہر کی بے ہنگم ٹریفک میں ون وھیلنگ کیلےؑ نہ استعمال کیا جاےؑ۔۔ایک ایسا ہی دل خوش کن تعاون کا جذبہ مجھے تمام ٹورسٹ برادری میں نظرایا جو ایک ایک گھنٹہ جاری رہنے والے ٹریفک جام میں بلا لحاظ عمر اور لسانی یا صوبایؑ تعصب ٹریفک کنٹرول کرنے نکل اتے تھے ایسا کسی احمق جلد بازڈراییؑور کی وجہ سے ہوتا تھا جو اپنی پراڈو کو کسی مہران کے پیچھے رکھنا کسر شان سمجھتا تھا اور لایؑن سے نکل کے آگے جانے کی کوشش میں سامنے سے آنے والی ٹریفک کا راستہ روک کے کھڑا ہو جاتا تھا۔ یہ رضاکارلایؑن بنانے کیلےؑ سڑک کے بیچ میں بڑے بڑے پتھر رکھتے بھی نظراۓ اور جب ٹریفک رواں ہویؑ تو سب پھراپنی اپنی گاڑی میں ہلہ گلہ کرنے ناچ گانے اور شور شرابے کے لےؑ سوار۔ اس شور شرابے میں مجھے کہیں بد اخلاقی کا شایؑبہ بھی نہیں ہوا
پیش خدمت ہیں آپ کی تفریح طبع کیلےؑ سینکڑوں میں سے چند منتخب تصاویر اور وڈیوز ۔ اس غیر متوقع پروگرام کی وجہ سے میری سرگزشت "میں کون ہوں اے ہم نفسو" کی پیشرفت رک گیؑ تھی۔۔ کراچی پہنچ کر چند دن میں قسط نمبر6ارسال کروں گا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔